گذشتہ ہفتے جبری لاپتہ کیے گئے عزیر بلوچ اور نواز سرور کی بازیابی کے لیے اہل خانہ نے ڈی بلوچ پوائنٹ پر ایم ایٹ شاہراہ کو بلاک کردیا ہے۔
احتجاج کے تیسرے دن خواتین مظاہرین اور مشتمل نوجوانوں نے ماشااللہ ہوٹل تک شاہراہ کو مختلف مقامات پر رکاوٹیں ڈال کر بلاک کردیا. جس کے نتیجے میں تربت سے لوکل گاڑیوں سمیت گوادر، پسنی اور کراچی کے درمیان چلنے والی ٹریفک مکمل طور پر جام رہ گئی ہے۔
بدھ کو احتجاج میں شدت لاتے ہوئے عزیر بلوچ کے اہل خانہ نے مین شاہراہ کے ساتھ ساتھ ٹریفک کی روانی مکمل جام کرنے کے لیے تمام ایسے راستے بھی بلاک کردیے جو پہاڑوں کے اندر سے گزرتی ہیں۔
سڑکیں بلاک ہونے کے باعث سیکڑوں مسافر اور مال بردار گاڑیاں دونوں جانب پھنس کر رہ گئی ہیں۔ اس دوران خواتین مظاہرین کی جانب سے عام لوگوں سے عزیر بلوچ اور دیگر لاپتہ کیے گئے افراد کی باحفاظت بازیابی یقینی بنانے کے لیے احتجاج میں شامل ہونے کا مطالبہ کیا گیا اور عام مسافروں سے تکلیف پر معذرت بھی کی گئی۔
انہوں نے مسافروں سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے پیاروں کی زندہ واپسی کے لیے ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں بچا ہے ہم نے عدالتوں سے لے کر انتظامیہ تک سب کا در کھٹکھٹایا مگر ہمیں انصاف نہیں ملا۔
لاپتہ عزیز بلوچ کے اہل خانہ نے کل بروز جمعرات شام 6 بجے ڈی بلوچ دھرنا گاہ میں اہم پریس کانفرنس کا اعلان کیا ہے۔