بی ایل اے کا نوشکی حملہ
ٹی بی پی اداریہ
تیرہ اپریل کی رات ضلع نوشکی میں شہر سے تین کلومیٹر دور مسلح افراد نے کوئٹہ – تفتان آر سی ڈی شاہراہ پر سلطان چڑھائی کے مقام پر ناکہ بندی کرکے بسوں اور گاڑیوں کی تلاشی لی اور شناخت کرنے کے بعد نو افراد کو اغوا کرلیا، جِن کی بعد میں لاشیں ملیں۔ بلوچستان میں دو مہینوں کے دوران یہ چوتھا بڑا واقعہ ہے، اس سے پہلے مچھ شہر میں مہلک حملہ کرکے بلوچ لبریشن آرمی نے شہر کو دو دن تک قبضے میں رکھا، گوادر شہر میں پورٹ کمپلکس اور تربت میں پی این ایس صدیق پر مجید بریگیڈ کے فدائین حملے کرچکے ہیں۔
بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے منصوبے بند حملوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہورہا ہے اور بلوچستان میں موجود فوجی تنصیبات، معاشی مراکز اور اہم شاہراہیں تسلسل سے حملوں کے زد میں ہیں۔ بلوچ مسلح تنظیموں نے اپنے کاروائیوں کو وسعت دی ہے اور بلوچستان کے جو علاقے محفوظ سمجھے جاتے تھے، اُن علاقوں میں بھی بڑے حملے کررہے ہیں۔ نوشکی سے پہلے کوئٹہ – سندھ اور گوادر – کراچی کی مرکزی شاہراہ پر بلوچ راجی آجوئی سنگر اور بی ایل اے پاکستان فوج اور نیوی پر اسی طرز کے حملے کرچکی ہے۔
پاکستانی فوج ؤ بلوچستان کی صوبائی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ بلوچستان کے بیشتر علاقے فوج کے کنٹرول میں ہیں اور بلوچستان کے متنازعہ وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے بلوچ مسلح تنظیموں کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کا عندیہ دیا ہے جس کے بعد کئی علاقوں میں فوجی آپریشن ہورہے ہیں لیکن مسلح تنظیموں کے کمپلکس حملوں سے واضح ہے کہ وہ بلوچستان و پاکستان کے مرکزی شہروں میں بڑے حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور خدشہ ہے کہ مستقبل میں بھی اس طرح کے حملے شدت کے ساتھ جاری رہیں گے۔