بلوچ جنگ اور جَست
تحریر: ماما مہندو
دی بلوچستان پوسٹ
جنگ، ٹکراؤ، تصادم، جدل ایک ہی چیز ہیں جو دو فرد، گروہ، قبیلہ، قوم اور قومیت کے علاوہ قدرتی اور آفاقی چیزوں کے درمیان وقوع پزیر ہوتی رہتی ہیں۔
دنیا میں انسان، حیوان یا بے جان چیزیں ہوا، پانی، سمندر، موسم وغیرہ سب کسی نہ کسی سطح پر کسی نہ کسی جدل میں ہوتے ہیں
انسانوں کے درمیان جنگ بھی ہر وقت کبھی سرد تو کبھی گرم البتہ جاری رہتا ہے مختفلف ممالک کی سرد چپقلش جب گرم شکل اختایر کرلیتی ہیں جس میں مختلف اقوام ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوتے ہیں تو یہ جنگ عظیم کہلاتا ہے اور یہ ٹکراؤ مختلف اوقات میں افق پر ظاہر ہوکر ہمارے سامنے بھی آجاتے ہیں۔
جنگ کی اپنی ارتقاء ہے ہر جگہ اس کی رفتار مختلف ہے کہی سست ہے تو کہی تیز جنگ کی رفتار مختلف عوامل کے بنیاد پر سست اور تیز ہوتی ہے جس میں متعلقہ علاقے کے زمینی حقائق شامل ہیں کسی قوم کا رہن سہن، ثقافت، تعیلم، شعور کے علاوہ جزبہ، ہمت و دلیری کا معیار بھی جنگ میں اہم کردار اداتا کرتا ہے۔
سب سے بڑھ کر موسم اور جغرافیائی حدود جنگ کے ارتقاء میں ایک بڑے تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ کسی قوم کا نفسیاتی اپروچ اور اس کے مدے مقابل دشمن کا نفسیاتی اپروچ بھی جنگ کے ارتقاء کے سست اور تیز ہونے کا سبب بنتے ہیں۔
ان سب کے علاوہ موضوعی عنصر کا کردار بھت اہم ہے جہاں لیڈرشپ شعوری طور زمینی حقائق کوہ بھانپ کر کچھ ایسے فیصلے لے سکتا ہے جو جنگ کے ارتقاء کو بھت تیز کردیتا ہے اور یہی موضوعی عنصر بعض جگہ ایسے غلط فیصلے کا ارتکاب کرتا ہے جو ارتقاءِ جنگ کو انتہائی سست کردیتا ہے۔
جنگ میں تیز ی اچانک نہیں آتی یہ بہت سے فیصلے،واقعات،اختلافات،چپقلشوں کے پیٹ میں پرورش پاکر آخری اظہار ایک جست کی صورت میں کرتی ہے جو بظاہر ایک بڑا واقعہ ہوتا ہے لیکن باریکی سے دیکھا جائے تو وہ واقعات کی تسسلسل ہے جو اپنے انتہا کو پہنچ کر ایک جست لگاتی ہے اور ایک بڑےواقعے کی صورت میں اپنا ظہار کردیتی ہے جس سے ہم اندازہ لگالیتے ہیں کہ ایک تبدیل رونما ہوئی ہے جو مثبت و منفی بھی ہوسکتی ہے۔
اسی طرح بلوچ جنگ کی بھی اپنی زمینی حقائق کے مطابق الگ ہی ارتقاء رہی ہے اور یہ ارتقاء اپنے آپ میں سست رہاہے جس کے اپنے بہت سے وجوہات ہیں۔
جس میں بلوچ قوم کی نفسیات،قبائلی ساخت ،آپسی چپقلش کے علاوہ تعلیم کی کمی ،جنگی اپروچ اور منظم منصوبہ بندی کا نہ ہونا اور موضوعی عنصر کا سستی شامل ہیں۔
بلوچ جنگ نے اپنے اندر دیر ہی سہی لیکن جست ضرور لگائے ہیں
بلوچ جنگ کے موجودہ انسرجنسی میں نواب اکبر کے قتل کے بعد ایک ابھار آیا جس نے پورے بلوچستان کو اپنے لپیٹ می لے لیا
آزادی اور جنگ کی گونج پہاڑوں سے نکل کر گلی ،محلوں اور شہروں تک پہنچ گئی اس جست نے بچے سے لیکر بوڑھے تک سب کو متاثر کردیا۔
برسوں پرورش پائی ہے
حادثہ یوں اچانک نہیں ہوتا
تحریک میں یہ چلانگ یو اچانک نہیں آئی
اس کے پیچھے وہ جدوجہد ہے برسووں سے جاری ہے
جب نواب خیربخش مری افاغانستان سے واپس ہوتے ہے تو جنگ کا فیصلہ کرتے ہیں
واپس آکر وہ تیاری میں لگ جاتے ہیں
اپنے آپ کو منظم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ایک نئے جنگ کی شروعات اچھے طرح سے کی جائے یہی برسوں کی جدوجہد ،کوشش ،محنت نواب اکبر بگٹی کے شہادت کے صورت میں ایک مثبت جست لگاتی ہے اور یک دم پورے بلوچستان جنگ آگ کی طرح پھیل جاتی ہے
جس کے بعد لوگ جوک در جوک جنگ میں شامل ہونے لگتے ہیں
بلوچ قومی تحریک ایک دم توانا ہوجاتا ہےجو دشمن قوم کو انتہائی خوفزدہ کردیتا ہے۔
بلوچ قومی جنگ کا یہ ایک اہم ابھار ہوتا ہے جنگ کے اس جست میں پاکستان کے زیر قبضہ بلوچ قوم یکجا ہوجاتا ہےاور اپنے حق کے کیے روڈوں پر نکل آتا ہے۔ یہیں سے دشمن خوفزدہ ہوکر اپنی کاؤنٹر انسرجنسی کے عمل میں تیزی لاتی ہے منصوبہ بندی کے ساتھ بلوچ نسل کشی میں بےحد اضافہ کردیتا ہے اجتماع سزا کے طور پر مکم خاندانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگتا ہےلوگوں کو لاپتہ کرنا،مارنا پھینکنا،مسخ کر کے پھینکنا معمول کا حصہ بنادیتا ہے تاکہ عوام عبرت حاصل کر کے تحریک سے دستبردار ہوجائےاور دشمن کسی حد تک کامیاب بھی ہوجاتاہے۔
جہاں قیادت کو اس بھار کو ایک رخ دیکر جنگ کو ایک اور فیز میں داخل کرنا تھا وہی دشمن کے سفاکیت اور جبر کے علاوہ قیادت کی نادانیوں،ضد،انا،ڈپلومیسی کی فقدان،دور اندیشی سے محرومی اور زاتی اختلافات کی وجہ سے یہ ابھار رفتہ رفتہ سست پڑھ گیا اور آخر کار دشمن موقع پاکر مایوسی کی فضاء قائم کرنے میں کامیاب ہوا اور جنگ کی رفتار انتہائی سست اور نہ ہونے کے برابر پھنچ گیا
یقیناً دشمن کو ایک بہت بڑی کامیابی ملی اور بلوچ تحریک عارضی طور پر جمود کا شکار رہا۔
اسی توڑ پھوڑ ،بیان بازی وجمود کے درمیان ہی کچھ مثبت چیزیں اپنے ارتقائی عمل میں پرورش پارہے تھے جو بلآخر ایک جست کی شکل میں افق پر نمایا ہوئے انہیں حوصلہ شکن حالات میں ایک بلند حوصلے کا مالک رہنما کا ظہور ہوا جسے ہم استاد اسلم کے نام سے جانتے ہیں استاد اسلم وقت کی نزاکت و اہمیت کو سمجھتے ہوئے قوم و تحریک کو یکجا و منظم کرنے کے لیے سخت کوششیں کیں
بھت سے سخت فیصلیں لیے اور بہت سے جگہ اپنی غلطی تسلیم کرکے آگے بڑھنے کی راہ ہمرا کی۔
بہت سے ناچاکیوں کو دور کیا اور بہت سے ناراض دوستوں کو منایا اور جنگ کو جدت و شدت دینے کے فلسفے پر عمل پیرا ہونے کے کیے کئی جتن کیے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اپنے بیٹے کو قربان کیا اور ثابت کیا ایک رہنما کے طور پر وہ کسی بھی قسم کے قربانی دینے سے دریغ نہیں کرینگے-
شہید استاد اسلم اپنے بیٹے فدائی ریحان کے قربانی دیکر جنگ میں ایک نئی روح پھونک کر جنگ کے شدت میں اضافہ کرتے ہوئے جنگ کو ایک نیا رخ دے دیا۔ اس عمل کے بعد نوجوانوں کو حوصلہ ملا جنگ میں ایک نئے جست کا اضافہ ہوا جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوا استاد اسلم جنگ کو ایک نئے ڈگر پہ لاکر خود کو دشمن کے حملے شہید ہوئے۔
استاد خود تو ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوئے لیکن شہید استاد اسلم کا فلسفہ اور دیا ہوا رستہ جنگ کو مزید جدت و شدت بخشنے میں کامیاب ہوا۔ اس جست سے پہلے بلوچ گوریلے جنگ کا ایک ادنٰی معیار منتخب کر کے اسی میں خوش تھے۔
پہلے جنگجو دور سے فائر کرتے تھے چلے جاتے تھے، دور سے راکٹ فائر کر کے نکل جاتے اور سنائپنگ بھی دور سے کر کے صرف دشمن کو تنگ کیا جاتا اور دشمن اس کا عادی بھی ہوچکا تھا اور یہ طریقہ کار دشمن کے لیے خاصہ پریشانی کا باعث نہیں بنتے لیکن اب بلوچ گوریلے ایک قدم آگے نکل چکے ہیں اب دشمن کے لائن میں گھس کر اسے مار رہے ہیں ان کے کیمپوں پر قبضہ کر کے اسلحہ ضبط کر رہے ہیں۔
پہاڑوں کے ساتھ ساتھ شھروں میں بھی دشمن کو خطرناک چوٹ ہہنچارہے ہیں۔ اب کے جنگ میں دشمن کو ہر جگہ جانی ومالی نقصان پھنچ رہا ہے شہید استاد اسلم کے بعد بھی فدائی حملے ہورہے ہیں
دشمن کو وہاں چوٹ لگ رہا ہے جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھتا ہے اور وہاں بھی مات کھارہا ہے جہاں عام گوریلا پہنچ نہین سکتا یہ سب کچھ صرف موضوعی قیادت کے کچھ سخت اور صحیح فیصلوں کے وجہ سے ہوا-
زمینی حقائق کا ادراک رکھتے شہید استاد اسلم نے جو تیزی جنگ میں لایا اس نے بلوچ قوم میں ایک امید کی لہر پیدا کی
جنگ کے شدت و جدت کے وجہ سے مایوسی کے سرگوشییاں ختم ہونے لگے۔ جنگ اپنے ارتقاء میں مزید تیزی و ترندی کے ساتھ محو سفر تھا کہ جنگ نے ایک اور جست لی-
پہلی بار بلوچ تحریک نے ایک انتہائی پیچیدہ و منضم منصوبہ بندی کے ساتھ ایک بھت بڑا کامیاب حملہ کیا اور پہلے بار بلوچ فدائین کے ساتھ باقی صف اول کے گوریلے دستے دشمن خلاف صف آرا ہوئیں اور پہلی بار بلوچ گوریلوں نے رواتی گوریلا طرز سے ہٹ کر دشمن کو شھر میں محصور کیا۔
اس حملے میں بلوچ فدائین کے ساتھ باقی گوریلے مل کر ایک شھر کو دو دن تک اپنے قبضے میں رکھا۔ یہ ایک غیر معمولی اپنے آپ میں ایک شدید نوعیت کا حملہ تھا جس میں مختلف اطراف سے دشمن کو گھیر کرشھر پر دو دن تک اپنا قبضہ جمائے رکھا-
جس کا مطلب بلوچ جنگ اب ایک اور نئے مرحلے میں داخل ہونے جارہا ہے اور یہ بس ایک شروعات ہے۔
جنگ میں یہ جست اپنی نوعیت میں شدید ہونے کے ساتھ ساتھ آنے والے جنگ کے لیے مزید راہیں ہموار کریگی یہی وہ چوٹ ہے جو دشمن کو مفلوج کر کے اسے شکست دے سکتی ہے۔
یہی وہ آئینہ ہے جس میں دشمن کی بزدلی اور پنی طاقت صاف دکھائی دیتی ہے جس میں آزادی صاف نظر آتی ہے یہی وہ طریقہ ہے جس کے شدت میں آضافہ کرتے ہوئے بلوچ اپنے زمین کو واپس حاصل کرسکتا ہے اور دشمن کو اپنے قبضے کو ختم کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔
بلوچ افرادی قوت ،مالی وسائل اور فوجی ساز وسامان میں انتہائی قلیل ہونے کے باوجود اپنے سے بڑے دشمن کو ہر لحاظ سے خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
اب صرف اس شدت میں مزید اضافہ کر کے بلوچ قوم خود کو آزادی کے قریب کرسکتی ہے۔
یہ جست اگر اپنی انتہا کو پہنچ گئی اگر دشمن اس جست کو سست کرنے میں ناکام رہا اور موضوعی قیادت مصالحت کا شکار نہ ہوا اور اس شدت کو مزید بڑھاتے ہوئے مطلوبہ افرادی قوت،مالی وسائل اور فوجی سازو سامان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو بلوچ کو اس کی آزادی لینے سے کوئی روک نہیں سکتا-
اس مرحلے کے یہ شروعات ہے اس کو اپنی انتہا کو پہنچ نے میں دہائیاں لگ سکتے ہیں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کے اس طرح کے پانچ دس حملے کر کے ہم آزادی حاصل کرلینگے لیکن اسی طرز کے حملے تسلسل کےساتھ ایک دن آزادی کی صورت میں جست ضرور لگائیگی-
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔