بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف دائر کیسز ایک بار پھر ملتوی، عدالتیں انصاف دینے میں ناکام ہیں۔ ایڈوکیٹ ایمان مزاری

241

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی درخواست پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بازیاب ہونے والے لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی اور اس موقع پر پٹیشنر ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلباء جبری گمشدگیوں کے حوالے سے رپورٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ وزارت دفاع سے پوچھ کر بتائے کہ خفیہ ادارے کے اندر خود احتسابی کا کیا عمل ہے؟ کیا ایجنسیز میں کوئی جوابدہ ہے؟ خود احتسابی کہاں پر ہے جو نظر آئے؟

بی بی سی کے مطابق جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے یہ واضح ہے کہ ’ریاست یا عدالتیں کسی دہشتگرد کی پروٹیکشن نہیں کریں گی، سوال تب اٹھتا ہے جب قانون سے ماورا کوئی اقدام ہوتا ہے۔ اگر کوئی دہشتگرد ہے تو پرچہ دیں، کارروائی کریں، لیکن ماورائے عدالت کاروائی نہ کریں، ہر ادارے نے اپنے اختیار کے اندر رہ کر کام کرنا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ’آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے ڈی جیز پر مشتمل کمیٹی بنائی تھی، اس پر کوئی اعتراض ہے تو وجوہات بتا کر مطمئن کریں۔

بلوچ طلباء جبری گمشدگیوں کی کیسز انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل ایڈوکیٹ ایمان مزاری کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کئے گئے ہیں-

ایڈوکیٹ ایمان مزاری نے کہا ’جس دن نگراں وزیر اعظم یہاں پیش ہوئے اُسی دن ایک بلوچ طالب علم کو اٹھایا گیا، پھر اگلے ہی دن اُس لاپتہ طالبعلم کو راولپنڈی میں چھوڑ دیا گیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’پٹیشن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ میری رائے جبری گمشدگی کمیشن کے خلاف اسی لیے ہے کہ وہ انھیں کیساتھ کام کررہا ہوتا ہے جن پر الزام ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’پولیس تمام اداروں سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ وہ کارروائی سب کے سامنے کرتے ہیں، انھیں ہم دیکھ لیتے ہیں کہ کارروائی ٹھیک ہوئی یا نہیں۔ پولیس والوں کو تو معطل بھی کر دیتے ہیں۔ جو ادارے قانون کے ماتحت ہیں وہ تو ریگولیٹ ہو جاتے ہیں۔ جو قانون سے ماورا کارروائی کرتے ہیں ان کی ریگولیشن کیا ہے؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ٹھیک ہے ورکنگ میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں وہ جوابدہ نہیں ایجنسیز کا کردار کسی قانون کے تحت ہوگا جس طرح ایف آئی اے اور دیگر اداروں کا ہے کمیٹی بنائی تھی جس میں ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، ڈی جی ایم آئی تھے، اس بارے بتائیں۔

عدالت کے اس سوال پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کے حوالے سے ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے پٹیشنرز کی وکیل کہتی ہیں جس دن وزیراعظم یہاں بیان دے کر گئے اسی دن ایک بندا اٹھا لیا گیا اس سے تو پتہ چلتا ہے وزیراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی درخواست پر مزید سماعت 21 مئی تک ملتوی کر دی۔

دوسری جانب متحدہ عرب امارات سے حراست بعد ازاں پاکستان میں جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے بلوچ سیاسی کارکن راشد حسین بلوچ کی کیس سماعت تیسری دفعہ ہونی تھی تاہم ہائی کورٹ نے آج پھر کیس کو ملتوی کردیا-

اس حوالے سے ایماء مزاری کا کہنا تھا پچھلے دو دفعہ شنوائی ملتوی ہونے کے بعد ہم نے ایک بار پھر راشد حسین کیس کو ابتدائی سماعت کی درخواست دائر کی تھی تاہم ایک بار پھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید کیسز کا بہانا بنا کر شنوائی نہیں کی-

انہوں نے مزید کہا کہ عدالتیں ساحلین کو بتا رہے ہیں کہ وہ انکی جانب سے انصاف کی توقع نا رکھیں یہاں انصاف نہیں مل سکتا-