ایران اور اسرائیل اب کشیدگی گھٹانا چاہتے ہیں – تجزیہ کار

203

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی محدود نوعیت اور ایران کا فوری محتاط ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں فریق، خاص طور پر تہران ہفتوں کے تناؤ کے بعد اب کشیدگی میں کمی لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن صورت حال اب بھی خطرناک حد تک دھماکہ خیز ہے۔

اے ایف پی نے اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ جمعرات کو یہ خبر اچانک شہ سرخی بن گئی کہ اسرائیل نے ایران کے وسطی شہر اصفہان پر حملہ کر دیا ہے۔ تاہم اسرائیل نے اعلانیہ اس حملے کی تصدیق اور تردید نہیں کی۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اصفہان کی فضائی حدود میں تین مشتبہ ڈرونز مار گرائے ہیں، جس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔

اصفہان وہ شہر ہے جہاں ایران کی اہم جوہری تنصیبات واقع ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ ڈرونز غیر جوہری علاقے میں تھے۔ غیر مصدقہ اطلاعات میں بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی ڈرون حملے کا ہدف ایک غیر جوہری فوجی علاقہ تھا۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری مقامات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

ایران کی جانب سے خطے کے ممالک کو اپنے حملے کی گھنٹوں پہلے اطلاع دینے اور نقصان کو محدود رکھنے کے اقدام اور اسرائیل کی طرف سے آسانی سے مار گرائے جانے والے تین ڈرونز بھیجنے کا اقدام یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ملک محتاط ہیں اور وہ کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتے۔ دونوں نے بظاہر یہ حملے اپنے اندرونی دباؤ سے نمٹنے اور سیاسی ضرورت کے لیے کیے۔

ایران کا سرکاری میڈیا اسرائیلی حملے کے اثرات کو محدود رکھنے کی کوشش کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور یہ رپورٹ کیا جا رہا ہے کہ اصفہان کے علاقائی مرکز میں روزمرہ کی زندگی معمول کے مطابق جاری ہے۔

یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ پروگرام کے ڈائریکٹر جیولین بارنز ڈیسی کہتے ہیں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دونوں ملک اس صورت حال سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے ایرانی حملے کا کچھ جواب دینے کے لیے محدود کارروائی کی ہے جب کہ تہران اس واقعہ پر زیادہ توجہ نہیں دے رہا تاکہ اسے جوابی کارروائی نہ کرنی پڑے۔

انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کوئی بھی فریق براہ راست جنگ میں پڑنا نہیں چاہتا۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ وسیع تر تصادم کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔

دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل اور ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروپ حزب اللہ کے درمیان سرحدی کشیدگی برقرار ہے اور رفح پر اسرائیلی حملے کا خطرہ بھی موجود ہے۔

نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے دمشق حملے کے متعلق آخری لمحات میں آگاہ کرنے پر اسرائیل پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور ایران پر زور دیا تھا کہ وہ جوابی کارروائی نہ کرے۔ لیکن ایران کی جوابی کاروائی کے بعد امریکہ نے کہا تھا کہ وہ اپنے اتحادی سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ وسیع تصادم میں پڑنے سے گریز کرے۔

جنیوا میں سینٹر فار اسٹڈیز اینڈ ریسرچ آن دی عرب اینڈ میڈیٹیرینین ورلڈ کے ڈائریکٹر حسنی عابدی کہتے ہیں کہ جس چیز پر توجہ دی جانی چاہیے وہ ان دونوں حملوں میں فریقوں کے درمیان نیم ہم آہنگی ہے۔ دونوں نے محدود رہنے کی کوشش کی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ معروضی اشارے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایرانیوں نے یہ باب بند کر دیا ہے۔ اور اس کشیدگی کو جاری رکھنے میں اسرائیلیوں کے مقابلے میں ایرانیوں کو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے دونوں فریقوں کے ساتھ رابطوں کے بعد کہا ہے کہ روس نے اسرائیل پر واضح کر دیا ہے کہ ایران کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتا۔

انسٹی ٹیوٹ فار میڈیٹیرینین مڈل ایسٹ ریسرچ اینڈ اسٹڈیز کے نائب صدر ایگنس لیولوئس کہتے ہیں کہ اسرائیل کی تو یہ ترجیح ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیل کو شکست دے، جب کہ ایران کو زیادہ دلچسپی کشیدگی کو گھٹانے میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ایرانی موقف سے جو سمجھ سکا ہوں، وہ یہ ہے کہ ایرانی حقیقتاً کشیدگی میں کمی لانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے وہی کیا جو انہیں کرنا مناسب لگا۔ لیکن اب وہ اس سے آگے نہیں جانا چاہتے۔ لیکن میرے خیال میں اسرائیل جارحانہ موڈ میں ہے۔

ایران اسرائیل حملوں کا پس منظر

اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ ہفتوں میں رونما ہونے والے واقعات اور کئی عشروں پر پھیلی ہوئی دشمنی کے پیش نظر یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ جنگ پوری قوت سے پھیل سکتی ہے کیونکہ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ میں جنگ شروع کر دی تھی، جس میں حماس کی حمایت میں لبنان اور یمن سے ایران کی پراکسیز اپنا حصہ ڈال رہی تھیں۔

یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر مبینہ اسرائیلی حملے میں پاسداران انقلاب کے سات عہدے داروں کی ہلاکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا، اور ایران نے کہا کہ اس کا بدلہ لیا جائے گا۔

13 اپریل کو تہران نے اسرائیل کے اندر 300 سے زیادہ ڈرونز اور میزائلوں سے حملہ کیا۔ وسعت کے اعتبار سے اس طرح کے حملے کی کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔ تاہم ایران نے حملے سے گھنٹوں قبل نہ طرف خطے کے ممالک کو اس سے باخبر کر دیا تھا بلکہ حملے کے لیے اس نے کم طاقت کے ہتھیاروں کا انتخاب کیا تھا۔ جس کا مقصد نقصان کو محدود رکھنا تھا۔ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے دعویٰ کیا ہےکہ 99 فی صدر ڈرونز اور میزائل مار گرائے گئے۔

حملے کے فوراً بعد اسرائیل نے جواب دینے کا عزم ظاہر کیا۔ تاہم امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک نے اسرائیل پر زور دیا تھاکہ وہ تحمل سے کام لے تاکہ جنگ کا دائرہ نہ پھیلے۔