چھ ماہ پہلے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع نہیں ہوئی تھی تو غزہ میں زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود تھی۔ اس گنجان آباد علاقے میں ریستوران، دکانیں، فٹ بال کے میدان، یونیورسٹیز اور اسپتال سب کچھ تھا۔ لیکن اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی کیمرہ ٹیم نے سائیکلوں پر غزہ کی پٹی کی گلی محلوں میں ہونے والی تباہی کا جائزہ لیا جہاں غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق اب تک 33 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
غزہ کی ہر دوسری سڑک پر ملبے کے ڈھیر تباہی کی داستان سنا رہے ہیں۔ 23 لاکھ آبادی کی اکثریت انسانی بحران کا سامنا کر رہی ہے جو ادویات، خوراک اور دیگر سہولتوں سے محروم ہے۔
غزہ کے بہت سے شہری بمباری سے بچنے کے لیے مختلف حصوں میں عارضی خیمہ بستیوں میں پناہ گزین ہیں۔ گلیوں میں سناٹا ہے جہاں موٹر سائیکل پر ایک نوجوان خاموشی کو چیرتا ہوا جا رہا ہے جب کہ ایک طرف ایک نوجوان لڑکا مٹی اور گردو غبار سے اٹی تباہ شدہ عمارتوں کے پاس سے ہتھ ریڑی لیے گزر رہا ہے۔
دوسری طرف ایک آدمی کندھے پر آٹے کی بوری اُٹھائے جا رہا ہے۔ غزہ میں خوراک کی قلت ہے جہاں فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ خوراک کا حصول زندگی یا موت کی کشمکش کے مترادف ہے۔
فروری میں امدادی ٹرک سے خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں 100 سے زائد فلسطینیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے
اسرائیلی حکام نے کہا تھا کہ بہت سے لوگ افراتفری کی وجہ سے ٹرک تلے آ کر کچلے گئے۔ تاہم غزہ کے محکمۂ صحت کے حکام نے الزام لگایا تھا کہ یہ افراد اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
قحط کے خدشات
اسرائیل غزہ میں کارروائی حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے جواب میں کر رہا ہے جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 اسرائیلی شہری ہلاک جب کہ 260 یرغمال بنا لئے گئے تھے۔
اقوامِ متحدہ نے امداد کی فراہمی میں رکاوٹوں کی شکایات پر قحط کے خدشات ظاہر کیے ہیں جب کہ امریکہ نے بھی اسی نوعیت کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے غزہ میں امداد کی رسائی میں اضافہ کیا ہے، لہٰذا وہ تاخیر کا ذمے دار نہیں ہے۔ اسرائیلی عہدے دار یہ بھی کہتے ہیں کہ غزہ میں امداد کی ترسیل کی ذمے داری اقوامِ متحدہ اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں کی ہے۔
امدادی تنظیم ورلڈ سینٹرل کچن کے عملے پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور اس میں آسٹریلیا، برطانیہ اور پولینڈ کے شہریوں سمیت سات افراد کی ہلاکت پر اسرائیل کو عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
چھ ماہ بعد صورتِ حال یہ ہے کہ فلسطینی اب صرف ملبے سے بھری سڑکوں پر ہی چل سکتے ہیں اور ہر فضائی حملے کے بعد مزید تباہی دیکھتے ہیں۔
سائیکلوں پر سوار کیمرہ ٹیم نے ملبے کے پہاڑ میں زندگی کے کچھ آثار بھی دیکھے۔ دو عورتیں ایک چھوٹے بچے کے ساتھ کہیں جا رہی تھیں۔ چند لوگ ایک رنگ برنگی چھتری کے نیچے بیٹھے دکھائی دیے۔ ایک آدمی گدھا گاڑی پر سامان لادے جا رہا تھا۔
جنگ بندی کی کوششیں
چھ ماہ کے دوران جنگ بندی کی کئی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، تاہم اب بھی امریکہ سمیت کئی ممالک اس کے لیے کوشاں ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے مصر اور قطر کی قیادت کو لکھے گئے ایک خط میں زور دیا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے اور اس پر عمل درآمد کے لیے حماس پر دباؤ ڈالیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل اور حماس جنگ بندی معاہدہ نہ ہونے کا ذمے دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہیں۔
امریکہ، قطر اور مصر کئی ماہ سے پسِ پردہ مذاکرات میں مصروف ہیں جس کا مقصد جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی ہے۔ تاہم نومبر میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے علاوہ اس معاملے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔
وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ مذاکرات کا نیا دور ویک اینڈ پر قاہرہ میں ہو گا۔ تاہم ان میڈیا رپورٹس کی تصدیق نہیں کی گئی کہ ان مذاکرات میں ڈائریکٹر سی آئی اے بل برنس، اسرائیلی انٹیلی جینس چیف ڈیوڈ برنیا، قطری وزیرِ اعظم اور مصری انٹیلی جینس چیف عباس کامل شریک ہوں گے یا نہیں۔
بائیڈں حکومت کے سینئر عہدے دار کے مطابق اگر حماس صرف اُن یرغمالوں کو رہا کر دیتا جو بیمار، زخمی یا ضعیف ہیں تو آج غزہ میں جنگ بندی ہو چکی ہوتی۔
جمعرات کو اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں صدر بائیڈن نے نیتن یاہو پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے مذاکرات کار کو پورے اختیارات دیں۔
ورلڈ سینٹرل کچن کے قافلے پر حملے میں سات ہلاکتوں کے بعد ماہرین کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر بائیڈن نے اسرائیلی وزیرِ اعظم سے کہا ہے کہ وہ جنگی طرزِ عمل تبدیل کریں ورنہ امریکہ غزہ سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر غور کر سکتا ہے۔
امریکی قانون سازوں کا خط
دریں اثنا تین درجن سے زائد امریکی قانون سازوں کے دستخط شدہ خط میں امریکی صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی نئی کھیپ فراہم کرنے کی منظوری کا فیصلہ واپس لیں۔
جمعے کو لکھے گئے خط میں ورلڈ سینٹرل کچن کے قافلے پر حملے کی تحقیقات مکمل ہونے تک مستقبل میں بھی اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کے کسی پیکج کی منظوری نہ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے جمعے کو ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جاری کی تھی جس میں ورلڈ سینٹرل کچن کے قافلے پر فائرنگ کو سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے دو فوجی افسران کو برطرف کر دیا گیا تھا۔