احادیث پرکھنے کا پیمانہ
تحریر: مولوی اسماعیل حسنی
دی بلوچستان پوسٹ
فقہ حنفی میں احادیث کے پرکھنے کےلئے اولین اصول اور سب سے اہم معیار خود قرآن کریم ہی ہے۔ جو حدیث، قرآن کے خلاف یا معارض ہو، وہ رد کردی جائے گی۔ اس پر دو دن قبل ایک مختصر سی تحرير لکھی گئی تھی، جس پر بعض احباب چیں بہ جبین تھے کہ جی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف ہو؟ بعض کا کہنا یہ تھا کہ یہ کون طے کرے گا کہ کون سی حدیث قرآن کے خلاف ہے اور کون سی حدیث موافق؟ ضمناً ایک روایت ذکر کی گئی تھی کہ فقہ حنفی کی بنیاد اس روایت پر ہے۔ اس کےلیے ایک روایت توضیح تلویح کے تذکرے کے ساتھ یوں نقل کی گئی تھی کہ وہاں بخاری کے حوالہ کے ساتھ مذکور ہے۔ خیال تھا کہ احباب اعتماد کریں گے مگر انہوں نے ثبوت طلب کی، توضیح کے ساتھ ساتھ کئی دیگر حوالے بطور متابع ہاتھ آئے۔ نمبر وار نقل کرتے ہیں۔
١) امام علی بن محمد البزدوی الحنفیؒ اس روایت کو یوں نقل کرتا ہے:
☜۞فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی، فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔۞
ترجمہ:
اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔
(فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ’اصولِ بزدوی‘،باب بیان قسم الانقطاع ص٥٧١، میر محمد کتب خانہ کراچی۔)
٢) علامہ عبیداللہ بن مسعود الحنفیؒ لکھتا ہے:
☜۞فقولہ علیہ السلام تکثر لکم احادیث من بعدی فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔۞
ترجمہ:
تو آپ علیہ السلام کا قول کہ میرے بعد تمہارے لئے احادیث کی کثرت ہوجائے گی تو جب اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔
(التوضیح والتلویح جلد٢،ص: ١٧/ ١٨،بحثِ سنت، مکتبہ فاروقیہ پشاور)
اس کتاب کے ماتِن صدر الشریعہ عبیداللہ بن مسعود الحنفیؒ ہیں اور ان کا متن ’التوضیح‘ کہلاتا ہے۔ اس کی تشریح دوسرے مشہور عالم، علامہ سعدالدین تفتازانی شافعیؒ نے’ التلویح‘ کے نام سے لکھی اور یہ دونوں ’التوضیح والتلویح‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد صدرالشریعہ لکھتے ہیں کہ:
”فدلّ ھذا الحدیث علی ان کل حدیث یخالف کتاب اللہ (تعالٰی) فانہ لیس بحدیث الرسول وانما ھو مفتری وکذلک کل حدیث یعارض دلیلاً اقوٰی منہ فانہ منقطع عنہ علیہ السلام لان الادلة الشریعة لا یناقض بعضھا بعضاً وانما التناقض من الجھل المحض۔“
ترجمہ:
تو یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ ہر وہ حدیث جو کتاب اللہ کی مخالف ہو ہرگز رسول (اللہ) کی حدیث نہیں ہے اور وہ افتراءہے اور اسی طرح ہر وہ حدیث جو کسی زیادہ قوی دلیل کے معارض و مخالف ہو وہ بھی آپ علیہ السلام سے منقطع ہے، کیونکہ شریعت کے دلائل آپس میں ایک دوسرے کے معارض و مخالف و مناقض نہیں ہوسکتے کیونکہ تناقض تو محض جہل ہے۔
( التوضیح والتلویح حوالہ بالا)
المیہ یہ ہے کہ توضیح تلویح کی پہلی جلد درس نظامی کے نصاب میں شامل ہے دوسری جلد شامل نہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے مدارس کے اساتذہ اور طلبہ بھی حنفیت سے لاعلم و بے خبر ہوکر غیر شعوری طور پر سلفی (اہل حدیث) بن چکے ہیں۔ اہل حدیث کے نزدیک بخاری و مسلم کی کسی ایک روایت سے انکار بھی کفر و مستلزم ہے۔ یہی شدت غیر محسوس طور پر دورِ جدید کے احناف میں بھی در آئی ہے کہ معمولی باتوں پر لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک میں سب سے مشکل ترین مسئلہ، تکفیر کا مسئلہ ہے۔ (جس پر ہماری مستقلاً تحریریں ویب سائٹ پر ہیں۔)
٣) علامہ حافظ جلال الدینؒ یہ روایت نقل کرکے لکھتا ہے:
☜۞بما روی ان النبی قال: ما جاءکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ،فما وافقہ فاَنا قلتہ وما خالفہ فلم اقلہ۔۞
ترجمہ:
روایت ہے کہ نبی نے فرمایا کہ جو حدیث تمہارے پاس آئے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو،اگر اس ( قرآن) کے موافق ہو تو (سمجھوکہ) میں نے ہی کہی ہے اور اگر مخالف ہو تو (سمجھوکہ) میں نے نہیں کہی۔
(مفتاح الجنة فی الاحتجاج بالسنة، ص: ١٢)
٤) ملا علی قاری الحنفیؒ لکھتا ہے:
☜۞(فصل) ومنھا مخالفة الحدیث لصریح القرآن کحدیث مقدارالدنیا وانھا سبعة اٰلاف سنة ونحن فی الالف السابعة وھذامن ابین الکذب۔۞
ترجمہ:
اور اس(اصولِ حدیثِ موضوع) میں سے ہے کہ حدیث صریحاً قرآن ہی کے مخالف ہو(تووہ موضوع ہوگی) جیسے حدیث ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور ہم ساتویں ہزار سال میں ہیں ( اور ابھی تک دنیا بھی ہے لھذا یہ صریحاً غلط ثابت ہوگئی) اور یہ انتہائی کھلا ہوا جھوٹ ہے۔
(موضوعات الکبیر، ص: ٢٦١)
٥) محمد نظام الدین الشاشیؒ المعروف بہ ملا جیون لکھتا ہے:
☜۞بقولہ اذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔۞
اور آپ کا قول کہ جب تم سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو تو جو اسکے موافق ہو قبول کر لو اور جو مخالف ہو اسے رد کردو۔
(فقہِ اصول حنفی کی مشہور کتاب جو مدارس میں بھی پڑھائی جاتی ہے نورالانوار ص ٥١٢، اور اسکے مصنف ملا جیون مغل بادشاہ عالمگیر کے استادتھے۔)
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
☜۞اذا بلغکم منی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ فان وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔۞
(مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان ہوگیا)
(مقدمہ تفسیر احمدیہ، ص: ٤، بحوالہ جاءالحق از مفتی احمد یار خانؒ گجراتی الحنفی بریلوی، ص: ٤٣)
٦) حافظ ابن کثیرؒ لکھتا ہے:
☜۞وقال ابن جریر حدثنا محمد بن اسماعیل الَحمسی اَخبرنی جعفر بن عون عن عبدالرحمان بن المخارق عن ابیہ المخارق بن سلیم قال قال لنا عبداللہ ھو ابن مسعود اذا حدثناکم بحدیث اتیناکم بتصدیق ذلک من الکتاب اللہ تعالٰی۔۞
( تفسیر ابن کثیر، ج: ٤ ، ص: ٩٤٥ ، سورہ فاطر)
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسعودؓ نے کہا کہ جب ہم تم سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو کتاب اللہ سے اس کی تصدیق بھی لا تے ہیں۔
٧) حدیث قرآن کی تشریح ہے لیکن قرآن بھی حدیث کی صحت کےلئے بہترین کسوٹی ہے۔ اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث آتی ہے جسے امام شاطبیؒ نے نقل کیا ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:
☜۞ما اتاکم عنی فاعرضوہ علی کتاب اللہ فان وافق کتاب اللہ اَنا اقلتہ وان خالف کتاب اللہ فلم اقلہ وکیف اخالف کتاب اللہ وبہ ھدانی اللہ؟۔۞
ترجمہ:
یعنی تمہارے پاس جو کچھ بھی میرے پاس سے آئے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو اگر کتاب اللہ کے موافق ہو تو ہو میں نے ہی کہا ہوگا اور اگر مخالف ہو کتاب اللہ کے تو اسے میں نے نہیں کہا ،اور میں کیسے کتاب اللہ کی مخالفت کرسکتاہوں جبکہ اللہ نے مجھے اسی کے ذریعے ہدایت دی؟
( امام شاطبیؒ، الموافقات، ج: ٤، ص: ٣١)
امام شاطبیؒ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
”اس حدیث کی سند صحیح ہو یا نہ ہو لیکن اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ اپنی جگہ بالکل صحیح ہے۔“
(حوالہ ایضاً)
٨) عیسٰی بن ابانؒ جو ایک بلند پایہ محدث اور ایک بالغ نظر فقیہ تھے اور جو کئی سال تک بصرہ کے قاضی بھی رہے ، انہوں نے بھی اس روایت کی توثیق کی ہے اور اس کی اساس پر ان کا مسلک یہ تھا کہ :
“خبر واحد جس کے اندر صحتِ سند کی تمام سندیں اور شرطیں موجود ہوں اسے کتاب ( اللہ) کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہوگا اور اس کی صحت کا آخری فیصلہ اسی کی بنیاد پر ہوگا۔”
(المحصول فی علم اصول فقہ، از امام رازیؒ، بحوالہ حقیقتِ رجم ص: ٥١)
٩) امام نسفیؒ یہ روایت نقل کرتا ہے:
۞بقولہ علیہ السلام اذا روی لکم عنی الحدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔۞
ترجمہ:
آپ کا قول کہ، جب تم سے کوئی حدیث بیان کرے میری طرف سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کرو، اگر موافق ہے تو قبول کرلو اور اگر نہیں تو رد کردو۔
(کشف الاسرار علی المنار، ج:٢، ص:٥٨)
١٠) امام ابوبکر السرخسیؒ نقل کرتا ہے:
☜۞ان کل حدیث ھو مخالف الکتاب اللہ تعالٰی فھو مردود ۔۞
ترجمہ:
ہرحدیث جو کتاب اللہ کے مخالف ہو مردود ہے۔
(اصول سرخسی ج١ص٥٦٣)
١١) ☜۞وما روی من قولہ علیہ السلام فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی۔۞
ترجمہ:
اور جو قول مروی ہے آپ کا کہ (حدیث کو ) کتاب اللہ پر پیش کرو
(ایضاً، ج: ٢، ص: ٦٧)
١٢) ☜۞وبہ نقول ان الخبر الواحد لا یثبت نسخ الکتاب ،لانہ لا یثبت کونہ مسموعاًمن رسول اللہ قطعاً و الھذا لایثبت بہ العلم الیقین ، علی ان المراد بقولہ وما خالفہ فردوہ۞
ترجمہ:
اور اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد سے کتاب اللہ منسوخ ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ بات کہ وہ رسول سے ہی سے سنی گئی ہے ،قطعی نہیں ،لھذا اس سے علم یقین پیدا نہیں ہوتا، آپ کے قول مراد یہی ہےکہ جو مخالف قرآن ہو اسے رد کردو
(حوالہ: ایضاً)
١٣) ☜۞ولا یجوز ترک ما ھو ثابت فی کتاب اللہ نصاًعندالتعارض۔۞
ترجمہ
نص، کتاب اللہ میں جو ثابت ہے اس کو ترک کرنا جائز نہیں ( جب اس کا حدیث سے) تعارض ہو۔
(حوالہ: ایضاً)
١٤) علامہ ابن قیّم جوزیؒ لکھتا ہے:
☜۞و منھا مخالفة الحدیث لصریح القرآن کحدیث مقدار الدنیا وانھا سبعة اٰلاف سنة۞
ترجمہ:
اور ( حدیث کے موضوع ہونے کی ایک دلیل) قرآن کی صراحت کے حدیث کا مخالف ہونا ہے جیسے مقدارِ دنیا والی حدیث کہ دنیا کی کل عمر ٧٠٠٠ سال ہے۔
( حالانکہ یہ حس و مشاہدہ کے بھی خلاف ہے، چہ جائیکہ قرآن۔)
( رسالہ المنار ص١٣، نیز موضوعات الکبیر، ص: ٢٦١)
١٥) اہل تشیع کے امام یعقوب بن اسحاق کُلینی رازیؒ یہ روایت نقل کرتا ہے:
☜۞عن ابو عبداللہ علیہ السلام قال: قال رسول اللہ ان علی کل حق حقیقة و علی کل صواب نورا فما وافق کتاب اللہ فخذہ وما خالف کتاب اللہ فدعوہ۞
ترجمہ:
ابو عبداللہؒ نے کہا کہ کہا رسول اللہ ۖ ہر ایک حق پر ایک حقیقت اور ہر ایک صحیح و صواب پر ایک نور ہوتا ہے تو جو کتاب اللہ سے موافق ہو تو اسے پکڑ لو اور جو کتاب اللہ کے مخالف ہو اسے رد کردو۔
(اصولِ کافی، باب الاخذ بالسنة وھو اھد الکتاب، ج: ١، ص: ٨٨)
١٦) ☜۞عن ایوب بن الحر قال: سمعت اباعبداللہؒ یقول کل شیء مردود الی الکتاب والسنة و کل حدیث لا یوافق کتاب اللہ فھو زخرف۔۞
(اصولِ کافی،ج: ١، ص: ٩٨)
ترجمہ:
ایوب بن حر نے کہا کہ میں نے ابو عبداللہؒ کو کہتے سنا کہ فرماتے ہیں کہ ہر شی کتاب اور سنت کی طرف پھیری جائے گی اور ہر وہ حدیث جو کتاب اللہ کے موافق نہیں وہ بیکار چیز ہے۔
١٧) ☜۞عن ابو عبداللہ قال: خطب النبی بمنٰی وقال: ایھا الناس ما جاء کم عنی یوافق کتاب اللہ فانہ قلتہ وما جاء کم یخالف کتاب اللہ فلم اقلہ۔۞
(حوالہ: ایضاً)
ترجمہ:
ابو عبداللہؒ نے کہا کہ نبی نے منٰی میں خطبہ دیا اور فرمایا کہ اے لوگو! میری طرف سے تم تک جو بھی (حدیث) آئے جو کتاب اللہ کے موافق ہو تو سمجھو کہ میں نے ہی کہا ہوگا اور اگر کوئی (حدیث) کتاب اللہ کے مخالف آئے تو سمجھنا کہ میں نے نہیں کہا۔
١٩) سید ظفر الحسن امروہویؒ (شیعہ) لکھتا ہے:
”حدیث کی صحت کا معیار یہ ہے کہ وہ اول تو قرآن کے خلاف نہ ہو۔“
(فروعِ کافی، دیباچہ، ج: ١، ص: ٤)
٢٠) امام دارمیؒ لکھتا ہے:
☜۞باب تاویل حدیث رسول اللہ عن ابی ہریرة فکان ابن عباس اذاحدث قال: اذا سمعتمونی احدث عن رسول اللہ فلم تجدوہ فی کتاب اللہ اوحسنا عند الناس فاعلموا قد کذبت علیہ۔۞
(سنن دارمی، ج: ١، ص: ٤٥١، قدیمی کتب خانہ کراچی)
ترجمہ:
امام دارمیؒ نے باب قائم کیا ہے ’حدیث رسول اللہ میں تاویل‘ اس کے تحت لکھتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباسؓ جب حدیث بیان کرتے تو کہتے :
جب تم مجھ سے کوئی حدیث سنو اور تم اسے کتاب اللہ میں نہ پاؤ یا وہ لوگوں کے نزدیک وہ اچھی چیزنہ ہو (یعنی معروف نہ ہو) تو سمجھو کہ میں نے آپ پر جھوٹ باندھا۔) (یعنی میں نے غلط کہا کیونکہ اس کا امکان نہیں کہ آپ پر آپ جھوٹ باندھیں مگر اس پر تنبیہ کے لیے ایسا فرمایا۔
٢١) ملا علی قاری الحنفیؒ اپنی ’موضوعات کبیر‘ میں امام سخاویؒ کا قول نقل کیا ہے کہ :
’ہمارے شیخوں کے شیخ شمس الدینؒ نے ’مقاصد الحسنة فی بیان الاحادیث المشتھرة علی الالسنة‘ کے خاتمہ میں کہا ہے کہ (موضوع حدیث ہونے کی علامت ) میں سے یہ بھی ہے کہ حدیث صریح قرآن کے مخالف ہو۔‘
(موضوعات الکبیر، فصل ٣١، ص: ٦٢٣، قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)
٢٢) امام ابن الھمامؒ لکھتا ہے:
☜۞قولہ علیہ السلام فی اھل القلیب ما انتم باسمع بما اقول منھم واجابوا تارة بانہ مردود من عائشة قالت کیف یقول ذلک واللہ یقول وما انت بمسمع من فی القبور ،انک لا تسمع الموتٰی۞
ترجمہ:
اور آپ کا قول قلیبِ بدر کے متعلق کہ’ تم ان(مُردوں) سے زیادہ نہیں سنتے ہو جو میں ان سے کہتا ہوں ‘اور انہوں نے ایک مرتبہ جواب بھی دیا ،تو یہ رد شدہ ہے حضرت عائشہ سے کیونکہ آپنے فرمایا کہ آپ کیسے یہ قول کہہ سکتے تھے جبکہ اللہ کہتا ہے کہ آپ ان کو(اپنی بات) نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں اور آپ مُردوں کو (اپنی بات) نہیں سنا سکتے۔
(فتح القدیر ،ج:٢، ص:٩٦)
٢٣) دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتویؒ لکھتا ہے کہ واقعی مخالف کلام نہ کہ محدث کا قول معتبر ہے اور نہ ہی کسی منکر کا بلکہ خود حدیث اگر مخالف کلام اللہ ہو تو موضوع سمھجی جائے گی ۔
(تصفیة العقائد، ص: ٢٠)
٢٤) مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ لکھتا ہے:
“خود خبر واحد کے قبول کا معیار یہی ہے کہ وہ کسی نص قرآنی کے مخالف نہ ہو۔”
(تفسیر ماجدی، ص: ٤٢٣، سورہ اعراف حاشیہ: ٣)
امام ابوبکر جصاصؒ اور امام قرطبیؒ کا متذکرہ بالا حوالہ بھی مولانا نے نقل کیا ہے۔
٢٥) مولانا حسن بن عمار الحنفیؒ لکھتا ہے:
☜۞قالت (عائشةؓ) کیف یقول رسول اللہ ذلک رد علی الراوی واللہ تعالٰی یقول وما انت بمسمع من فی القبور ،ای فلم یقلہ۞
ترجمہ:
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے فرماتی ہے کہ ”رسول اللہ کیسے یہ بات کہہ سکتے ہیں؟“ ( کہ مُردوں نے سنا) اور آپ نے یہ راوی پرپر رد کیا، جب کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے، یعنی آپ نے یہ بات ہی نہیں کی (جوکہ مخالفِ قرآن ہو)
(مراقی الفلاح شرح النور الایضاح، ص:٧٠٣)
٢٦) مولانا مفتی محمد شفیعؒ لکھتا ہے:
”اور صحیح مسلم میں ایک حدیث ابو ہریرہ کی روایت سے آئی ہے جس میں تخلیق عالم کی ابتداء یوم سبت یعنی ہفتہ کے روز سے بتائی گئی ہے اس کے حساب سے آسمان و زمین کی تخلیق کا سات دن میں ہونا معلوم ہوتا ہے مگر عام نصوص قرآنی میں یہ تخلیق چھہ روز ہونا صراحاً مذکور ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ تخلیق ارض و سماءکے واقعات اور دن اور ان میں ترتیب جن روایات حدیث میں آتی ہے ان میں کوئی روایت ایسی نہیں جس کو قرآن کی طرح قطعی، یقینی کہا جاسکے بلکہ یہ احتمال غالب ہے کہ یہ اسرائیلی روایات ہوں ،مرفوع احادیث نہ ہوں جیسا کہ ابن کثیر نے مسلم اور نسائی کی حدیث کے متعلق اس کی صراحت فرمائی ہے۔اس لئے آیات قرآنی ہی کو اصل قرار دے کر مقصود متعین کرنا چاہیے۔“
( معارف القرآن ، ج: ٧، ص: ٦٣٦ ، سورہ حٰم)
یعنی اگر کوئی روایت قرآن کے خلاف ہو تو وہ رد کیے جانے کے قابل ہے چاہے صحیح مسلم کی ہی کیوں نہ ہو۔
٢٧) فقہ حنفی کے اصول میں ہے کہ استخراج واستنباطِ مسائل کے سلسلے میں قرآن حدیث پر مقدم ہے، اگر کوئی صریح آیت موجود نہیں تو ظاہر ہے کہ اب حدیثِ صحیح کو ہی مستدل بنایا جائے گا اور اگر کسی مسئلے میں احادیث متعارض ہوں تو دین کے ناقلینِ اول صحابہ کرام کے اقوال و افعال کسی ایک کے لئے وجہ ترجیح بنیں گے۔
(رسول اکرمؐ کا طریقہ نماز، ص: ١١)
٢٨) مولانا عبدالسلام رستم مردانی لکھتا ہے:
”واعلم قبل جواب ھذا الحدیث ان مسلک ابی حنیفہؒ اسلم ، فانہ یقدم العمل بالآیة من العمل بالحدیث اذا لم یمکن التوفیق بینھما ویتاول فی الحدیث دون الآیة۔“
(التبیان فی تفسیر اُمّ قرآن، ص: ٧٣١)
ترجمہ:
اور جان لے اس حدیث کے جواب سے قبل کہ ابو حنیفہ کا مسلک سلامتی والا ہے کیونکہ وہ آیت پر عمل کو مقدم رکھتے ہیں حدیث کے مقابلے پر جب ان دونوں (قرآن و حدیث) میں توفیق اور تطبیق ممکن نہ ہو، اور آپ حدیث میں تاویل کرتے ہیں بجائے آیت کے۔
٢٩) ☜۞وایضاًکان ھذاالحدیث مخالفاًعن ظاھرالقرآن الدال علی فوقیتہ تعالٰی علی العرش فلذا اول فی الجامع الترمذی۔۞
ترجمہ:
اور اسی طرح یہ حدیث ظاہر قرآن کے مخالف ہے لہذا جمع ترمذی میں ہی تاویل کی جائے۔
(حوالہ بالا)
سوال یہ ہے کہ حدیث حدیث قرآن کے مخالف ہوسکتا ہے؟
جواب جی ہاں۔ صحاح ستہ کی سیکڑوں روایتیں قرآن کے صریح طور پر مخالف ہیں۔ جس پر پہلے بھی لکھی گئی ہیں تو آئندہ بھی لکھی جاسکتی ہے، اس لیے کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک فہم عام ہے کسی زمانہ کے ساتھ خاص نہیں، قرآن کریم میں تدبر اور تفکر کا جابجا حکم صرف ہمیں (امام اعظمؒ) نہیں بلکہ آخری انسان کو بھی ہے۔ ہم اگر حنفی ہیں تو لازم ہے کہ امام اعظمؒ کو فالو کریں گے محمد بن عبدالوہاب نجدی کو نہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ طے کون کرے گا کہ کون سی روایت قرآن کے خلاف ہے اور کون سی قرآن کے موافق؟ ذخیرہ روایات، کتب رجال اور قرآن کریم سب ہمارے درمیان ہیں۔ یہ طے کرنا مشکل نہیں۔
آخری سوال کہ محدثین کی کتابوں میں واقعی دخل اندازی ہوئی ہے؟ جواب جی ہاں۔ پہلے زمانہ میں کتابیں پرنٹنگ پریس سے نہیں چھپوائی جاتی تھیں، کاتب لکھا کرتے تھے، کبھی کبھار مخالف مذہب کے کاتب اپنا مسلک بھی کسی بڑی شخصیت کی کتاب میں کسی طرح سے داخل کرواتا تھا۔ اگر کاتب سے کتاب بحفاظت بچ نکلتی تو آگے ورّاق بیٹھا ہوا ہوتا، وہ بھی یہ کرتا۔ اس کے بعد جلد ساز سے یہی اندیشہ تھا۔ یہ سب کچھ نہ صرف واقع ہوچکے ہیں بلکہ تدوین حدیث کے دور میں یہ جعل سازوں کا طریقہ واردات رہا ہے جس پر کئی شواہد ملتے ہیں، بنا بریں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ امتیاز فقط قرآن کریم کو حاصل ہے کہ وہ ہر قسم کی تغیر و تبدل سے مامون و محفوظ ہے، جس کی ذمہ داری خود اللہ نے لے رکھی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی کتاب کو اس مقام کے برابر سمجھنا یہ شرک فی الکتاب کے زمرے میں آتا ہے۔ اس عنوان پر تفصیل سے ایک مستقل مضمون لکھنے کا ارادہ ہے۔ ان شاءاللہ
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔