شہید ذیشان رند کا چھوڑا ہوا سبق
نوشت: ابرم
دی بلوچستان پوسٹ
اِنا ہوشان صفا دیوانہ تَمّا
مولٹ آن شمع نا پروانہ تَمّا
خنان پیمانہ ٹی نا خنتے شوخا
ننا چَنک آتیان پیمانہ تَمّا۔۔۔۔۔؛
(ساقی جی)
زندگی میں بہت سے واقعات ایسے ہوتے جن پہ بندے کو سمجھ نہیں آتا کہ “آہ” کرے یا “واہ”۔ کیونکہ وہ واقعات بہ یک وقت تسکین بھی پہنچا رہے ہوتے ہیں اور افسردہ بھی کررہے ہوتے ہیں۔ ان واقعات میں جنت کی جیسی پُرسکون کیفیت بھی نظر آتی ہے اور جہنم جیسی وحشت کا بھی احساس ہوتا ہے۔ یہی حال میرا شہید ذیشان رند کی شہادت کا سُن کے ہوا تھا۔ میں حیران تھا کہ خوش ہوجاؤں دوست کی دلیری و بہادری میں اپنا مقام پیدا کرکے وطن عظیم کے عظمت کی خاطر جان کا نزرانہ پیش کرکے شہادت کا رُتبہ حاصل کرنے پہ یا پھر افسردہ و غمگین ہوجاؤں کہ یار ابھی تو زیشان کو زندہ رہنا تھا اور زندگی کرنی تھی۔اس کو والدین کا سہارا بننا تھا۔ ابھی تو اُس نے کچھ سال اور فُٹبال کھیلنا تھا؛ ابھی ابھی تو وہ کپتان بنا تھا ٹیم کا۔ ابھی تو اُس نے کچھ دن اور اپنے گاؤں کے بچوں کو فُٹبال سکھانا تھا اور اُن کی شوق کی نظر نواب شاہ میں ٹیم کو ٹورنامنٹس پہ لیکر جانا تھا۔ جبکہ ہم نے ایک ساتھ سندھوں دریا کے کنارے شکار پہ بھی تو جانا تھا۔ ساز و آواز، ہنسی مزاک کے ساتھ استاد میر احمد کے گانوں پہ مذید جھومنا تھا۔ کیونکہ آخری بار جب ہم ملے تھے تو رخصتی کے وقت اُس نے گلے لگاکر مجھے بولا تھا “رخصت اف آوارُن (ہم ساتھ ہی ہیں) اور جواب میں میں نے (از راہ مزاک) بولا تھا “اھو آزاتی اسکان (اھو آزادی تک۔۔۔ہم ایک ساتھ ہی ہونگے)” جیسا کہ سنگت ثناء بلوچ (شہید) نے کہا تھا۔
غالباً ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے، کسی دوست نے مجھ سے پوچھا تھا کہ تمھیں ذیشان کا پتہ چلا؟ میں نے “نہ” میں سر ہلاتے ہوۓ جواب دیا کہ نہیں، کیوں کیا ہوا ہے ذیشان کو؟ تو اُس نے کہا، “ذیشان نے اپنے آگے کی زندگی کے لیے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور بلوچ راجی لشکر میں شمولیت اختیار کی ہے۔” ایک لمحے کے لیے تو مجھے سمجھ ہی نہیں آہی دوست کی بات اور میں ابکہ ہو حیران ہوکر ایک سوالیہ “ہاں!!؟؟؟” ہی کرسکا۔ پھر جب حواس بحال ہوۓ تھوڑا بہت تو دوست کو کہاں، یار ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟ ذیشان کیسے جاسکتا یے پہاڑوں پہ؟ اُسکو کیا ضرورت پہاڑوں پہ جانے اور بندوق اُٹھانے کی؟ وہ وہاں پہ رہیگا کیسے؟اور پہاڑ تھوڑاہی سندھ کے نرم مٹی کی طرح ہے کہ جہاں سر رکھ دی وہاں نیند آگئی۔ پہاڑوں پہ رہنا ہر بندے کی بس کی بات ہوتی تو آج میں اور تم بھی پہاڑوں میں رہ رہے ہوتے۔ پہاڑوں کی ساخت کی طرح وہاں کی ہر چیز سخت ہوتی ہیں اور مجھے نہیں لگتا ذیشان جیسا نرم دل و نرم مزاج آدمی پہاڑوں کی سختیاں جھیل سکے۔
لیکن پھر ذیشان نے مجھے اور میرے طرح سوچنے والے تمام لوگوں کو غلط ثابت کرکے دکھایا۔ اُس نے ثابت کیا کہ اگر آپ کا ایمان پُختہ ہے، اگر تُم اپنی نظریے کا دامن مظبوطی سے تھامے رکھتے ہو،اپنی سوچ میں وسعت، دور اندیشی اور معاملات کو باریک بینی سے سمجھنے کی گہرائی لاتے ہو، اور اگر منزل کی جانب جانے والے رستے کو کسی بھی طرح کی بدگُمانی یا شکوک و شبہات سے صاف رکھنے کی اور راستے کو روشن کیے ہوۓ چراغوں کے ساتھ مل کر اپنے حصے کی بھی روشنی پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہو، ، اور ہمت و بہادری کے ساتھ ساتھ اخلاص و بردباری کو اپنے ساتھ لیکر چلتے ہو تو تمھیں کسی بھی طرح کی کوئی بھی سختی اپنے منزل کو حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا۔ چاۓ راستہ کتنا ہی سخت اور سفر کتنا ہی کٹھن و تکلیف دہ ہو لیکن تمھاری اور تمھاری منزل کے درمیان رکاوٹ بن کر نہیں رہ سکتا۔ یہ تکلیف، سختیاں اور رکاوٹیں کچھ معنی ہی نہیں رکھتے اگر تمھیں منزل مقصود ہو کسی بھی حال میں۔ بس تُم میں منزل کو پہچان نے کی قابلیت ہونی چاہیے، منزل تک پہنچنے کی جستجو ہونی چاہیے اور اپنا فرض سرانجام دینے کی جدوجہد احسن طریقے سے کرنا آنا چاہیے۔اگر تُم اپنے اندر درج بالا خصوصیات لیکر آسکتے ہو پھر منزل تمھاری،کامیابی تمھاری اور کامرانی تمھاری۔
کَشّے زمانہ اگہ عیب نُما خیالٹی
فرق ء نُما فکرئنا بحرٹی کَشّینا
(ساقی جی)
زیشان کا جب مجھے نیا نیا پتہ چلا تھا کہ وہ پہاڑوں پہ گیا ہے جہد آجوہی کا سپاہی بن کر تو کچھ دن میں اس کشمکش میں رہا تھا کہ بھلا ذیشان کی زندگی میں ایسا کونسا ٹریجڈی ہوا ہے جس کی درمان کی خاطر اُسے صرف پہاڑ ملے۔ ذیشان ایک ہنستا مسکراتا لڑکا تھا۔ گو کہ وہ تھا بلوچ لیکن اُسکی پیدائش، رہائش و پرورش سندھ میں ہوا تھا۔ ہاں، بہرحال، وہ سالانہ گرمیوں کی تعطیلات میں اپنے رشتہ داروں کے یہاں کوہٹہ اور نوشکی آتا تھا ۔لیکن یہ کوئی معقول وجہ تو نہیں پہاڑوں پہ جانے کے لیے۔ ہوسکتا ہے ذیشان کی شہادت کا سُن کر آپ کو بھی ایسے ہی خیالات آۓ لیکن حقیقت یہی ہے کہ سندھ میں رہنے کے باوجود اُن کے دل میں بلوچستان دڑھکتا تھا۔ چونکہ بلوچستان اُن کا آنا جانا لگا رہتا تھا تو یہا آکر اُس نے بلوچستان کی بے بسی کو محسوس کی، یہاں پہ ہونے والی ریاستی مظالم دیکھے، وساہل کی لوٹ کھسوٹ دیکھی، اور بلوچ کی است میں نیست ہونا اور بلوچ کی اپنے بنیادی حقوق بھیک کی طرح مانگنا شاید اُس کے دل پہ ناگوار گُزرے۔ بلوچ ماؤں بہنوں کی اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کی خاطر در بدر ہونا؛ روڈ و بازاروں میں آہ و فریاد کرنا۔ بلوچ کی ہنستے مُسکراتے حسین و ذہین ذہنوں کو صرف اپنے حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے کی وجہ سے پابند سلاسل کرنا یا مسخ شدہ لاش میں تبدیل کرکے چٹیل و ویران میدانوں کی نظر کرنا ۔ اور یہ سب ہم بھی آئے روز دیکھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور دل ہی دل میں ان حالات پہ افسوس کرتے ہیں لیکن اپنے راستے کا ہم تعین نہیں کرپاتے کہ اس ظلم و زیادتی کے خلاف کونسا طریقہ ہمارے لیے ایک مؤثر آواز بن سکتی ہے (اس کی وجوہات بہت سے ہوسکتے ہیں جو یہاں میرا موضوع نہیں ہے۔) جبکہ ذیشان بلوچستان آیا، اُس نے بلوچ کے درد کو محسوس کی اور بہ حیثیت بلوچ وہ بلوچستان کی حالتِ زار بدلنے کے لیے اپنے راستے کا تعین کرنے میں کامیاب ہوا۔ جو بلوچستان میں رہ کر ہم سے نہیں ہو پارہا وہ سندھ سے آکر ذیشان نے کر دکھایا؛ اپنی لڑکپن، شوخ جوانی، کھیل کود، ہزاروں ارمان، ماں باپ کے خواہشات یعنی ہزاروں خواب لیے ہنستی مُسکراتی زندگی قربان کردی۔
ذیشان نے اس بے مثال قربانی کے ساتھ ہمارے لیے یہ سبق چھوڑ کر گیا کہ ظلم و زیادتی صرف افسوس کرنے سے ختم نہیں ہوگی بلکہ ظالم کو اُس کے زُبان میں جواب دینے سے ختم ہوگی اور ایک ایسی آواز بُلند کرنے سے ختم ہوگی جس کی گن گرج ظالم سامراج کی نیندیں حرام کردے۔اگر اپنی حالت بدلنا چاہتے ہو، اگر ایک آزاد و آسرات زندگی کی خواہش مند ہو تو پھر تمھیں خود عملی میدان میں آنا ہوگا۔ اپنی حالت بدلنے کے لیے خود ہی جدوجہد کرنا پڑیگا ۔ کسی غیر نے آکر تمھاری حالت نہیں بدلنی اگر کچھ کرنا ہے ہی تو وہ تمھیں کرنا ہوگا۔ اپنی غلامی کی زنجیر کو تمھیں خود ہی تھوڑنا پڑیگا اور آزادی کی قیمت بھی تمھیں خود ہی ادا کرنا ہوگا وگرنہ غلام کی نہ کوئی اوقات ہوتی ہے اور نہ حیثیت، غلام صرف غلام ہوتا ہے۔ غلاموں پہ ازل سے ظلم ہوتا رہا ہے اور ابد تک ہوتی رہیگی یہی دُنیا کی تاریخ ہے اور یہی حقیقت۔
جہان والاک جہان سازی کریک
ضرورت زہن سازی نا ۓ داسہ
کرینُن صاف نن میدانِ شوق نا
بہ گوازی گِر کہ گوازی نا ۓ داسہ
نن ہم مسون شہید ہو ہم ہلاک مس
مجاھد نا ۓ غازی نا ۓ داسہ
(ساقی جی)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔