وزیراعلیٰ بلوچستان دورہ گوادر، چینی انجینئرز کے سیکورٹی پر زور

560

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے جمعرات کو گوادر کا ایک روزہ دورہ کیا، جہاں انہوں نے امن و امان کے ساتھ ساتھ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی۔

اجلاس میں رکن قومی اسمبلی ملک شاہ گورگیگ، رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان، چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم سیکرٹری زاہد سلیم، آئی جی پولیس عبدالخالق شیخ، سیکرٹری داخلہ سمیت اہم حکام نے شرکت کی۔ فشریز عمران گچکی اور دیگر نے مختلف اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔

اجلاس کے اہم ایجنڈے میں سے ایک گوادر سیف سٹی پراجیکٹ کی پیش رفت کا جائزہ لینا اور خطے میں امن و امان کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینا تھا۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (GDA) کے حکام نے شرکاء کو گوادر شہر میں جاری نکاسی آب کے اقدامات کے بارے میں بریفنگ دی۔

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے پاکستان اور بلوچستان دونوں کی ترقی کے لیے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) منصوبوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ گوادر کی ترقی کا بلوچستان اور پوری قوم کی ترقی سے گہرا تعلق ہے۔

انہوں نے سخت حفاظتی پروٹوکول کی پابندی کو یقینی بناتے ہوئے سی پیک منصوبوں میں شامل چینی انجینئرز اور کارکنوں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

وزیر اعلیٰ نے حفاظتی اقدامات کو برقرار رکھنے کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) کو مسلسل لاگو کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا، ہر پندرہ دن بعد ان کا جائزہ لینے اور اپ ڈیٹ کرنے کے منصوبوں کے ساتھ۔

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے گوادر کا دورہ ایسے موقع پر کیا کہ جب ایک ہفتے قبل ہی گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس کو بلوچ لبریشن آرمی نے ‘آپریشن زرپہازگ’ کے تحت ایک بڑے نوعیت کے حملے میں نشانہ بنایا تھا۔

بی ایل اے کی مجید برگیڈ کے آٹھ ‘فدائین’ نے یہ کارروائی سرانجام دی۔ ترجمان جیئند بلوچ نے بیان میں بتایا کہ گوادر میرین ڈرائیو پر واقع پاکستانی خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے مرکزی ہیڈکوارٹرز پر اس وقت حملہ کیا گیا، جب وہاں ایک اہم میٹنگ جاری تھی۔

ترجمان نے بتایا کہ یہ حملہ کئی گھنٹے جاری رہا، جس کے دوران پاکستانی خفیہ ادارے ملٹری انٹیلیجنس اور آئی ایس آئی کے درجنوں اہلکار ہلاک کیے گئے۔ دشمن فوج کی مدد کو آنے والے پاکستانی نیوی کے کئی کمانڈوز بھی بلوچ فدائین کے شدید حملے کا نشانہ بن کر ہلاک ہوئے۔ جبکہ میٹنگ میں حصہ لینے والے ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے بھی ہلاک و زخمیوں میں شامل ہیں۔

پاکستان میں چینی شہریوں کی سکیورٹی کے لیے متعدد اکثر رینجرز، فوج لیویز اور پولیس کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن متعدد اوقات میں حکومت کی جانب سے ان افراد کی حفاظت کے لیے خصوصی فورس بنانے کے بھی اعلانات سامنے آئے ہیں۔

اسلام آباد میں تعینات ایک سکیورٹی افسر نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ملک میں سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے ایک ڈویژن موجود ہے جس کی سربراہی پاکستانی فوج کے ایک میجر جنرل کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ خیبرپختونخوا میں پولیس کا بھی ایک ’سی پیک یونٹ‘ ہے جو چینی شہریوں کی سکیورٹی کا ذمہ دار ہے اور اس کے علاوہ فرنٹیئر کانسٹبلری کو بھی اکثر اوقات تعینات کیا جاتا ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چینی باشندوں پر ہونے والے حملے سکیورٹی کے انتظامات پر سوالیہ نشان ہیں۔

سنگاپور میں ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز سے منسلک تجزیہ کار عبدالباسط اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’ہر دہشتگرد حملہ ہی سکیورٹی کی ناکامی ہوتا ہے۔‘

پاکستان کی سکیورٹی صورتحال اور خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والے سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک بہت بڑا سکیورٹی فیلیئر (ناکامی) ہے اور میں جاننا چاہوں گا کہ چینی انجینیئرز اور تکنیکی ماہرین کی سکیورٹی کے لیے کیا اصول وضع کیے گئے تھے۔‘

ماضی میں مشاہد حسین سید کئی بار وزیر بھی رہے ہیں اور حال ہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسے ہر حملے کے نیتجے میں چینی حکومت کا اپنی شہریوں کی سکیورٹی کے حوالے سے پاکستان کی قابلیت پر اعتماد کم ہو رہا ہے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ جب بھی پاکستانی وزیراعظم اور صدر کی ملاقات چینی رہنماؤں سے ہوتی ہے تو ’چینی شہریوں کی سکیورٹی کا معاملہ چینی رہنماؤں کی طرف سے ترجیحی بنیاد پر اُٹھایا جاتا ہے۔‘