شہدائے درہ بولان – امین بولان

1775

شہدائے درہ بولان

تحریر: امین بولان

دی بلوچستان پوسٹ

بولان بلوچ تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے، وہ چاہے خوبصورتی کے لحاظ سے ہو، تاریخی جنگوں کی وجہ سے ہو، قصوں  شعر و شاعری داستانوں میں ہو یا حالیہ آزادی کی تحریک کے جنگوں کے باعث ہو، بولان ہمیشہ بلوچ قوم کے دلوں پر زندہ رہنے والا مقام ہے جو ہر آنے والے دشمن کے لیے موت کا پھندا ثابت رہے گا۔ اس درہ نے ہمیشہ اپنے باسیوں کو مورچہ عطا کیا اور دوران جنگ حوصلہ دیا۔ قوم کے نوجوانوں نے بھی اسی درہ کے اندر قربانی دے کر مزید اسے یاد گار بنادیا۔

ماما میندو کی شکل میں یا علی شیر اور پالئی کی صورت میں ہو یا کہ ہِنگل و آفتاب، ولید اور غنی کی شکل میں ہو بولان مزید ہر بلوچ کے دل میں جگہ بناتا رہا۔  بولان کے مہر و محبت مزید گہرے ہوتے گئے۔ ہر کوئی بولان کے دھرتی پر مرمٹنے سے نہیں ہچکچاتا اور خوشی خوشی سے بولان کے مٹی پر سجدہ کرلیتا اور بولان کے فضاؤں میں تحلیل ہونا چاہتا ہے۔

جس طرح شہادت کا رتبہ عظیم ہے اتنا بلوچستان اور بولان پر قربان ہوکر خوشبو بن کر بولان کے فضا میں بکھر جانا عظیم ہے۔ آج جس نے بھی اس دھرتی پر قربانی دی ہم اس کی تعریف لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔ لکھاری کے پاس الفاظ قلم کے سیاہی کم پڑ جاتے ہیں اسے بولان کے فضا اور بلند و بالا پہاڑ ہر درخت اور پرندہ، بہتا ہوا پانی بلوچ نوجوانوں کے بہتے ہوئے خون اس کی تعریف کو بیان کرتے ہیں۔ جس نے بھی قربانی دی، ہم بلوچ قوم اس کے مقروض ہیں۔

ہمیں اپنے وطن کے ہر زرے کے لیے قربانی دینی چاہیے، شہیدوں کی فکر و فلسفہ اور آرزو کو پورا کرنا چاہیے۔ اس کے آزاد وطن کے مقصد کو پایا تکمیل تک پہنچانا ہر بلوچ نوجوان مرد، عورت، بوڑھے ہر شخص پر لازم بنتا ہے، جس طرح ہمیں اپنے مذاہب کے اندر کچھ فرائض ادا کرنا پڑتے ہیں بالکل اسی طرح اپنے وطن قوم اور شہیدوں کی بندوق کو اٹھا کر اپنی سرزمین کی دفاع کرنا اولین فرض ہے۔

میں آپریشن درہ بولان میں شہید ہونے والے ساتھیوں کا یاد بیان کروں گا۔ جو چند دن ہمارے ساتھ اکٹھے ہوئے، ہم نے ان کے حوصلے دیکھے وہ قابل بیان سے بالا ہیں لیکن پھر بھی ہر انسان کا اسے سمجھنا بیان کرنے کا انداز الگ ہوتا ہے۔

شہید فاروق سید جسے ہم چاکر نہیں بلکہ آفتاب کے نام سے پکارتے تھے ایک سال پہلے خاران کے قریب ایک خفیہ مقام پر اتفاقاً میرا ان سے ملاقات ہوا۔ اس دوران فدائی شہید حمل مؤمن اور فدائی شہید اسلم بھی موجود تھے۔ شہید اسلم نے فدائی شہید قائم کیساتھ ملکر بعد میں گوادر میں چینی قافلے پر حملہ کیا۔ ہم نے ایک رات تقریباً ان کے ساتھ گزاری، وہ ہمیں جانتے تھے البتہ میں انہیں اچھی طرح نہیں جانتے تھے مجھے اس کے برگیڈ کے ساتھی ہونے کا اندازہ نہیں تھا۔

انہوں نے بلوچ قومی جہد اور مسائل کے حوالے سے بحث کی، سوالات کیے، مجھ سے جتنا ممکن ہوا اس کے ساتھ مجلس کی۔ اکثر سوالات شہید اسلم نے کیے، اگلی صبح مجھے جانا تھا، ہم  خدا حافظ کہہ کر روانہ ہوئے۔ آفتاب فاروق سید کا کوئی علم نہیں وہ کہاں گئے اس کے بعد ہم سفر ہوتے بولان پہنچے۔ یکم  جنوری دو ہزار چوبیس کو ہمیں اطلاع دی گئی کہ گزی کے علاقے میں جائیں جو کہ علاقے کا ایک فرضی نام ہے، وہاں کچھ ساتھی آئے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ کچھ وقت گزاریں۔ ہم آٹھ ساتھیوں سمیت پانچ دن بعد گزی پہنچے جہاں کچھ دن بعد میری ملاقات فاروق سید عرف چاکر آفتاب، ذیشان عرف سائیں، صدام عرف کیڈی، نظام عرف شہداد، سلال عرف شہے، مرید قاسم عرف لالا، جمال عرف اسد قمبر مہروان، حمل مومن عرف احسان دودا کے ساتھ ہوئی۔ اس کے تین چار دن بعد عطاء عرف شیخ گُرو بھی آئے۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہ سارے ساتھی مجید برگیڈ کے فدائی ہیں۔ جن کو آپریشن درہ بولان سونپا گیا ہے جس کی قیادت عطاء عرف شیخ کررہے تھے۔ انکے جنگی ساز و سامان پہلے ہی سے ہمارے پاس موجود تھے۔ انہیں شیخ کے حوالے کیا گیا۔ فاروق سید بارود سے بھری گاڑی کو ٹکرانے والا فدائی تھا۔ ہم نے شیخ سے کہا کہ ہمارا سامان آپ کیوں لے گئے؟ ہمارے لیے بارود کے بہت سے کام ہیں۔ میں بغیر سامان اسے کیسے سر انجام دوں تو شیخ نے فاروق سید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا گلہ چاکر کے ساتھ ہے، میں نے مذاقاً چاکر سے کہا کہ میں اپنا سامان نہیں دوں گا خود قیادت سے رابطہ کرو اپنی کمی پوری کرو۔

  ایک دن ہم تنہا بیٹھے تھے کہ شہید فاروق آیا اور کہا ماما ہمارا سامان کم نہیں کریں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا نہیں ماما ہم نے شیخ سے مذاق کی ہے۔ سامان جتنا موجود ہے، آپ کے ہیں لے جاؤ، وہ ہنستے ہوئے ماما ایسا نہ ہو سامان کم ہو ہم واپس لنگ لنگ کرتے ہوئے واپس آجائیں۔۔۔ دونوں نے زور سے قہقہے لگائے۔ میں نے کہا نہیں اصل کام کارڈیکس کا ہے دعا کریں وہ خراب نہ ہو بس۔ چاکر نے کہا ماما خیال کریں اگر کم ہیں تو گیس کے بھرے سلینڈر ڈالو۔ میں نے کہا اللہ خیر کرے گا ہم اپنی آخری حد تک کوشش کریں گے کہ کام میں کوئی کمی نہ ہو۔ نہیں ماما آپ کو دیکھ کر ہم پُر امید ہیں اس سے پہلے کہ آپ موجود نہیں تھے ہم پریشان تھے۔ ساتھیوں کو نہیں جانتے تھے کسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ہیں۔ پتہ ہے ہمارے سب ساتھی آپ کو اپنے درمیان پاکر کتنا خوش ہیں۔

ایک دن چاکر نے کہا ماما ابھی تک سنگت کافی زیادہ ہیں اگر تعداد کم ہوا تو آپ کے ہاتھ سے پکائی گئی سجی کھانا یہاں میری آخری خواہش ہے۔ مسئلہ نہیں ہے ماما میں پکا لیتا ہوں۔ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے، ایک ساتھی کو کسی مالدار کے طرف روانہ کیا اور کہا اسے کہہ دو ایک بکرا دینا پیسہ بعد میں دیں گے ابھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ وہ ساتھی گیا اگلی صبح اس کو سویرے واپس آنا تھا لیکن گیارہ بجے تک ساتھی نہیں آیا، راستے میں ایک اور اوطاق تھا میں نے سوچا ایسا نہ ہو بکرے کو دوسرے ساتھی ذبح کریں۔ میں نے دو سنگت روانہ کیے کہ جاؤ دیکھو، وہ دونوں سنگت گئے اوطاق میں دیکھا کہ لشکر نے ہماری سجی والا بکرا ذبح کردیا اور گوشت کو ٹکڑے کررہے تھے۔ ساتھیوں نے انہیں منع کیا کہ یہ بکرا منوت ہے آپ لوگوں کا نہیں ہے آپ نے کیوں ذبح کیا، ساتھی بقایا گوشت اٹھا کر ہمارے اوطاق لائے۔ چاکر نے کہا ماما لشکر نے تو ہمارا بیڑہ غرق کیا تھا، میں نے کہا ماما گوشت کو کون چھوڑتا ہے وہ بھی پہاڑوں کے بیچ میں جہاں بکرا خود بغیر کسی محنت کے خود اوطاق پہنچ جائے۔۔۔ اس کیساتھ ساتھیوں کی قہقہے گونج اٹھے۔۔۔۔

شہید فاروق نے ہمیں سجی بنانے میں کمک کی، سارا دن ہم مشغول رہیں، پچیس جنوری کو وہ ہم سے علیحدہ ہوا۔ ہم باقی فدائین ساتھیوں کے ساتھ شہر کی طرف روانہ ہوئے جو تین دن کی مسافت پر تھا۔

‏‎شہید عطاء شیخ کو میں نے دو سال پہلے دیکھا وہ پڑھا لکھا نوجوان تھا وہ کافی جنگی مہارت رکھتا تھا ہم نے کبھی اس کے ساتھ محفل نہیں کی وہ اپنے کاموں میں لگا رہتا تھا جب ہمیں کہا گیا کہ آپریشن درہ بولان کی کمانڈ شہید عطاء کے ہاتھ میں ہے تو میں  سمجھ گیا کہ یہ ایک کامیاب حملہ ہوگا؛ وہ ایک تجربہ کار سینئر ساتھی ہیں، ایک بلند حوصلے کے مالک ہیں، وہ ایک نشانہ باز تھے۔ میں نے ان کو آپریشن درہ بولان کے بارے میں آگاہ کیا کہ تنظیم کے دوسرے یونٹوں کے ساتھی مختلف سمتوں سے شہر میں داخل ہونگے اور آپ کے قریب پوزیشنوں میں دشمن سے نبردآزما ہونگے۔ مرکزی شاہراہ و دیگر سے دشمن کی پیش قدمی کو روکنے کی کوشش کی جائے گی بس آپ تسلی سے اپنا مشن سر انجام دیں۔ اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے بندوقیں برابر کرتا رہا۔ آخری لمحے جب شیخ ہم سے اپنے مشن کے لیے رخصت ہو رہے تھے میں نے ایک کلو میٹر تک ان کے ساتھ سفر کیا بعد میں روایتی طور پر اجازت دینے کے لیے رخصتی کی بات کی کہ ‘سنگت اواری اے موکل نکنون  یکجاہ اون’ تو شیخ آگے بڑھے کہا کہ میں آپ سے بغل گیر ہونگا، میں نے کہا میں اپنے حواس کو کنٹرول نہیں کرسکتا پریشان ہونگا شیخ مجھے معاف کریں، لیکن وہ نہیں مانا اور وہ ہنستے ہوئے آگے بڑھ ہم سے بغل گیر ہوا، میں اپنے آنسو ضبط نہ کر سکا، ہم  رخصتی کے الفاظ ادا نہ کرسکے، خاموشی سے تمام ساتھیوں سے بغل گیر ہوتا ہوا رسم پورا کیا۔ آخر میں شہید ودود نے تصویر نکالنے کے لیے کہا لیکن میرے حوصلوں نے ساتھ نہ دیا وہ اسی طرح ہاتھ ہلاتے ہوئے ہم سے ایک چھوٹے سے پہاڑی ٹیلے کے پیچھے غائب ہوگئے ہم تھوڑی دیر وہاں رکے لیکن وہ پھر کبھی ہمارے نظر میں نہیں آئے۔

‏‎شہید صدام کے ساتھ دوہزار سترہ میں میری ملاقات شور نوشکی میں ہوئی۔ ہم تقریباً ایک ہفتہ اس کے ساتھ رہیں، کیڈی جسمانی طور پر لاغر بدن لیکن مخلصی، محنت کشی، جفاکشی کے اعلیٰ معیار تھے۔ آپریشن سے چند ماہ پہلے میری ملاقات ان سے ہوئی وہ کسی تنظیمی کام کی بابت ہمارے پاس آئے، کچھ دن اکٹھے رہ کر وہ واپس چلا گیا۔ اس کے بعد پندرہ جنوری کو میری دوبارہ ملاقات ہوئی لیکن اب وہ عام کارکن نہیں بلکہ ایک اور روپ میں سامنے آیا وہ سیاست یا کوئی بحث مباحثہ نہیں کرتا تھا بس ساتھیوں کے ساتھ ہمیشہ ہنسی مذاق میں وقت گزارتا تھا۔

گزی اوطاق میں موجود سارے ساتھی اس کے ساتھ شغل کرتے تھے۔ مجھے ان کے محفل میں بیٹھنے کا موقع بہت کم ملا۔ جب شہید شیخ موجود ہوتے وہ مجلس نہیں کرتے تھے لیکن ہم شیخ کے ساتھ کیڈی کے بارے میں مذاق کرتے رہتے، جب کیڈی موجود رہتا ہم کہتے کہ شیخ یہ پاکستانی فوجی ہٹے کٹے ہیں ایسا نہ ہو کہ کیڈی کے ایم فور کو ان سے چھین لیں، اسے ہمیشہ اپنی نظر میں رکھو، کیڈی ہنس کر کہتا ‘تئی دعا بی ماما’ میں صرف ایک دفعہ صحیح سلامت اپنے مورچے تک پہنچ جاؤں پھر دشمن کو کہہ دو کہ آؤ بندوق چھین کے لے جاؤ۔ کیڈی دین دار تھا ہروقت نماز پڑھتا تھا وہ سب ساتھیوں کو مہر و محبت بانٹتا تھا گزی سے روانگی پر وہ ہمارے ساتھ تھا کیونکہ ہمارا راستہ کافی لمبا اور سفر رات کو کرنا تھا اس لیے وہ ہمارے ساتھ روانہ ہوا۔

‏‎شہید نادر بنگلزئی بولان محاذ کا سرمچار تھا، بعد میں اس نے مجیدبرگیڈ کو جوائن کیا، اوطاق میں وہ سب سے خوش مزاج شخصیت تھا بہادری میں وہ بے مٹ تھا، وہ بہت سے معرکوں میں دلیری سے لڑتا رہا، اس نے  صوبیدار اور ولی تنگی کے جنگ میں حصہ لیا۔ جولائی دوہزار تییس کو میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی جب ہم بزگر کے قریب سفر پر تھے، انہیں دیکھ کر ہم چند دن ان کے گروپ کے ساتھ وقت گذاریں۔ اوطاق میں بالی کا ایم پی تھری مشہور تھا۔ جسے وہ ڈانس کرنے کے دوران سٹارٹ کرتا اور باقی ساتھی چاپ کے ساتھ رقص کرتے تھے۔ بالی انمول تھا بالی جس کے ساتھ بھی رہا وہ بالی کی کمی کو محسوس کررہا ہے۔ وہ سب کو پیارا تھا وہ سب کا دوست تھا اس کی تعریف لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ وہ محاذ کے دوران شہر کے شمالی حصے میں دوبدو لڑائی میں شہید ہوئے۔

‏‎ذیشان رند عرف آفتاب گذشتہ آٹھ ماہ سے اوطاق میں آیا تھا۔ سندھ میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے والے ذیشان دھرتی کے مہر کو نہ بھلا سکے۔ وہ دشمن سے اپنا خاندان اور قوم کا بدلہ لینے کی خاطر مدہوش ہوکر بولان پہنچا۔ اس نے پہلے چار ماہ میں اپنی تربیت پوری کی۔ اس کے بعد ذیشان نے چھوٹے چھوٹے معرکوں میں حصہ لیا بعد میں اس کا نام مجید برگیڈ کے فدائین کے ساتھ آیا۔ انہیں آپریشن درہ بولان میں شامل کیا گیا۔ اسے جیل کے قریب پولیس اسٹیشن پر قبضہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی وہ شہر میں مشرقی سمت میں داخل ہوا، وہ تھانے کے چھت پر چڑھنے میں کامیاب ہوا اور دشمن کو ہتھیار پھینکنے کے لیے کہا، دشمن فورس نے جنگ کو ترجیح دی اس کے بعد وہ چھت سے اترے اور مین گیٹ پر پہنچ گئے اس نے تھانے کے پہلے گیٹ کو توڑ کر پار کی دوسری گیٹ پر وہ لڑائی کے دوران شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے۔ وہ بہت بہادر تھا تاریخ میں ہر بلوچ اس کا قرض دار ہے۔ اس نے مٹی کا قرض اتار دیا وہ اپنے قوم کے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینے میں کامیاب ہوا۔

‏‎شہید کاشف کو محاذ پر آئے ہوئے پانچ چھ ماہ ہوچکے تھے انہوں نے آتے ہی اپنی محنت و قابلیت کے باعث ایک مہینے کے اندر فتح اسکواڈ میں اپنے لئے جگہ بنالی۔ اوطاق میں اسے روکین اور بروت کے نام سے پکارتے تھے وہ بہت محنتی تھا اس نے اپنی تربیت پوری کی۔ اسے آپریشن کے لیے راشن کا بندو بست کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس نے  انتہائی خاموشی کے ساتھ اپنا فرض ادا کیا، محاذ کے دوران وہ ذیشان رند کے ساتھ تھا۔ اس کا کام دشمن کو دباؤ میں رکھنا اور ذیشان کو اپنے ہدف تک پہنچانا تھا۔ وہ بے جگری سے لڑتے رہے انہوں نے ذیشان کو پہلے گیٹ کراس کرنے پر کور دی اس دوران وہ گیٹ کے قریب کھڑی گاڑی کے کنارے پر دشمن کے گولی کا نشانہ بنے  اور جام شہادت نوش کی جہاں وہ مورچہ سنبھالے ہوئے تھے۔ روکین جسمانی طور پر ہم سب سے جدا ہوا وہ فکری طور ہمارے ساتھ ہمیشہ ساتھ ہے۔ بولان کے ہر بؤچ اور چٹان بہتے ہوئے پانی اس کی بہادری اور محنت کے قصے سنائیں گے۔

‏‎شہید حمل مؤمن کے ساتھ میری ملاقات خاران میں ہوئی وہ فاروق سید کے ساتھ تھا اس کے بعد پندرہ جنوری کو وہ گزی آیا۔ میں اسے دیکھ کر خوش ہوا۔ یہ سارے ساتھی میرے آشنا ہیں۔ میرا حمل سے فارغ وقت پر سیاسی گفتگو رہتا تھا وہ خوش مزاج تھا وہ گفتگو کے دوران ہنستا تھا اور بحث بھی کرتا تھا وہ ایک مصنف تھا اس لیے وہ ہر مسئلے کو چھیڑتا تھا کچھ ایسے موضوع جو میرے دائرہ کار سے باہر تھے وہ اس پر گپ شپ کرتا تھا۔

‏‎ذیشان سے دو سال پہلے نیچار میں اتفاقاً ملاقات ہوئی تھی۔ میں دوران سفر تھا۔ اس نے ایک نئے ساتھی کو ہم تک پہنچایا۔ اس دن چند گھنٹے ملاقات نصیب ہوئی دوسری ملاقات گزی کے مقام پر ہوئی وہ سب فدائی ساتھیوں کے ساتھ تھا۔ وہ ہروقت اپنے بندوق کی صفائی کرتا، روٹی پکانے میں مدد کرتا تھا۔ وہ ہروقت مصروف رہتا تھا کبھی فارغ نہیں بیٹھتا تھا۔ آخری وقت وہ اپنے مشن کے لیے اتنا بے چین تھا کہ حملے سے پہلے دن جب مشن ایک دن آگے کردی گئی۔ تو اس نے کہا یار گُرو ماما کو بولو چلتے ہیں، دشمن سے لڑکر سکون ملے گا اب ایک رات آگے پیچھے کیا فرق پڑتا ہے۔

‏‎شہید سلال شہے مرید سے میری ملاقات گزی کے اوطاق میں ہوئی اوطاق میں وہ عامر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ صبح سویرے نیند سے بیدار ہوتے تھے، آگ جلاتے تھے، چائے دانی آگ پر رکھتے تھے تاکہ باقی ساتھی آکر چائے پی لیں۔ وہ خاموش رہتا اپنے ساتھیوں کے بندوقوں کے نشانے اور دوربین وغیرہ برابر کرتا تھا میری اپنی بندوق بھی انہوں نے فکس کی۔ وہ مشن کے لیے میڈیا کا ممبر تھا، ہر ساتھی کی چھپکے سے تصویر نکال لیتا، میں نے اسے دیکھ لیا مجھے عجیب لگا کیونکہ اس کا میڈیا کا رکن ہونا میرے علم میں نہیں تھا۔ میں نے اسے مشکوک سمجھا اور اسے دریافت کی عامر یہ فون کس کا ہے جس سے آپ تصویر لے رہے ہو تو جواب دیا ماما یہ فون میڈیا کا ہے، تصویر کھنچوانے کے لیے مجھے دیاگیا ہے۔ وہ جنگجو طبیعت کا ساتھی تھا وہ سب کی عزت کرتا، میں نے یہ چند دن ساتھ رہتے ہوئے کسی کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے نہیں دیکھا وہ کیڈی کے ساتھ ہمارے ہمراہ رات کی سفر میں روانہ ہوئے مسلسل رات دو بجے تک سفر کی وہ کبھی نہیں تھکے نہ اس نے شکایت کی۔

‏‎شہید قاسم، شہید نظام اور شہید جمال کے ساتھ یہ میری پہلی ملاقات تھی جو گزی کے اوطاق میں ہوئی۔ وہ تینوں خاموش طب کے ساتھی تھے وہ اکثر کیڈی اور حمل مؤمن کے ساتھ مجلس کرتے تھے، میں مصروفیات کی وجہ سے ان کے مجلس سے بے بحر رہا اکثر جنگی ساز و سامان کو برابر کرنا ہدایت دینا ہوتا تھا اور ان کے محفل سے باہر رہتا تھا۔ ‎

شہید ودود ساتکزئی بھی اسی وقت آئے۔ وہ دشمن کے خلاف غصے بھرا ہوا تھا ہر حال میں لڑنا چاہتا تھا۔ شہید ودود کو دوہزار اکیس میں ریاست پاکستان کے اداروں نے چھاپہ مارکر گرفتار کیا تھا۔ اس کے گھر کے خواتین کو بھی پولیس نے گرفتار کیا۔ جو بعد میں ضمانت پر رہا ہوئے۔ اس کا کیس چل رہا تھا، چھ ماہ بعد ودود رہا ہوئے اور مسلح مزاحمت کی راہ اپنا لی۔ اس سے پہلے وہ ایک دوسرے محاذ پر تھا۔ اسے گزی بلایا گیا وہ درہ بولان کے فدائی آپریشن میں شامل نہیں تھا۔ وہ یہاں آکر سب کچھ سمجھ گیا کہ کوئی جنگ کی تیاری ہو رہی ہے۔ اسے برگیڈ کی طرف سے تربیت مکمل نہیں دی گئی تھی جنگ کی تیاری سے ایک دن پہلے اسے کہا گیا کہ آپ جنگ کے فرنٹ  لائن میں نہیں ہیں کیونکہ آپ برگیڈ کے ساتھی ہیں آپ کو فرنٹ لائن پر اجازت نہیں دی جائے گی اس کا چہرہ غصے سے پیلا ہوگیا کہا کہ میں جاؤں گا مجھے کون اجازت نہیں دیتا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے بات کی کہ شہیک نہیں رک رہا، آگے فرنٹ پر جانا چاہتا ہے تو ساتھیوں نے فیصلہ ہم پر چھوڑ دیا۔

اب برگیڈ کے ساتھی کا میں کیا فیصلہ کروں۔۔۔ میں  نے شیخ سے حال احوال کیا کہ شہیک کی تربیت ابھی تک پوری نہیں ہے تو شہیک جان کو کیا کریں ہمارے پاس سکواڈ والے ساتھی بھی نہیں ہیں کہ میں کسی دوسرے گروپ میں اسے شامل کر لیتا تو شیخ نے کہا کہ اسے میں اپنے ساتھ لے جاتا ہوں۔ آپ اسے پریشان نہ کریں۔ میں نے کہا اسے آخری وقت تک اپنے گروپ میں رکھیں۔ میں نے شہیک سے کہا آپ شیخ کے ساتھ ہیں وہ خوشی سے جھوم اٹھا اور تالیاں بجانا شروع کیا۔

اسی دن چار بجے وہ ہم سے شیخ کے گروپ میں شامل ہوکر بارہ فدائین کے صف میں شامل ہوئے۔ دوران جنگ اس کے ساتھ ایک بار بات ہوئی بعد میں شیخ نے اسکی شہادت کی اطلاع دی کہ ودود نے اپنا فرض نبھایا وہ اب ہم میں نہیں رہے اور جسمانی طور پر جدا ہوئے۔ اگلی صبح اکتیس جنوری کے  سات بجے کے وقت میری شیخ سے آخری بات ہوئی اس کے بعد شیخ کا وائرلیس ہمیشہ کے لئے خاموش رہا  شیخ اپنے دیگر تیرہ ساتھیوں کے ساتھ وطن کا قرض اتار چکا تھا۔ انہوں نے اپنے کندھے کا بندوق قوم کے نوجوانوں کے حوالے کیا۔ اب وہ سب آزاد ہوچکےتھے اسے دشمن کے ظلم سہنے کا کوئی خوف نہیں تھا۔ وہ اب بولان کے فضاؤں میں خوشبو بن کر بکھر چکے تھے۔ اب وہ ہر دل کے اندر زندہ ہیں۔ ماؤں کی لوریوں میں زندہ ہیں تاریخ کے پنوں میں زندہ ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔