سیاست کو تمام شعبہ ہائے زندگی پر فوقیت حاصل ہے۔ دل مراد بلوچ

131

بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری دل مراد بلوچ نے تنظیم کے ایک تربیتی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا بی این ایم کے سیاسی پروگراموں کا تحریک پہ اثرات سمجھنے کے لیے ہمیں مجموعی طورپر سیاست کے حاصلات کوسمجھنا ہوگا۔میں سمجھتا ہوں کہ سیاست تمام شعبہ ہائے زندگی میں سب سے مقدم ہے کیونکہ دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی کے فیصلے کسی نہ کسی سطح پر سیاست سے جڑے ہوتے ہیں۔ غلام سماج میں ایک بیماری یہ بھی ہے کہ سیاست کو ایک برا کام سمجھا جاتا ہے ۔ہم اکثر سنتے ہیں ’’ تو گوں من سیاست کنگ ءَ ئے۔ ‘‘ یعنی مجھ سے فریب کر رہے ہو ، جھوٹ بول رہے ہو ۔سوچنے کی ضرورت ہے کہ سماج میں یہ رویہ کیوں جنم لے چکا ہے ؟ کیونکہ قابض نظام میں وضع کی گئی سیاست ہی جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے ۔ سالوں سال بیت جاتے ہیں ،ہزاروں وعدے ،وعید ہوتے ہیں ، آسمان سرپہ اٹھائی جاتی ہے لیکن سماج کے معروضی یا موضوعی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اگر آتی ہے تو سماج کو مزید ابتری ،تباہی کی جانب لے جاتی ہے جو ریاست کا مقصد ہوتا ہے ۔76سالوں سے بلوچ نے سیاست صرف الیکشن اور سیاستدانوں کے بارے میں سنا ہے قومی سیاست کا تجربہ نہیں کیا ۔

انھوں نے ان خیالات کا اظہار پارٹی کے سلسلہ وار تربیتی پروگرام میں’’ بی این ایم کے سیاسی پروگراموں کا تحریک پہ اثرات ‘‘ کے موضوع پر ہوئی ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یہ بی این ایم کے کیپسٹی بلڈنگ کونسل کے تحت پندرہواں پروگرام تھا، اس پروگرام کے میزبان حفیظ عبداللہ تھے۔ دل مراد بلوچ نے اس موضوع پر شرکاء کے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔

دل مراد بلوچ نے کہا کیسپسٹی بلڈنگ کے ساتھی قابل ستائش ہیں جنھوں نے تسلسل کے ساتھ پروگرام جاری رکھے ہیں۔ کیسپسٹی بلڈنگ یاصلاحیت کی تعمیر یہ موضوع بہت وسیع ہے کیونکہ قدرت یا فطرت کی طرف سے انسان کو گوناگوں صلاحیتیں ودیعت ہوتی ہیں۔قدرت بے انصاف نہیں ہوتا لیکن ماحول ،پرورش ،نظام ،تعلیم،ذریعہ تعلیم ،نصاب یہ سب اس قدرتی صلاحیت کو بگاڑتے یا سنوارتے ہیں ہم چونکہ غلامانہ زندگی گزاررہے ہیں اس لیے ہمارے لیے تعلیم ،تعلیمی نظام ،نصاب ،ریاستی نظام ، بیوروکریسی ،عدلیہ غرض تمام شعبہ ہائے زندگی ایک غلامانہ کردار کی تعمیر میں لگے ہیں۔ غلامانہ کردار کیا ہوتا ہے ؟ غلامی کسے کہتے ہیں ؟ بظاہر ہم تو آزاد ہیں ،نہ ہاتھوں میں ہتھکڑی اور نہ پاؤں میں بیڑیاں ،ہم کس طرح غلام ہیں؟ ہم قومی غلام ہیں۔بطور قوم ہم اپنے قوم مفاد میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں ،قومی ثقافت کی تعمیر نہیں کرسکتے ۔قومی بقا کی سوچ نہیں سکتے ہیں۔جب سوچ پابند ہو ،جہاں انسانی وقار و افتخار پابند ہوں ، وہاں انسان محض انسانی اکائی کا یونٹ رہ جاتا ہے ،کامل انسان کبھی نہیں بن پاتا،آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی غلام نے کوئی بڑی ایجاد کی ہے ، کیاغلام انسان نہیں ،تمام ایجادات آزادقومیں کرتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ غلام کی سوچ پابند ہوتی ہے وہ آزادانہ سوچ نہیں سکتا۔

انھوں نے کہا غلامانہ سوچ اور نفسیات کو مستحکم کرنے کے لیے ریاست ہزار جتن کرتی ہے ،غلام قوم کا فرد بنیادی ضروریات کی لڑائی میں پوری زندگی گزارتی ہے لیکن پھر بھی خوش حالی نصیب نہیں ہوتی۔غلام نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوتا ہے ، یہ قبائلی جنگیں ،یہ انتہا تک توہم پرستی ، یہ ناچاقیاں ، تو غلامانہ نفسیات کا حصہ ہیں ،ہم سب اسی غلامانہ سماج کا حصہ ہیں شاید ادراک نہ ہولیکن غلامانہ نفسیات سے متاثر بھی حالانکہ ہم سیاسی کارکن انفرادی طورپر آزادانسان شمار ہوتے ہیں کیونکہ ہم نے قومی آزادی کا ادراک کرلیا ہے۔اس کاروان کاحصہ بن چکے ہیں ،مشکلات کا سامنا کررہے ہیں لیکن غلامانہ نفسیات سے چھٹکارا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

دل مرادبلوچ نے کہا غلامانہ نفسیات پیش نظر کارکنوں کی کیپسٹی بلڈنگ یا صلاحیت کی تعمیر بہت ضروری ہوتی ہے کیونکہ انقلابی پارٹی کے کارکن محض ایک فرد نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے صلاحیتوں سے ایک قوم کی موت وزیست متاثر ہوتی ہے ،ہم شعبہ ہائے زندگی میں باصلاحیت ہوں ،اپنے اپنے فیلڈ میں اچھی کارکردگی کامظاہرہ کریں تو کوئی وجہ نہیں ہم نا صرف قومی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بلوچ قوم کوایک منفرد اور متاثر کن آواز فراہم کرسکیں ۔

دل مراد بلوچ نے کہا لوگ سیاست سے متنفر کیوں نہ ہوں ایک تو پاکستانی ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ،پوری سیاست پارلیمانی پاورشیئرنگ کے گرد گھومتی ہے پارلیمان میں صرف فوج کی رضا سے ہی کوئی جا سکتا ہے۔آپ اندازہ کریں پاکستان کی قومی اسمبلی میں بلوچستان کی سیٹیں 16 ہیں، ان سیٹوں میں سے بھی چھ دیگر اقوام کے حصے میں جاتی ہیں یعنی پاکستان کی 336 کی اسمبلی میں بلوچ کا حصہ10 ہے۔اس میں کتنے بلوچ کی نمائندگی کافریضہ انجام دے پاتے ہیں ،اس کااندازہ لگانا مشکل نہیں ، آج کل ایسے لوگ منتخب ہوجاتے ہیں جن کانام حلقے کے لوگ تک نہیں جانتے ،اس لیے پاکستانی فریم ورک کے سیاست کو جھوٹ کہا جاتاہے ۔

انھوں نے کہا سیاست اس وقت برا عمل بن جاتا ہے جب کسی بھی قومی تقدیر کی تعمیر کی بجائے اس کی بیخ کنی کی جائے۔پاکستانی فریم ورک کی سیاست ہماری بحیثیت قوم بیخ کنی ہی کررہی ہے ۔ قومی سیاست یا قوم دوستانہ قومی سیاست کسی بھی قوم کے حال اور مستقبل کی ضامن ہوتی ہے۔سیاست یہ فیصلہ کرتی ہے کہ وسائل کیسے تقسیم ہوں، قوانین کیسے بنائی جائیں اور فیصلے کیسے لاگو ہوں۔ اگر قومی سیاست نہیں ہوتی ہے تو قوم کا کوئی مستقبل نہیں حتی کہ جو آج صورت حال ہے یہ بھی نہیں رہے گی کیونکہ نو آبادکار یا قابض روز بہ روز آپ کے رگ وریشہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہاہوتا ہے ۔ایک افریقی کہاوت بہت مشہور ہے کہ ”جب وہ آئے تو ہمارے پاس زمین اور ان کے ہاتھ میں بائبل تھا پھر ہمیں آنکھیں بند کرکے عبادت کرنے کو کہا گیا، جب ہم نے آنکھیں کھولیں تو ہمارے ہاتھوں میں بائبل اور ان کے پاس زمینیں تھیں۔“ آج بلوچ قوم کوترقی کے نام پر،اسلام کے نام پر بائبل تھمایا جارہا ہے جب ہماری ہوش ٹھکانے آئے گی ہم سب کچھ کھوچکے ہوں گے ، نہ یہ زمین رہے گی نہ وسائل اور نہ ہی قومی وجود۔

انھوں نے کہا سیاست ہی سے اقتدار و اختیار اور وسائل کی تقسیم ، قومی تقدیر کی تعمیر ، پارٹی پالیسیوں میں جدت، پارٹی میں کارکنوں کی جمہوری شرکت، قیادت کی جوابدہی ، بین الاقوامی تعلقات ، نئے قیادت کی تیاری ، پارٹی میں جدت اور پیشرفت ممکن ہے ، پارٹی کے لیے یہ بنیادی اجزاء شمار ہوتے ہیں ،جب سیاست ہی رہے تو یہ موضوع محض باتیں ہیں ان کا کئی وجود نہیں ہوتا ۔

دل مرادبلوچ نے کہا بلوچ نیشنل مووومنٹ نے بلوچ قومی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔بلوچ نیشنل موومنٹ پہلی پارٹی ہے جس نے چیئرمین غلام محمد بلوچ کی قیادت میں قومی آزای کے واضح لائحہ عمل کے ساتھ عوامی موبلائزیشن کا عمل شروع کیا اور شہری مراکز تک محدود بلوچ قومی سیاست کو عوامی بنادیا اور دیہی علاقوں پر توجہ دے کر تحریک کو مضبوط بنیادی فراہم کیں۔حالانکہ بلوچ قوم دوستی کے دعویدار ’منحرفین‘ کے قومی کاز سے انحراف اور سیاسی فریب کاریوں کی وجہ سے بلوچ قوم کا اعتماد قومی آزادی کی سیاست سے اٹھ ہوچکا تھا لیکن چیئرمین غلام محمد بلوچ کی قیادت میں پارٹی نے بلوچ کا ازسرنو بھروسہ قائم کیا۔ وہ سیاست جو برا عمل سمجھاجاتا تھا آج اسی سیاست نے بلوچ سماج کو واضح سمت دی ہے۔بی این ایم نے ایک سیاسی کلچر فروغ دیا ہے۔بی این ایم نے سیاست میں اختلافات کو باوقار بنایا ہے گو کہ ہمیں نا صرف دشمن بلکہ دوستوں کی جانب سے بڑی مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن ہم نے ہار نہیں مانی اورنہ ہی کسی منفی عمل کا حصہ بنے جس کا بلوچ اور بلوچ قومی تحریک کونقصان پہنچے بلکہ ہم ہمیشہ مثبت رویہ اختیار کیا حالانکہ باتیں تو خانہ جنگی تک پہنچ چکی تھیں بلکہ متعدد ایسے واقعات بھی ہوئے جس میں بلوچ جان سے گیا ۔

انھوں نے کہا انقلابی پارٹی ریاست کی متبادل ہوتی ہے گو کہ ہم اس اہم تقاضا کو ابھی تک پورا نہیں کرپائے ہیں لیکن جدوجہد جاری ہے ۔ سیشن کے بعد ادارتی طرز سیاست کے بدولت بی این ایم کے پروگرام ، پالیسیوں اورحکمت عملیوں میں جدت آئی ہے۔بلوچستان میں تنظیم کاری کے علاوہ فعال ڈائسپورا کی صورت میں پارٹی بین الاقوامی سطح پر بلوچ قومی آزادی کے پروگرام کوآگے بڑھارہی ہے ،جس کے تحریک پردیرپا اثرات مرتب ہوں گے ۔انھیں کامیابی شمار کرسکتے ہیں لیکن ہاں میں جانتا ہوں ابھی منزل بہت دور ہے ،مشکلات کافی زیادہ ہیں ، ہمارا فرض اور مشن ادھورے ہیں لہذا ہمیں تحریکی تقاضوں کے مطابق مزیدجدت اورتوانائی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔