جبری گمشدگی کے شکار بلوچ کارکن کے لواحقین عدالتوں سے انصاف کے بجائے صرف تاریخ وصول کررہے ہیں۔
ایک حالیہ ٹویٹ میں ایڈووکیٹ ایمان مزاری نے راشد حسین کے کیس کے حوالے انکشاف کیا کہ راشد حسین کا کیس 2022 سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس زیر التوا ہے، عدالت کی جانب سے وزارت خارجہ کو بار بار ہدایات دینے کے باوجود ان ہدایات پر مسلسل عمل نہیں کیا گیا۔
ایڈوکیٹ مزاری کے مطابق، عدالت نے اکثر اس لئے راشد حسین کے کیس کی سماعت کا وقت مقرر کیا ہے تاکہ آخری لمحات میں ان سماعت کو منسوخ کیا جاسکے۔
راشد حسین جبری گمشدگی کیس کی پیروی کرنے والی انسانی حقوق کے کارکن و وکیل ایمان مزاری کے مطابق راشد حسین کیس شنوائی منسوخی اور بعد ازاں جلد سماعت کی درخواستیں دائر کرنے کے باوجود اسلام ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے مزید ایک طویل تاریخ فراہم کی ہے نتیجے کے طور پر، راشد حسین کی والدہ اپنے بیٹے کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے جوابات کا انتظار ایک اور تاخیر کے ساتھ کرتی رہیگی۔
انہوں نے مزید کہا راشد حسین بلوچ کی گمشدگی کے انکے لواحقین کی پریشانی اور غیر یقینی صورتحال کو طول دیتے ہوئے، کیس کی سماعت اب 24 اپریل کے لیے مقرر کر دی گئی ہے۔
راشد حسین کے لواحقین کے مطابق راشد حسین کو 2018 میں بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستانی اداروں نے متحدہ عرب امارات سے اغواء کرکے پاکستان منتقل کیا اور تب سے آج تک وہ منظرعام پر نہیں آسکا ہے اور نا ہی ہمیں بتایا گیا کہ راشد حسین کہاں اور کس کے تحویل میں ہے۔