بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کا ہر سال کی طرح اس سال بھی دو مارچ بلوچ ثقافتی دن کے موقع پر کراچی میں جبری گمشدگیوں اور شہداء کی یاد میں ریلی نکالی گئی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچ ثقافتی دن کے موقع پر آرٹس کونسل تا کراچی پریس کلب ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں لاپتہ افراد کے اہلخانہ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان سمیت کراچی کے رہائشیوں نے شرکت کرکے لاپتہ افراد کے اہلخانہ اور بلوچ شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
کراچی ریلی کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے بی وائی سی ترجمان نے کہا بلوچ مزاحمت کی تاریخ ہمیشہ سرخ الفاظوں میں لکھی جائے گی لیکن ایک دہائی سے جو بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین ہیں جنہوں نے اسٹیٹ وِد اِن اسٹیٹ کے اندر جو ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل داد ہے۔
انہوں نے کہا لاپتہ افراد کا مسئلہ جس قدر گھمبیر ہے اتنا ہی گھمبیر اُس کے لئے آواز اٹھانا ہے کیوں کہ جب آپ آواز اٹھاتے ہو تو ریاستی کچھ ادارے تو آپ کے راستے کی رکاوٹ تو بنتے ہیں ہی بلکہ آپ کا خاندان اور معاشرہ بھی آپ کو روکتا ہے کبھی ڈر کی وجہ سے یا پھر کبھی دیگر بنیادوں پر لیکن اگر ان لاپتہ افراد کے خاندانوں نے ہر قسم کی دھمکیوں اور ڈر کا سامنا کر کے یہاں تک پہنچے ہیں جہاں اسلام آباد جیسے شہر میں بھی آواز دبانے کی خاطر لاؤڈ اسپیکر تو چُرا لیتے ہیں لیکن شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ آوازیں لاؤڈ اسپیکر سے پرے ہیں۔
کراچی ریلی کے شرکاء کا کہنا تھا بلوچ کلچر میں مزاحمت ہے تبھی لیاری گینگ وار کو ہماری رگوں میں گھولنے کے بہت کوشش کی لیکن عوامی ہمت نے گینگ وار کو روکا ہے اور آئیندہ بھی اپنی بساط میں جتنا ہوسکے اتنا روکے گی، ملیر گرین بیلٹ کو ریاست نے اپنی چالاکیوں سے تباہ تو کردیا لیکن عوامی مزاحمت ہی تھی جس نے لوگوں تک یہ شعور پہنچایا کہ ریاست کیا کررہی ہے اور کیا کرنا چارہی ہے آج بھی گولیمار، جہانگیر روڈ، ماڑی پور اور لیاری بلوچ آبادی جیسے علاقوں میں نشہ گھول گھول کر کروایا جا رہا ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے ذہنوں کو ماعوف نہ کیا تو یہ بربادی کی راہ میں ہمارے لئے رکاوٹ بنیں گے۔
بلوچ کلچر ڈے کے موقعے پر بی وائی سی کراچی کی آرگنائزر آمنہ نے بلوچ شہداء کو خراج تحسین پیش کیا اور شہید ملک ناز کی مزاحمت کو سراہا اور بتایا کہ اگر ملک ناز ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کو اُس دن نہ روکتی تو شاید آج یہ ڈیتھ اسکواڈ گھر گھر ڈاکا مار رہے ہوتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک ناز کی مزاحمت تھی اسی لئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کا وجود میں آئی اور شہید حیات کے واقعے کا غصہ اب تک ہمارے دلوں میں موجود ہے، ہمیں وہ آٹھ گولیاں نہیں بھولیں اور نہ ہی ہم بھولیں گے شہید کلثوم کا واقعہ بھی ابھی ہرا ہے، لیاری میں ہمارے ہر ایک نوجوان جو جھوٹے گینگ وار کیس میں مارا جانا یا چاہے بکتر بند گاڑیوں کے نیچے ہمارے بچوں کا کچل جانا، ہم کچھ نہیں بھولے۔
انہوں نے سی ٹی ڈی کے حوالے سے کہا کہ وہ بلوچ لاپتہ افراد کو دہشتگرد بتا کر جو قتل کرتی ہے کیا اُس قتل کو ثابت کرسکتی ہے؟ کیا یہ ثابت کرسکتی ہے کہ شہید بالاچ مسلح تھا؟ گولیاں مارنا آپ کی فطرت میں ہوگا لیکن ان گولیوں کا حساب لینا ہماری ثقافت میں ہے۔
کراچی ریلی میں جبری لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ، جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمّی دین بلوچ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین بھی شریک ہوئے-
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان کا آخر میں کہنا تھا گوادر اور گرد نواح میں باقاعدہ فلڈ رلیف کا کام اسی ہفتے شروع کیا جائے گا ہم انسان دوستوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس مشکل گھڑی میں گوادر، جیونی اور گردونواح کے علاقوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اس وقت انہیں راشن، کمبل اور پردے کے لئے پلاسٹک شیٹس اور میڈیسن کی ضرورت ہے۔