ایک طرف بلوچ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے ۔تو دوسری طرف ریاست نے بلوچستان میں ہزاروں خاندانوں کی زندگیوں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ بلوچ عورت بہادری کی علامت بن چکی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انسانی حقوق کی علمبردار، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ نے گذشتہ روز کراچی میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ‘عورت مارچ’ میں شرکت کرتے ہوئے کیا۔
سمی دین بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ گذشتہ پندرہ سالوں سے جبری لاپتہ ہے، اُس وقت میری عمر دس سال تھی آج میں یونیورسٹی سے گریجوٹ ہوں، زندگی کے یہ پندرہ سال میں نے کس اذیت کیساتھ گذارے ہیں، یہ درد اور اذیت میں نے اپنی طاقت بنائے ہیں آج میں بلوچستان کی ان ہزاروں لاپتہ افراد کی لواحقین کی آواز ہوں جو یہاں تک نہیں آسکتے۔ جن کا مقدمہ ہم ملکر لڑتے ہیں کہیں سڑکوں پر کہیں پریس کلبوں پر، کبھی کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں۔ چونکہ میرا تعلق بلوچستان سے ہے، اگر تاریخ کے صفحوں کو ہم تلاشیں تو بلوچ عورت کی جو حثیت ہے اسے پوری سماج نے تسلیم کیا ہے لیکن نو آبادیات و نوآبادیاتی سوج، جو ہم پر 70 سالوں سے مسلط ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں، حالیہ دنوں میں گریشہ سے ایک چھوٹی بچی کو جو کہ چودہ سال کی ہے ان کیساتھ ایک اسکول ہیڈ ماسٹر نے جبری شادی کی لیکن اسکے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں ہوئی۔
“نجمہ بلوچ ہو یا شاہینہ شاہین کا قتل ہو ہم دیکھتے ہیں اس پورے سسٹم میں ریاست کہیں نہ کہیں پائی جاتی ہے۔ پھر کہتے کہ ریاست کو بیچ میں کیوں لاتے ہو تو میں بتائی چلوں کہ جو گران ناز بلوچ جس کی بیٹی اور دو بھائی قتل کر دیے گئے جو وہاں کہ مقامی سردار عبدالرحمان کھیتران کے نجی جیلوں میں قید کیا گیا پھر انکی بچوں کی لاشیں لائی گئی وہی سردار کھیتران پیپلز پارٹی کی حکومت میں سیٹیں لیتا رہا ہے لیکن آج تک اس سے کسی نے نہیں پوچھا۔
سمی دین نے کہا کہ ہم بلوچستان کی وہ عورتیں ہیں جو دوہری جبر کا شکار ہیں ایک طرف بلوچ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے ۔تو دوسری طرف ریاست نے بلوچستان میں ہزاروں خاندانوں کی زندگیوں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں جبری گمشدگیوں کی بات کررہی ہوں وہ جبری گمشدگیاں جس نے بلوچستان کے ہر ایک گھر میں، گھر کے ہر ایک فرد و خاص کر خواتین کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ بلوچ عورت نے مزاحمت سے اپنا نام تاریخ میں روشن کیا ہے، وہ بہادری کی علامت بن چکی ہے۔
سمی دین نے کہا کہ آج نہ صرف اس خطے میں بلکہ پوری دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ مزاحمت کی جو علامت ہے اس میں بلوچ خواتین سب سے آگے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خواتین کی آواز کو کچلنے اور دبانے کے لئے ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں ۔
“ایک طرف بلوچستان میں بلوچ ماؤں کو سڑکوں پر گھسٹنا، ان پر تشدد کرنا، انکے بچوں کو غائب کرنا، ماورائے عدالت انکے بچوں کو قتل کرنا، جب یہی مائیں، بہنیں بیٹیاں جب سڑکوں پر نکلتے ہیں اس ظلم و جبر پر ریاست سے سوال کرتے ہیں تو ریاست ان کو دہشت گرد کہتی ہے۔ ریاست انکی کردار کشی، بلیک میل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہے۔
سمی دین نے کہا کہ آج پورے بلوچستان میں بلوچ خواتین جس المیہ سے گذر رہی ہے، آج یہ ملک بلوچستان کے بارے میں تو جانتی ہے کہ وہاں سی پیک، سیندک اور گیس کے ذخائر ہیں لیکن آج میں آپکو بتاؤ کہ بلوچستان میں جو بچیاں اسکول سے باہر ہیں پورے ملک میں انکی شرح سب سے زیادہ ہے۔ سی پیک جس کو ملک کی تقدیر بدلنے کا نام دیا جارہا ہے، جس کو دبئی بنانے اور ترقی کا جھومر بنانے کی باتیں کی جارہی ہے اسی گوادر میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ وہ دس دنوں سے سیلاب سے مخلتف بیماروں کا شکار ہورہے ہیں۔ لیکن کوئی انکی حال پرسی کے لئے نہیں جاتا۔ یہ بلوچستان کا وہ اصل چہرہ ہے جس کو ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں مخلتف طریقوں سے خاموش کرنے کی کوشش کیجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی کوئی بچی اسکول نہیں جاتی اگر کوئی جاتی ہے، بڑی محنت اور جدوجہد کے بعد کسی یونیوسٹی میں پہنچ جاتی ہے تو انکے واش روم میں کیمرے اسکینڈل سامنے آتے ہیں۔ یہ وہ طریقے ہیں جس سے بلوچ عورت کا ہر طرح استحصال کیا جاتا ہے۔ بلوچ عورت نے اس ریاست کی ہر ظلم کے خلاف مزاحمت کی ہے جس کی واضح مثال ہے حالیہ ہماری ماؤں کی اسلام آباد میں ثابت قدمی تھی جنہوں نے ریاستی جبر کا مقابلہ کیا۔