پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت میں اعلیٰ سطح کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا ہے۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت داسو ہائیڈل پاور منصوبے پر کام کرنے والے چینی شہریوں پر حملے کے بعد اعلیٰ سطح کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا ہے۔
اجلاس میں وفاقی وزرا، چیف آف آرمی سٹاف، وزرائے اعلیٰ، چیف سیکرٹریز اور متعلقہ شعبوں کے انسپکٹر جنرل پولیس نے شرکت کی۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ویڈیو لنک سے اجلاس میں شرکت کی ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ بلوچستان میں سی پیک کے سات مختلف منصوبوں میں 982 چینی باشندے تعینات ہیں، جب کہ مختلف نجی کمپنیوں سے تعلق رکھنے والے چینی اس کے علاوہ ہیں۔
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ سی پیک منصوبوں سے منسلک چینی باشندوں کی حفاظت کے لیے مختلف پاکستانی سکیورٹی فورسز کے 5690 اہلکار تعینات ہیں اور سکیورٹی کا معیار وفاقی وزارت داخلہ کے ایس او پیز کے عین مطابق ہیں۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے بلوچستان کے دو مختلف علاقے تربت اور گوادر میں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بی ایل اے کی جانب سے بڑی نوعیت کے دو حملے ہوئے ہیں۔
بی ایل اے کی جانب سے دونوں کو حملوں کہ آپریشن زرپہاز کا نام دیا گیا ہے۔ جس کا مطلب “ســمندر کی حفــاظت” کــرنا ہے، بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے 2019 میں چینی انجینئرز اور سرمایہ کاروں کے مرکز، گوادر میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پر حملے کے ساتھ ‘آپریشن زرپہازگ’ کا آغاز کیا۔
گوادر حملے کے حوالے سے بی ایل اے ترجمان کا کہنا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کے فدائین یونٹ مجید بریگیڈ کے آٹھ فدائین نے قابض ریاست کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کرکے پچیس سے زائد دشمن اہلکار ہلاک کیے ہیں۔
تربت حملے کے بعد بی ایل اے نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ نے آپریشن زرپہازگ کے پانچویں فیز میں قابض فوج کے نیول ائیربیس پی این ایس صدیق پر حملہ کرکے صبح صادق تک دشمن سے مقابلہ کرکے تیس سے زائد فوجی اہلکار ہلاک کرکے آپریشن کے مقاصد حاصل کرلیئے۔
بی ایل اے ترجمان کا کہنا تھا کہ بلوچ لبریشن آرمی اس سے قبل بھی چین کو یہ واضح پیغام دے چکی ہے کہ وہ بلوچستان کی مکمل آزادی تک قابض پاکستان سے بلوچستان متعلق تجارتی معاہدوں سے اجتناب کرے۔ بلوچ قوم سی پیک جیسی کسی بھی تجارتی منصوبے کو بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ تصور کریگا اور انکے روک تھام کیلئے اپنی پوری قوت استعمال کرتی رہیگی۔ چین نا صرف قابض پاکستان سے گٹھ جوڑ کرکے بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں مصروف رہا ہے بلکہ بلوچ تحریک کو دبانے کیلئے قابض پاکستانی فوج کی عسکری و معاشی معاونت بھی کرتے ہوئے بلوچ نسل کشی میں شریک ہے۔ اگر چین بلوچستان میں اپنے استحصالی منصوبے بند کرکے اپنے شہریوں کو واپس نہیں بلاتی اور بلوچ نسل کشی میں قابض پاکستانی فوج کی معاونت بند نہیں کرتی تو بلوچ لبریشن آرمی یہ حق محفوظ رکھتی ہے کہ وہ بلوچستان میں غیرقانونی طور پر مقیم چینی شہریوں اور غیرقانونی چینی منصوبوں پر شدید حملے کرے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ بلوچستان سے قابض پاکستان کے مکمل انخلاء تک ہمارے حملے مستعدی کے ساتھ جاری رہینگی۔