ایران کے پارلیمانی انتخابات میں ہفتے کو ہونے والی غیر سرکاری رپورٹس میں ٹرن آؤٹ کا تخمینہ تقریباً 40 فی صد لگایا گیا ہے جو کہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ووٹروں کی شرکت کی کم ترین شرح ہے۔
ہفتے کے انتخابات کو ایران کے علما کی اسٹیبلشمنٹ کی قانونی حیثیت کے لیے امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اعتدال پسندوں کے چیدہ رہنما اور قدامت پسند الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ہیں جب کہ اصلاح پسندوں نے انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔
اس صورتِ حال میں انتخابی مقابلہ بنیادی طور پر سخت گیر اور کم اہم قدامت پسندوں کے درمیان ہے جو اسلامی انقلابی نظریات کے ساتھ وفاداری کا دعویٰ کرتے ہیں۔
وزارتِ داخلہ ہفتے کو سرکاری ٹرن آؤٹ کا اعلان کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ ایران کے یہ انتخابات ملک کے معاشی مسائل اور سیاسی اور سماجی آزادیوں پر پابندیوں کے حوالے سے بڑھتی ہوئی مایوسی کے ماحول میں ہو رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق تہران کے حکمرانوں کو اپنی قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ ٹرن آؤٹ یعنی ووٹرز کی زیادہ تعداد میں شرکت کی ضرورت ہے۔
تہران کو گزشتہ دو برسوں کے دوران حکومت مخالف مظاہروں سے بری طرح نقصان پہنچا تھا۔ ان مظاہروں کو ایرانی انقلاب کے بعد سے بدترین سیاسی ہنگامہ آرائی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
اخبار ‘ہمشہری’ کے مطابق انتخابات میں 41 فی صد اہل ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔
سن 2020 کے پارلیمانی انتخابات میں ایران کا ٹرن آؤٹ ریکارڈ کم سطح یعنی 42.5 فی صد تک رہا تھا جب کہ 2016 میں تقریباً 62 فی صد لوگوں نے ووٹ ڈالے تھے۔
پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ساتھ ایرانی ماہرین کی 88 نشستوں والی اسمبلی کے لیے بھی ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔
ماہرین کی اسمبلی کو ایک بااثر ادارہ سمجھا جاتا ہے جسے 84 سالہ خامنہ ای کے جانشین کا انتخاب کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔