مسئلہ ڈاکٹر اللہ نذر کی تصویر سے نہیں
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کسی بھی سیاسی عمل کے دوران اس کے مثبت پہلو یعنی Merits” اور کمزوریاں یا “Dimerits بھی ہوتے ہیں، عمل ہی سوالات کو اور تنقید کو جنم دیتے ہیں جسے نقاد، دانشور اور سیاسی رہنما تعمیری رخ گردانتے ہیں۔
بلوچ لانگ مارچ جس کے بارے میں کہنے، لکھنے اور پڑھنے کو بہت سارا مواد موجود ہے۔
اس مارچ نے غیر تحریری بہت زیادہ لٹریچر جنم دیا ہے جسے کاغذ کے پنوں پر لانے کی اشد ضرورت ہے، اس مارچ نے بلوچ سیاست کے لئے نئی راہیں متعین کی ہیں، بہت سے ایسے خالی جگہوں کی نشاندہی بھی کی ہے جنہیں پر کرنے کی اشد ضرورت پڑے گی تاکہ اگلا قدم اٹھانے سے پہلے آگے کے لیے بلوچ قوم کو اندرون خانہ سیاسی حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے میسر آسکے ۔
اس لانگ مارچ اور دھرنے نے بلوچ سماج میں موجود دراڑوں یعنی قومی تحریک کے منحریفین، مخبرین، ڈیتھ اسکواڈز، وفاق پرست و پارلیمان پرست رد انقلابی قوتوں، بلوچ و غیر بلوچ تحریکی رکاوٹوں، جنگی منافع خوروں، غیر بلوچ ہمدردوں، ہمدرد نما دشمن، ریاستی میڈیا، یا بظاہر وہ ہمدرد جو بلوچ تحریک کو مضبوط فیڈریشن کی نظر کرنا چاہتے ہیں، ان کی بھی نشاندہی کرائی ہے۔
قومی جبر کو فرد، گروپس، سیاسی مراعات اور چند تبدیلیوں کا نام دینا اور سیاسی ٹرمنالوجیوں میں الجھانا چاہتے ہیں مگر آج کی نسل نے یہ واقعی ثابت کردیا ہیکہ یہ ستر کا دور نہیں ہے۔
آج بلوچ سماج میں موجود سیاسی انتشار اس مارچ کی وجہ سے بالکل واضح ہوگیا ہے جس سے نہ انکار کیا جاسکتا اور نہ ہی چھپایا جاسکتا ہے ۔
بالشویک اور ملشویک پارٹیوں کی طرح آج کی بلوچ قومی سیاست اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اس میں پارلیمانی وفاق پرست و مفاد پرست و مراعات پسند سیاسی پارٹیاں جو موجودہ دور میں رد انقلابی گروپس بھی کہلاتی ہیں۔ دوسرے وہ قوتیں ہیں جو غیر پارلیمانی اور آزادی پسند جو قبضے کا خاتمہ اور آزاد بلوچستان کی بحالی چاہتے ہیں اب یہ قوت اولی گروپ سے کافی حد تک سبقت لے جاچکے ہیں۔
یہ سیاسی اور نظریاتی تقسیم جسے انقلابی اور رد انقلابی قوتوں کے نام سے مارکس نے بہت پہلے loyal and” patriot ” کے نام سے دو الگ گروپس میں تقسیم کیا ہے، آج بلوچ قوم کو بھی یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ لایل یعنی وفاق پرست، مفاد پرست، مراعات پسند ، پارلیمان پرست جو کہ پارلیمانی پارٹیوں، ڈیتھ اسکواڈز، منشیات فروشوں اور مخبروں پر مشتمل ہیں، جبکہ دوسرا گروپ یعنی پیٹریووٹ وہ انقلابی قوتیں جو سر زمین کی حقیقی ورثا پر مشتمل ہیں جن میں غیر پارلیمانی سوچ رکھنے والے لوگ، آزاد پسند، مزاحمتکار، لواحقین، شہدا، مسنگ پرسنز اور ان سب کے خاموش حمایتی جن میں کچھ بولتے اور لکھتے ہیں اس کے علاوہ زیادہ تر سوشل میڈیا کے صارفین بھی ہیں۔اب تو انوارالحق کاکڑ جیسے جنگی منافع خور بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیکہ ایسے بلوچ جو قبضہ کے خلاف بات کرتے ہیں جنکا موقف بالکل واضح ہے اور کسی بھی حکمت عملی کے نام پر ڈھکی چھپی نہیں ان کی تعداد زیادہ ہے اور ریاستی جبر اس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
یہ لانگ مارچ ایسے تمام لوگوں کے لئے بھی ایک جواب ہیکہ بلوچ پر امن سیاسی جدوجہد کرنا بھی اچھی طرح جانتے ہے اس کے علاوہ بلوچ یہ بھی ثابت کرنے میں کامیاب ہوا ہے کہ یہ ریاست صرف اور صرف تشدد کرتی ہے اور سیکیورٹی ریاست ہونے کی وجہ سے تشدد کی ہی زبان سمجھتی ہے۔
آنیوالے دنوں میں بہت سے غیر ضروری بحث و مباحثوں سے بچنے کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ کافی معاملات میں واضح سیاسی موقف کے ساتھ اپنے لوگوں اور دنیا کے سامنے بلوچ سیاسی قیادت کو آنا چاہیے نہ کہ کسی دفاعی پوزیشن کے ساتھ مگر اس سب کے لیے متبادل کے طور پر اب بلوچ کو آنے والے وقت میں قومی پارٹی، قومی تنظیم، لٹریچر اور قومی قیادت کے ساتھ آگے انا ہوگا کیونکہ اس مارچ نے نہ صرف یہ موقع دیا ہے بلکہ اس جانب توجہ بھی مبزول کرائی ہے ورنہ “بقول صورت خان مری صاحب کے پورے بلوچستان میں تربت سے شال تک جہاں جہاں یکجہتی کمیٹی نے ماس موبلائزیشن کیا تھا وہاں وہاں متبادل کے طور پر پارلیمانی پارٹیوں خاص کر بی این پی مینگل نے اپنے ووٹ و الیکشن والے جلسے جلوس رکھ کر عوامی جزبات کو پاکستانی پارلیمنٹ، ووٹ و الیکشن تک رکھ کر عوامی جزبات کو دو ہزار چھ کی طرح ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے”۔بلوچ کے اندرونی یا یوں کہہ کہ گھریلو مسئلے کیا ہیں؟ یہ کسی پنجابی ولاگر، ٹک ٹاکر، صحافی یا این جی او والے سے تو نہیں پوچھیں گے۔
بلوچ ایک قوم کی حیثیت سے یہ کہتا ہیکہ انیس سو اڑتالیس تک اس کی ریاست تھی جس پر فوجی آپریشن کے ذریعے قبضہ کیا گیا اس قبضہ کے خلاف روز اول سے بلوچ نے قومی مزاحمت کی ہے جو آج تک جاری ہے، اس قبضے کے بعد مقبوضہ نے اجتماعی قبریں، مسخ شدہ لاشیں، مسنگ پرسنز، وسائل کی لوٹ مار، انسانی حقوق کی پامالی جیسی پالیسیاں مرتب کی ہے اور بدلے میں بلوچ یہ کہہ رہا ہیکہ میری سر زمین سے نکل جاوٴ ، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کشمیر کی عوام، فلسطینی اور افغانی کہتے ہیں کہ میری سرزمین سے نکل جاؤ، ظاہر ہے اس بات کو پنجابی استعارہ نہ سمجھے گا اور نہ ہی سمجھنا چاہے گا تو مانے گا بھی نہیں۔
مگر اس سب کے بدلے میں ہماری خواتین کی کردار کشی کرکے یہ سننے کو ملتا ہے کہ جی آپ کی تصویر ڈاکٹر اللہ نزر کے ساتھ ہے یا ڈاکٹر اللہ نزر کے ساتھ آپ کی تصویر کیوں اور کیسے ہے؟ بلوچ جیسے کسی قوم کی جدوجہد سے اس کے سیاسی تحریک سے خوفزدہ ہوکر پاکستان جیسی ریاستیں اپنی مظالم کو ناکام چھپانے کیلئے اس طرح اپنے غیر سنجیدہ پن کا مظاہرہ کرتے ہیں ایسا فلسطین اور اسراہیل جنگ کے دوران بھی میڈیا پر دیکھنے کو ملا۔
ڈاکٹر اللہ نزر بولان میڈیکل کالج کا طالبعلم تھا گولڈ مڈل لیکر فارغ التحصیل ہوا، مشکے سے ان کا تعلق ہے جہاں ان کا آبائی گھر اور جاہ پیدائش بھی ہے ، وہ بلوچ ہے، بلوچستانی ہے، “son of soil” ہے، (Indigenous) ہے، اڑتالیس سے پہلے ان کے اباؤ اجداد کی یہاں ریاست تھی۔ وہ خود مسنگ پرسن رہا ہے جہاں ریاستی عقوبت خانوں میں شدید ترین تشدد کا شکار رہے، اور آج وہ اپنے طرز سیاست کے ذریعے جدوجہد کررہا ہے۔
مگر سوال یہ ہیکہ وہ اٹھایا کیوں گیا؟ اس نے امیر سرزمین کا باشندہ اور مالک ہوکر بھی آنکھ کھولتے ہی محرومی اور غلامی کیوں دیکھی؟ وہ کسی کا بھائی کسی کا کزن، کسی کا ہمسایہ اور کسی کا علاقہ دار تھا، آج جہاں بھی ہے پر گیا تو بلوچستان سے ہے۔ نہ وہ سیٹلر ہے اور نہ باہر سے آیا ہے۔ یعنی معاملہ بشیر زیب، میر عبدالنبی بنگلزئی سمیت ان جیسے بہت سے جہد کاروں کا ہے، لہذا ان کی پرانی تصویریں ، ویڈیوز، تعلق، دوستی، رشتہ داریاں سب نکلیں گے تو مسئلہ تصویریں کا نہیں مسلہ محرومیوں، آپریشنز، مسنگ پرسنز، جبر اور غلامی کا ہے جس کی وجہ سے انھوں نے جدوجہد کا یہ راستہ چھنا ہے۔
لیکن اس سب کی بجائے بات کسی تصویر پر آجاتی ہے، مزدوروں کے قتل کی مزمت کریں ، اس سب سے ریاست کے بہت چھوٹا ہونے کا واضح ثبوت مل جاتا ہے ۔
پاکستان میں Payment and” “wages act. کا قانون اور اس کی عدالتیں موجود ہیں حکومت سالانہ طور مزدور کی یومیہ مزدوری مقرر کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کرتی ہے، جس کے حساب سے بلوچستان میں مزدور کا یومیہ امدن سب سے کم یعنی ڈھائی سو سے زیادہ نہیں ہے، پھر یہاں نہ کوئی انڈسٹری ہے اور نہ ہی روزگار کے اور ذرائع ہیں، لوکل مزدور خود بے روزگار ہر چوک ہر گلی کی نکڑ پر روزگار کی تلاش میں بیٹھے ہوئے پائے جاتے ہیں، خاص کر مکران کے لوگ روزگار کی تلاش میں خلیج ممالک کا رخ کرتے ہیں، البتہ پنجاب میں مزدور کا یومیہ أمدن کم از کم پانچ سے چھ سو روپے ہیں اور وہاں روزگار کے ذرائع بہت زیادہ ہیں، پھر پنجاب میں انڈسٹریز ، کاشتکاری اور گھریلو ملازمت کے مواقع بہت زیادہ ہیں، لیکن بلوچستان اس سب سے محروم ہے، پھر بھی اس سب کے باوجود ایسا کیا خاص کام ہے، جس کے لیے لوکل مزدوروں کا حق مار کر پنجاب سے مزدور ایکسپورٹ کیے جاتےہیں؟ کیا یہ بلوچستان کے مزدوروں کا استحصال ان کی روزی چھین کر پیٹ پر لاتھ مارنے کے مترادف نہیں ہے؟ پھر دنیا کا کونسا مزدور ہے جو سیکیورٹی کے حصار میں بیٹھ کر مزدوری کرتا ہے؟ پولیس سمیت دوسرے سیکیورٹی اداروں کے ہاں رہائش رکھتا ہے؟ اس کا صحیح جواب کوئی مارکسسٹ ہی دے پائے گا البتہ ظاہری طور پر مقامی لوگوں کا ہر طرح سے استحصال کرنے، ایک سیاسی قومی تحریک کو مزدوروں کے نام پر بدنام کرنے کی ناکام کوشش کے سوا اور کچھ نہیں، یقینا ریاستی اس عمل میں مزدور اور مزدوروں کی جدوجہد ناکام ہورہی ہے، ورنہ کوئی ہے جنہوں نے کبھی ان مزدوروں کو دیکھا ہو، ان سے ملا ہو؟ یہ کس طرح کے مزدور ہیں کہ جن کی میتوں کو انتہائی ریاستی پروٹول دی جاتی ہے؟جبکہ شہید نواب اکبر خان اور شہید بانک کریمہ کے میتوں کو پہلے تحویل میں لیکر تالا لگایا جاتا ہے پھر زبردستی تدفین کرکے قبروں پر سرکاری پہرے بیھائے جاتے ہیں؟
ایف ڈبلیو او یعنی فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن جو ہے ہی کمپنی کی تعمیراتی ٹھیکہ جاتی ادارہ جو مکران میں زیادہ تر مقامی لوگوں کی آبائی زمینوں پر قابض ہے، ایسے تمام نیک مزدور اسی پاک ادارے کے چھتری تلے اپنے جزبہ ایمانی استعمال کرتے ہیں، اسی طرح ایک اور ادارہ ہے این ایل سی کے نام سے جس کی ٹرکیں، بسیں اور کنٹینرز ہیں، ایسے تمام ادارے اور ان سے منسلک لوگ بقول ان کے مزدور مقامی لوگوں کی استحصال اور بلوچستان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ مخبری قتل اغواء مسنگ پرسنز کے معاملے میں ملوث ہوکر حقیقی مزدور کے لئے باعث شرمندگی اور نفرت کی وجہ بن رہے ہیں جسے سمجھنے کے ضرورت ہے۔
اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو ہے ڈیڑھ سو یومیہ کمانے والا مزدور بشرطیکہ روزانہ اس کی دھاڑی لگے پھر بھی ان پیسوں سے کتنا وہ خود کھائے گا؟ کتنا اپنے رہنے کے لیے کرایہ ادا کرے گا؟ اور پھر اس سب سے کتنا بچت کرکے وہ اپنے گھر پنجاب بیجے گا؟ پھر اتنی کم کمائی کے لئے ایک پر خطر علاقہ جاکر کام کرنے کی کیا ضرورت؟ جہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہوں؟ پھر بھی کوئی دو ہزار کلو میٹر دور جاکر دو سو کے لئے اپنی جان جوکم میں ڈالے؟
لہذا ایسے تمام معصوم لوگ جو نادانی میں اس پروپگینڈہ مشین کا حصہ بنتے ہیں ان سوالوں کے جوابات اور ان مزدوروں کے وارداتوں پر ضرور غور کریں جو ہر سیاسی سوچ و فکر رکھنے والے انسان کے لیے بدنامی اور نفرت کا باعث بن رہی ہیں۔ کیوں کہ بلوچ کے علاوہ بھی أس پاس بہت سے اقوام کا استحصال ہو رہا ہے، ان کی بھی تحاریک چل رہی ہیں ایسے میں یہ بے روزگار وہاں بھی أ
آسکتے ہیں۔
بلوچ قومی مزاحمتی جدوجہد سے پہلے یہ سب کے لئے جاننا بہت ضروری ہے کہ انیس سو اڑتالیس تک بلوچوں کی ایک آزاد اور خود مختار قومی ریاست تھی جس پر فوج کشی کے زریعے قبضہ کرکے ظلم و جبر، قومی نسل کشی، انسانی نسل کشی ، لسانی نسل کشی، ثقافتی نسل کشی، تعلیمی اور لٹریری نسل کشی کا سلسلہ آج تک ایک ریاستی پالیسی کے تحت جاری رکھا گیا ہے جس کی بدولت بلوچوں کی پچھتر سالہ قومی مزاحمت پانچویں ریاستی آپریشن کی صورت میں جاری ہے، جس میں تنظیمیں بدلیں، سیاسی پارٹیاں بدلے ، لیڈر بدلے، نسلیں بدلی پر تحریک نے آج تک اپنا تسلسل برقرار رکھا ہوا ہے جو بذات خود کسی مزاحمت کا محتاج نہیں البتہ اس تحریک نے خود مزاحمت کو ہر دور میں ضرور جنم دیا ہے۔
مزاحمت اور قومی جدوجہد میں ڈاکٹر چے گویرا کسی کا ہیرو تو کسی کا غدار ہے، اسی طرح بھگت سنگھ کسی کے لیے مزاحمت کی علامت تو کسی کے لئے دہشت گرد، بالکل ایسے ہی ڈاکٹر اللہ نذر کسی کے لیے قومی نجات دہندہ اور ہیرو تو کسی کے لیے اس کی تصویر بھی ناقابل برداشت اور خوف کی علامت ہے۔
اس لانگ مارچ نے ہمیں یہ بھی سمجھنے کا موقع دیا ہے کہ واقعی یہاں ڈاکٹر اللہ نذر کی تصویر قابل قبول نہیں کیونکہ اب مسئلہ بہت واضح ہوگیا ہے جو کہہ رہا ہے کہ بلوچ کا ہیرو یا ہمدرد کون، غدار کون، قبضہ گیر مردہ باد،
استحصال مردہ باد، تاریخ کے سوالات اور عنوان کچھ اور ہونگے جنہیں تاریخ کا مصنف لکھے گا، لہذا ان سوالوں کے جواب آج سے ڈھونڈنا شروع کریں۔
بقول “نواب خیر بخش مرحوم کے اپنی طرف آنیوالے پتھر کے پیچھے مت بھاگو بلکہ اس پتھر کو پھینکنے والے ہاتھ کو پہچانوں لہذا بلوچ قومی جدوجہد کسی سماجی حقوق کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی انوار الحق، سرفراز، جان اچکزئی اس کے برابر یا مقابل ہوسکتے ہیں، بلکہ ریاست تو اس کم از کم ہماری ایکٹیوازم کو انھیں کے سامنے لاکر ہماری طاقت کو ضائع کرکے ہمیں تھکانے کی ناکام کوشش کررہی ہے تاکہ ہم غیر ضروری بحث و مباحثوں میں الجھ جاہیں۔
ایک طرف بلوچ قومی تحریک ہے جو ریاست اور اس کے ماتحت اداروں کے ساتھ بہ حیثیت اصل فریق کے جاری ہے اور ریاست نے رد انقلابی قوتوں کے طور پر ڈیتھ اسکواڈز, شہدا فورم، تھنک ٹینک، بلوچستان وائسز، چند این جی اوز، صحافی، پارلیمانی وفاق پرست جیسے سیاستدان اور ان کی پارٹیاں لا کر کھڑے کیے ہیں، مگر اس سارے معاملے میں ریاست اسے ایک فوٹو، مزدور، گلزام امام و سرفراز، کاکڑ و اچکزئی، سردار اور بلوچ قوم بناکر نہ صرف الجھانا چاہتا ہے بلکہ اصل فریق کی حیثیت سے خود کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے جسے بلوچوں کو سمجھنا ہوگا کہ اب مسئلہ سردار اور غیر سردار کا نہیں ہے بلکہ بلوچ قوم کا ہے، اصل بحث یہ ہیکہ کون رد انقلابی بن کر ریاست کے ساتھ کھڑا ہے اور کون تحریک کے ساتھ اپنے قوم کے ساتھ کھڑا ہے؟ رہا امام اور سرفراز یہ تحریک کے لیے بھی سبق ہیکہ کچھ لوگوں کے انجام پر دکھ ضرور ہوتا ہے اور دل سے دعا نکلتی ہے کہ کاش ایسا نہ ہوتا، یہ دکھ فرد کے لیے ہوتا ہے نہ کہ تحریک کے لیے ، کیونکہ کوئی بھی تحریک فرد کا محتاج نہیں ہے، مگر پھر بھی آج کے حالات کا تجزیہ کریں تو بظاہر گلزام امام اس کا باڈی لینگویج یہ بتاتا ہے کہ گلزار بمعہ اس کے گروپ سرفراز وغیرہ کے اور کمپنی کے سب ایکسپوز ہوچکے ہیں کہ یہ کوئی گرفتاری نہیں بلکہ سرنڈر ہے، لہذا اصل قوتوں کو چاہیے کسی فوڈ کرپشن والے یا ہیرو ازم کے شکار شخص کو پرکھے پھر فیصلہ کریں مگر لگتا یہی ہے کہ حقیقی قوتوں کی سمجھ میں یہ بات آگی تھی لہذا موقع نہ ملنے پر مایوس ہوکر خاک پہنچا وہاں جہاں کا نشیں تھا، ایسا اس لیے بھی ہے کہ آج کے آثار اور ان دونوں کی باڈی لینگویج یہی بتارہی ہیکہ ان کا بظاہر مزید تحریک کا حصہ بننا زیادہ نقصاندہ ہوتا نہ کے سرنڈر کرنا کیونکہ جس طرح کان کو ہاتھ لگانے کے بجائے سرفراز نے کتے کے پیچھے بھاگنا شروع کیا وہ کوئی ادارہ جاتی رویہ نہیں تھا بس اس نے اپنے عزائم واضح کردئیے تھے لہذا ان کا الگ ہونا تحریک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا اور حالات و واقعات بھی یہی بتارہے ہیں کہ مزید ساتھ رہتے نقصاندہ ثابت ہوتے، شاید ان کو بھی اور اصل قوتوں کو بھی بانپ لگ گیا تھا جو یہ واپس آگے، خیر کیا سچ کیا چھوٹ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
تحریکوں میں بہت سے بلند پایہ کے لوگ گرفتار ہوتے ہیں ازیتیں برداشت کرتے ہیں پھر نکل آتے ہیں اور اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیکہ وہ بھکے نہیں تھے، جس کی زندہ مثال خود ڈاکٹر اللہ نذر اور میر عبدالنبی بنگلزئی ہیں، بہت سے انکار کرتے ہیں پھر شہید سنگت ثناء ، غلام محمد اور ان کے ساتھی بنتے ہیں یا پھر ڈاکٹر دین محمد، زاکر مجید اور زاہد کرد ہوتے ہیں جو مفاہمت نہیں کرتے بھکتے اور جھکتے نہیں تبھی تو آج تک غائب ہیں یا ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں، انھیں مسخ شدہ لاشوں اور مسنگ پرسنز میں بہت سے گلزام امام اور شاید سرفراز بنگلزئی کے شاگرد، ساتھی اور رقیب ہونگے مفاہمت نہ کرنے قومی راز افشاں نہ کرنے دشمن سے نہ ملنے تحریک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی صورت ان کا انجام آج تک مسنگ ہونا یا لاش کا ملنا ٹھرا ہے۔
تحریکوں میں سربراہان یا منسلک افراد کا تھک جانا بھی عام سی بات ہوتی ہے، پھر چاہے وہ شیرو مری ہو، ہزار خان اور بہت سارے حالات و واقعات کو نہ سمجھنا تجزیہ نہ کر پانا دھوکہ کھانا بھی تحریکوں میں ہوتا رہا ہے جس کی مثال آغا عبدالکریم، نواب نوروز اور تہتر کے بہت سے جہد کار رہے ہیں، وجہ کچھ بھی ہوتے تو یہ سارے سرنڈر شدہ، انھوں نے مذاکرات ضرور کیے پھر مفاہمت نہیں کی، بھکے نہیں، تحریک کے خلاف نہیں گئے، مگر یہاں معاملہ دوسرا لگتا ہے، جسے شاید سمجھنے کے لیے کچھ اور وقت درکار ہوگا پر اس سے تحریک پر کوئ منفی اثر بالکل بھی نہیں پڑے گا۔
اتنا کچھ ہونے کے بعد اپنی طاقت کو دشمن کے لیے بچا کے رکھنا ہوگا بوقت ضرورت دشمن ہی کے خلاف استعمال کرنا ہوگا نہ کے دشمن کے کسی تنخواہ دار فرد، پارٹی، گروہ کے خلاف نہ کسی کے جھنڈے اور پوسٹر اتار کے اور نہ ہی دفتر توڑ کے، وہ تو چاہتا ہیکہ یہ الجھ کر تھک جاہیں ، مگر قوموں کا سفر صدیوں کا ہے۔ دن، ہفتے مہینوں کا نہیں۔ ریاست نے اپنے جبر سے اجتماعی قبروں سے مسخ شدہ لاشوں سے بلوچ قومی تحریک کو بلوچ کے گھر گھر تک پہنچا دیا ہے بس سمجھداری کے ساتھ وسیع قومی پالیسی کے تحت اسے اصل دشمن کے خلاف صحیح وقت پر قومی ضرورت کے تحت زیر استعمال لائیں نہ کہ جھنڈے، بینر اتار کر اور جزبات کو ٹھنڈا کرکے، کیونکہ ریاست چاہتی یہی ہے کہ اس قومی ابھار کو قبائلی ، زاتی گروہی اندرونی مسئلہ قرار دیکر خود تماشا دیکھتا رہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔