لاش ملنے پر بلوچ ماں کی خوشی نے مجھ سے میرا سکون چھین لیا! – نعمت اللہ خوشحال

1252

لاش ملنے پر بلوچ ماں کی خوشی نے مجھ سے میرا سکون چھین لیا!

تحریر: نعمت اللہ خوشحال

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ روز پریس کانفرنس کیلئے سول ہسپتال کوئٹہ گیا جہاں بلوچوں کی لاشیں لائی گئی تھیں جن پر حکومت نے الزام لگایا تھا کہ یہ وہ بلوچ ہیں جو مچھ، بولان واقعے میں مارے گئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مچھ، بولان میں مارے جانے والے سرمچاروں کی تعداد 13 تھی جس کی تصدیق تنظیم نے تصویروں سمیت کی اور اُنکی لاشیں بھی لواحقین کے حوالے کیے گئے۔

سرمچاروں کی 13 لاشیں لواحقین کو ملنے کے بعد حکومت نے اعلان کیا کہ مچھ بولان میں 24 سرمچار مارے گئے ہیں۔ جس کے خلاف بلوچوں نے سوشل میڈیا پر لکھنا شروع کردیا اور یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ادارے اپنے عقوبت خانوں میں قید بلوچوں کو قتل کرکے مچھ، بولان واقعے کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔

اور وہی خدشہ سچ ثابت ہوا مذکورہ لاشیں گھروں سے فورسز کے ہاتھوں اُٹھائے گئے لاپتہ افراد کی تھی۔ لواحقین کو لاش دینے کیلئے ایک غیرقانونی شرط رکھا گیا کہ فارم پر دستخط دینے کے بعد لاش ملے گی۔ اُس فارم پر یہی تھاکہ میں جو لاش وصول کررہا ہوں یہ شخص دہشتگردی میں ملوث تھا وغیرہ وغیرہ

خیر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ہسپتال کے اندر پریس کانفرنس کیا اُس کے بعد مزاحمت جاری رکھا بلآخر حکومت نے فارم پر دستخط کرنے کا شرط واپس لے لیا اور لواحقین کو لاشیں دینا شروع کردیا۔

مردہ خانے سے ایک لاش نکالی گئی۔ ایک بلوچ ماں جو انتظار میں بہت حیران و پریشان کھڑی تھی بیٹے کا نام سُنتے ہی لاش کی طرف آگے بڑھی اور بےاختیار ایسے مسکرائی جیسے بیٹا سالوں بعد زندہ اور صحیح سلامت والدہ کے ساتھ مل رہا ہو جب لاپتہ بیٹے کی لاش ملنے پر والدہ اتنی خوش ہوسکتی ہے تو اگر بیٹا زندہ ملتا تو کتنی خوش ہوتی۔

لاپتہ بیٹے کی لاش ملنے پر بلوچ ماں کی دردناک خوشی اور بےاختیار مسکراہٹ نے مجھ سے میرا سکون چھین لیا۔ میں کل سے کوشش کررہا ہوں کہ کسی طرح وہ دردناک سین اپنے دل و دماغ سے نکالوں تاکہ میں پرسکون ہوجاؤں لیکن تاحال ناکام ہوں۔

اور سوچ رہا ہوں کہ وہ والدین وہ بہن، بھائی کیسی زندگی گزار رہے ہوں گے جن کے گھر والے لاپتہ ہیں۔ جو سالوں سے روڈوں پر احتجاجوں میں شریک ہوتے ہیں۔ اُنکی زندگی کا تو ایک ایک لمحہ بہت دردناک اور مشکل ترین ہوگا۔

فوج اور دیگر اداروں سے گزارش کرتے ہیں کہ یہ ظلم مزید بند کردیں کیونکہ بزرگ کہتے ہیں کہ دوسروں کا سکون برباد کرنے والے کبھی سکون نہیں پاسکتے۔ صاحب اپنے لیے نا سہی اپنی بیوی بچوں کی سکون کی خاطر یہ ظلم مزید بند کیجئے اور بلوچستان کے مسئلے کا حل نکالیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔