شھید مولوی محمود ایک تاریخ ساز شخصیت – سعد اللہ بلوچ

442

شھید مولوی محمود ایک تاریخ ساز شخصیت

تحریر: سعد اللہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بیشک افغانستان ایک ایسا ملک ہے جوتاریخ اسلامی میں بہادر شہسواروں کا سرچشمہ ،دلیر و جری سرداروں کا مسکن ،بہادر فاتحین کی ‏جائے ولادت ،اسلام کی پناہ گاہوں میں سے ایک ناقابلِ تسخیر پناہ گاہ اور ایمان کے قلعوں میں سے ایک مضبوط قلعہ رہاہے۔اس ملک ‏کے بارے میں بات کرتے ہوئے امیر شکیب ارسلان رحمہ اللہ کو اسلامی غیرت وجوش کے کیف نے جکڑلیااور ان کے سامنے اس ‏غیور وخوددار ملک کی تاریخ آگئی توان کے رواں قلم کی نوک نے اس اچھوتے وبرجستہ خیال کو پیش کیاکہ:‏
‏”قسم ہے اگر اسلام کا ارتعاش دنیا بھر میں نہ بھی رہا تو مجھے نظر آرہا ہے کہ یہ کوہ ہمالیہ اور ہندوکش کے مابین رہنے والوں کے ہاں ‏ٹھرائے گا، اور اس کی پختگی یہیں نمو پائے گی ۔ ( حواشي حاضرالعالم الإسلامي للأمیر شكیب أرسلان، المجلد الثاني ص 197‏‎.‎‏)‏
عجلت میں لکھی گئی اس تحریر میں ہم اس مبارک سرزمین پر بسنے والے بہادروں میں سے ایک کا تذکرہ کریں گے،جس نے بہادری وخود ‏داری میں کئی ایسی روشن مثالیں قائم کی ہیں کہ تاریخ ان کا تذکرہ ہوشیار شہسوار اور بہادر قائد کےطورسے کرنے پر مجبور ہے۔ ہمارے ‏نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:‏
إنّ الله یبعث لهذه الأمة علی رأس كل مئة سنة من یجدّد لها دینها. (رواه أبو داود:4291)‏
‏”بیشک اللہ تعالی مبعوث فرماتا ہے اس امت کے لیے ہرصدی کے سرہانےکسی ایسے شخص کو جو اس امت کے دین کی تجدید کرتا ہے۔”‏
اس میں شک نہیں کہ یہ حدیث زمان و مکان کی طرح فرد اور جماعت کو بھی شامل ہے۔یہ اس طرح کہ اللہ تعالی ہرزمانے میں ایسے ‏معز زافضل ،تقوی والے اور وفادار رجال کار پیداکرتا ہے جو اس دین کی حفاظت کرتے ہیں اور مکروفریب کرنے والوں کی رسائی سے ‏دور رکھنے کے لیےاور اس سے بغض رکھنے والوں کے بغض سے بچانے کے لیےاپنی کمتروبیش ترقیمتی متاع اور اپنی جانوں کو کھپادیتے ‏ہیں۔ہمارے خیال میں شیخ محمود رحمہ اللہ اس دور کے ایسے ہی مجددین میں سے ہیں[ولانزکی علی اللہ احدا]۔ حالانکہ ان کا تعلق ایسے ‏قبیلہ سے تھاجوبے شک جہاد افغانستان میں شریک رہے لیکن جہاد کے حوالے سے اس قبیلہ میں کافی عرصہ سے کوئی بڑی شخصیت ‏سامنے نہیں آئی ۔جیساکہ آپ کے علم میں ہے کہ بلوچوں کی کوئی الگ مملکت نہیں بلکہ یہ تین مختلف اور ملی ہوئی حکومتوں میں رہتے ہیں ‏اور ان کی اکثریت دیہات میں رہنے والی ہے۔

‏ جس بات نے سب سے زیادہ شیخ کو غمزدہ اور کبیدہ خاطر کیا وہ جہالت تھی جو ان کے قبیلے والوں پرعرصہء دراز سے سایہ فگن تھی۔پس ‏کتنے ہی (بلوچ)جہالت، عصبیت ، ناگوار نخوت،نسلی و قبائلی اثرورسوخ کے ہاتھوں بے دریغ قتل ہوئے۔ شیخ رحمہ اللہ جانتے تھے کہ یہ ‏صورتحال اجتماعی مصالح کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے،اورذاتی مصالح کی آئینہ دار ہونے کی بناء پر اسلامی روح سے سراسر ‏متصادم ہے۔

‏ اوربسا اوقات یہ عصبیتیں اتنا اثررسوخ اور اقتدار حاصل کرلیتی ہیں کہ ان لوگوں کی نظر میں جن سے اللہ نے اس زندگی میں بصیرت ‏چھین لی ہے عزت اور فخر کی بات بن جاتی ہیں، حالانکہ یہ سب کچھ جاہلی رذائل اور مومن آدمی کے لیے توہین آمیز ہے۔کیا ان کے ‏مناسب حال یہ بات نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طاعت میں خود کو پروان چڑھائیں اورایک دوسرے کے ‏گلے کاٹنے کی بجائے اپنے اور اپنے رسول ﷺکے دشمن کو ہدف بنائیں؟ کیا ان کے لیے یہ بہتر نہیں کہ وہ راہ خدا میں قتال کریں ‏تاکہ ان کا ٹھکانہ فردوس اعلی اور ایسی جنت قرار پائے جس کی لمبائی چوڑائی آسمان و زمین کی مانند ہے، بجائے اس کے کہ وہ اس قاتل و ‏مقتول کے بدلہ کی فکر کریں جو دونوں جہنم میں ہیں۔قاتل کو یہ نہیں معلوم کہ اس نے کیوں قتل کیا اور مقتول یہ نہیں جانتا کہ وہ کس ‏ضمن میں مارا گیا۔اور افسوسناک امر یہ ہے کہ بلوچ علاقوں میں ہونے والی چھ معائنوں میں تعلیمی شرح ۴۰ فی صد نوٹ کی گئی ہے۔ اور ‏کل زمین کے صرف چوتھائی حصے پر زراعت کاری ہوتی ہے۔ اسی طرح دینی،ثقافتی اور دیگر معاملات میں بھی بہت پیچھے ہیں ، اور ان ‏میں سے بہت سے لوگ تو دوسرے علاقوں اور شمالی امریکہ کی طرف ہجرت کر گئے ہیں۔ یہ مختصر سی صورتحال تھی جو اس قوم کے ‏بارے میں ہم نے ذکر کی ہے۔

‏ لہذاہم اپنے شیخ اور قائد کو اس قوم کے اندر مجدد جہاد کے روپ میں دیکھتے ہیں،کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کے فضل سے آپ کو یہ توفیق ‏نصیب ہوئی کہ آپ نے ان بلوچ نوجوانوں کو اسلامی جھنڈے تلے اورامیر المومنین ملا محمد عمر حفظہ اللہ کی زیرِ قیادت جمع کیا جو مختلف ‏قبائل اور عصبیتوں میں جکڑے ہوے تھے ،تاکہ وہ راہ خدا میں جہاد کریں اور اندھی عصبیتوں کو چھوڑنے اور پس پشت ڈالنے والے ‏بنیں۔یہ آپ پر االلہ تعالی کا فضل تھا اور اس کا اجر بھی وہی دے گا۔قبل اس کے کہ ہم شیخ کی حیات و کارناموں کے بارے میں بات ‏کریں،مناسب ہے کہ ہم ایک اچٹتی سی نظر شیخ کے قبیلہ اور ان کے علاقے بلوچستان پر ڈالیں۔

بلوچستان:‏
‏ جب بھی مطلق بلوچستان کا نام لیاجائے تو اس سے مراد وہ علاقہ ہوتا ہے جہاں بلوچ قوم بستی ہے ۔ بنظر غائر اس کی تازہ سیاسی حدود کا ‏مطالعہ کیا جائے تو یہ علاقہ ٥٨اور ٧٠ طول بلد شرقاً اور ً٢٥ اور ٣٢ عرض بلد شمالا کے مابین ہے ۔ جبکہ قدیم سیاسی حدود میں اس کی تقسیم ‏یوں ہے:‏
‏ خانہ کلات( خان آف قلات ): عادتاًاسی پر بلوچستان کانام بولاجاتاہے ۔
فارسی (ایرانی )بلوچستان :‏
برطانوی (ھندی )بلوچستان؛ پنجاب اور سندھ کی حدود میں وہ علاقہ جہاں بلوچ قوم رہتی ہے ۔:‏
بلوچستان کا شمالی حصہ جو قومی اعتبار سے افغانستان کا حصہ سمجھا جاتاہے ۔ اور بلوچستان کا موجودہ وسیع رقبہ ایک طرف تو مغربی سمت سے ‏ایرانی شہر (کرمان ) مشرقی جانب میں سبی تک (جوکہ سند اور پنچاب کی مغربی حدود ہیں )اور شمالی میں ایرانی سیستان اور افغانستان سے ‏بڑھتے بڑھتے جنوباً خلیج عمان تک جا پہنچتا ہے ۔ساحل خلیج میں صحراء لسبیلہ سے لیکر یہ خطہ ایران میں میناء جاسک کے مغرب تک ٩٦٥ ‏کلومیٹر دراز ہے ۔پہاڑی سلسلوں میں سے تفتان ٣٩٤١ میٹر، ذرعان ٣٥٧٨ میٹر ،خلیفت ٣٤٨٧ میٹر ،یز مان ٣٥٠٣ میٹر بلندو بالا ‏چوٹیوں پر مشتمل ہے ۔( دائرة المعارف الإسلامية، 4/122، دارالمعرفة، دائرة المعارف معارف القرن العشرين محمد فريد وجدي،)‏
رہےمکران کے علاقے تو یہ بلوچستان کے ان شہروں میں سے ہیں جو خلیج عمان کے ساحل پر واقع ہیں ۔ اوربلوچ قوم کی گزشتہ زمانوں ‏کے تمام واقعات پر مشتمل کوئی مدون تاریخ نہیں ہے ۔ البتہ چند ایک سینہ بہ سینہ پہنچی ہوئی روایات ہیں ۔کوئی مؤرخ قبل از اسلام ان کا ‏درست مذھب نہیں بتلاسکتا ،سوائے اس کے کچھ خطوط اور اشعار سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ ایرانی قوموں میں سے ہیں ۔اور قبل از ‏اسلام انہوں نے ایرانی باد شاہوں کے لئے بہت سی خدمات پیش کی ہیں ۔اور شاید ان کی تاریخ نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ بلوچوں کا ‏طرز ِ معاشرت شہری ثقافت سے دور صحراؤں میں قبائل کی طرز پر رہا ہے ۔

بلوچستان کی فتح : ‏
فارس کی زمین میں اسلامی فتوحات کے لئے غزوہ نہاوند ایک دروازہ تھا ۔وہ اس طرح سے کہ جلیل القدر صحابی نعیم بن مقرن رضی اللہ ‏عنہ نے یہاں کا رخ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر فتح عطاء فرمائی ۔ اور سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بصرہ سے اصفہان پہنچے اور ‏اسے فتح کیا ۔ حضرت سراقہ بن عمرو رضی اللہ عنہ آذربیجان کی طرف بڑھے ، احنف بن قیس رضی اللہ عنہ نےخراسان کی طرف رخ کیا ‏، اور سہیل بن عدی خزرجی رضی اللہ عنہ اور ساریہ رضی اللہ عنہ کرمان کی طرف ، اورعاصم بن عمرو رضی اللہ عنہ سجستان کی طرف ‏متوجہ ہوئے اور حکم بن عمرو ثعلبی رضی اللہ عنہ نے مکران (بلوچستان) کا قصد کیا(یہ۲۳ہجری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مبارک ‏عہد کی بات ہے۔)‏
علامہ ابن جریر نے سیف کے واسطے سے ان کے شیوخ سے نقل کیاہے کہ حضرت حکم بن عمرو ثعلبی رضی اللہ عنہ نے مکران کا قصد ‏فرمایا اور اس تک آپہنچے ،اور یہاں آپ سے شہاب بن مخارق رضی اللہ عنہ اور سہل بن عدی خزرجی رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن ‏عبداللہ بن عتبان رضی اللہ عنہ آملے ۔

یہ حضرات دریائے سند ھ کی طرف بڑھنے لگے ،اُدھر سے اہل مکران اس کے کنارے آپہنچے ،یہاں لشکر تشکیل دیے گئے ،پھر اہل ‏مکران کے باد شاہ نے سندھ کے بادشاہ سےسے مدد طلب کی ،اس نے ایک عظیم لشکر روانہ کردیا، نہر کے ایک جانب ان سب نے ملکر ‏مسلمانوں کے خلاف ایسی گھمسان کی جنگ لڑی کہ ان کے ساتھ لشکر پہ لشکر آکر ملتے رہے ۔پھر اللہ نے مکران اور سندھ کی فوجوں کو ‏شکست سے دوچار کیا اور ان کےلشکر مسلمانوں کے لئے مباح کردیے ۔اس معرکہ میں ان کی بہت بڑی تعداد قتل ہوئی ۔پھر مسلمانوں ‏نے لوٹ کر مکران میں پڑاؤ کیا ،اور فتح کی خبر کے ساتھ خمس (مال ِ غنیمت ) دیکر حضرت صحارعبدی رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی ‏اللہ عنہ کی خدمت میں روانہ فرمایا ۔اور آپ سے قبلہ کے متعلق حکم طلب کیا ۔سو جب حضرت صحار رضی اللہ عنہ خبر اور مال غنیمت ‏لیکر مدینہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو آپ نے ان سے مکران کی بابت سوال فرمایا اور جو شخص جہاں سے آتا آپ اس سے ‏وہاں کی صورتحال دریافت فرماتے تھے ‏
تو حضرت صحار رضی اللہ عنہ نے فرمایا !اے امیر المؤ منین، وہ ایسی سر زمین ہے کہ وہاں کا آسان راستہ بھی پہاڑہے ،وہاں کا پانی ٹپک ‏ٹپک کر گرتا ہے، وہاں کی کھجور ردی ہے(یعنی کھانا ،پینا سب بیکار ہے )وہاں کے دشمن بہادرہیں ۔اس زمین میں خیرقلیل اور شرطویل ‏ہے ۔وہاں کثیر (تعداد میں جانیوالے )بھی تھوڑے ہیں اور تھوڑی تعداد تو ضائع ہونے والی ہے ہی ۔اور اس کے پرے توشر ہی شر ہے‏۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (حضرت حصار رضی اللہ عنہ )سے فرمایا: کیا تم (ایسے ہی ) مسجع عبارت کہہ رہے ہو یا (سچ) کہہ رہے ‏ہو؟انہوں نے فرمایا؛(مسجع) نہیں ! بلکہ مخبر ہوں (صحیح خبردینے والا)۔
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نہیں ، قسم بخدا! ان سے میرا لشکر جہاد نہ کرے ۔پس حضرت امیر المؤ منین رضی اللہ عنہ نے حکم ‏بن عمرو رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا کہ اس کے بعد مکران میں لڑائی نہ کریں اور تمہارے لشکروں میں سے کوئی ایک بھی آگے نہ بڑھے ۔وہ ‏نہر کے اس طرف پر ہی اکتفاء کیے رکھیں ۔(9/318، مطبعة دارالفكر؛ معجم البلدان، ياقوت الحموي)‏‎.‎
لیکن حموی حضرت حکم بن عمرو جدید ی ازدی رضی اللہ عنہ کی فتح مکران کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:‏
‏ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ کسی شخص کو سندھ کی سرحد کی طرف بھیجیں جو ‏انہیں اس کے بارے میں معلومات لاکے دے ۔تو انہوں نے حکیم بن جبلہ کو بھیجدیا ،پھر جب وہ واپس لوٹے تو انہیں حضرت عثمان ‏رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا ۔آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے شہروں کے حالات دریافت فرمائے ۔تو انہوں نے عرض کیا اے امیر ‏المؤمنین ! میں نے انہیں پہچانا اور ان سے باخبر ہوا ۔آپ نے فرمایا، مجھے ان کے بارے میں بتاؤ؟ انہوں نے فرمایا :‏
‏ وہاں پانی کی قلت ہے ۔وہاں کی کھجور ردی ہے ۔وہاں کے چور بھی بہادر ہیں ۔اگر اس سرزمین میں تھوڑا لشکر جائے تو ضائع ہوجائے اور ‏زیادہ جائے تو سب بھوکے رہیں ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کیا تم خبر دینے والے ہویا اایسے ہی مسجع عبارت پیش کررہے ہو؟ انہوں نے فرمایا : جی ! خبر دینے ‏والا ہی ہوں ۔سو آپ کے ایام میں ان سے کوئی جنگ نہ ہوئی اور وہاں پہلی جنگ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے عہد میں ‏لڑی گئی ۔ الكامل في التاريخ، لإبن الأثير، 3/45، مطبعة دار صادر‎.‎
‏ اب ہم شہید قائد شیخ مولوی محمود بلوچی رحمہ اللہ کی زندگی کے کچھ لمحات کا ذکر کریں گے:‏

آپ کی پیدائش :‏
‏ شہید قائد مولوی محمود (سیف اللہ ) سن ١٣٩٣ھ بمطابق ١٩٧٢ ء کو صوبہ نیمروز کے قصبہ ”ناد علی” میں پیداہوئے جو کہ افغانی ایرانی ‏حدود کے مغربی جنوب میں واقع ہے !‏

آپ کانسب :‏
‏ شہید محمود بن ملا عبد الحمید نے بلوچ قبیلہ شاھوزئی کے ایک شریف گھرانے میں پرورش پائی ۔یہ مغربی جنوبی علاقوں میں آباد مشہور ‏افغان بلوچ قبائل میں سے ایک قبیلہ ہے ۔اس قبیلہ کا تینوں زمانوں کے جہاد میں خصوصاً امریکی اور ان کے دم چھلوں کے مقابل جہاد ‏میں بہت بڑا حصہ ہے ۔‏
آپ کے اخلاق :‏
‏ آپ درگذر کرنیوالے ،نرم خو، وجیہ، دلکش چہرے ،شیر یں لسان ،میٹھی گفتگو والے انسان تھے ۔آپ ہر چھو ٹے ، بڑے ،بوڑھے ‏،جوان کی بات غور سے سنتے تھے اور کسی کی بات نہ کاٹتے تھے، بلکہ اسے موقع دیتے کہ وہ اپنا ما فی الضمیر ،اپنی رائے اور خیال کھل کے ‏بیان کر سکے ۔

تعلیم و جہاد :‏
‏ شہید مولوی محمود (سیف اللہ ) نے ایک شریف دیہاتی گھرانے میں پیار ، محبت و راحت کی چھاؤں میں نشو و نما پائی ۔چھوٹی سی عمر میں ‏ہی علومِ شرعیہ کی تعلیم حاصل کرنی شروع کی ۔اور ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کی مساجد و مدارس میں منتقل ہوتے رہے ۔حتی کہ اللہ ‏سبحانہ و تعالی نے علوم شرعیہ کی تحصیل کے لئے آپ کو دار الھجرہ کی طرف ھجرت کی تو فیق عطافرمائی ، آپ نے مدرسہ تجوید القرآن ‏میں داخلہ لیا پھر علمی چشموں سے سیراب ہونے کے لیے پنجاب بھی گئے ۔
شیخ مولوی عبد الر شید والی نیمروز فرماتے ہیں : میں شیخ کو اس وقت سے جانتا ہوں کہ جب ہم چھوٹے تھے ،ارشاد الصرف پڑھتے تھے ‏۔ہم تقریباً ٣ سال مدرسہ حیدر آباد میں رہے ۔
شیخ عبد العزیز جہاد یار (جہاد افغان کے پرانے مجا ہدین میں سے ہیں ) فرماتے ہیں : ‏
‏”جب ہم تو حید آباد میں ارشاد الصرف پڑھتے تھے تو ہمیں مایہ ناز شیخ عبد العزیز رحمہ اللہ تعالی نے جو کہ امارت اسلامیہ کے عہد میں ‏ضلع جار بر جک میں شہید ہوئے ،جہاد کی ترغیب دی ۔وہ ہمارے سامنے وضاحت کرتے کہ اس وقت رحمانی لشکروں اور مرتد نجیب کے ‏ماتحت شیطانی لشکروں کے بیچ ایک پاکیزہ لڑائی ہورہی ہے ۔اور یہ اس کے دور حکومت کے سقوط سے سال یا دوسال پہلے کی بات ہے ۔ ‏پس شیخ محمود رحمہ اللہ قندھار میں شیخ منصور لنگڑیال کے معسکر میں تشریف لے گئے اور اعلی عسکری تربیت حاصل کی ۔اور جب آپ ‏نے عسکری مشق و تربیت میں ایک وافر حصہ حاصل کرلیا تو پھر سے مدارس اور علوم کی طرف متوجہ ہوئے اور حصول علم کے لیے کے ‏لئے مستونگ(پاکستانی بلوچستان کا ایک شہر) چلے گئے۔ تاکہ علوم صرف میں مہارت تامہ حاصل کرلیں ، پس انھوں نے اس علم کو پڑھا ‏اور خوب مہارت حاصل کرلی ۔(روس کے جانے کے بعد)جب مجاہدین کی حکومت آئی تو شیخ اس کے کسی بھی عہد میں کھیل کود میں نہ ‏پڑے اور نہ کوئی اور مشغولیت اپنا ئی بلکہ بس علم ہی حاصل فرماتے رہے ۔پھر جب امارت اسلامی آئی تو شیخ پہلے سے تربیت یافتہ لوگوں ‏میں سے تھے ،مجھے یاد پڑتاہے کہ ہم سبق پڑھتے تھے کہ ہم نے سنا کہ مجاہدین کو سخت افرادی ضرورت پیش آئی ہے ۔شیخ تو پہلے سے ہی ‏تربیت یافتہ تھے، آپ نے خود کو مجاہدین بھائیوں کی نصرت کے لئے پیش کردیا ۔شیخ جہاد یار بات بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں:‏
‏ کچھ ماہ بعد شیخ کابل کے قریبی علاقے چہار آسیاب کی طرف چلے گئے، جہاں سخت معرکے ہورہے تھے، وہ فتح میں مقدم ،مجاہدین کے ‏محبوب، تقوی،جہاد اور لڑائی کے شیر،عظیم قائد ملا داداللہ شہید رحمہ اللہ- كما نحسبه والله حسیبه – کی جماعت میں تھے۔جو کہ شیخ کے ‏شاگرد بھی تھے،(انھوں نے کچھ فنون قتال ان سے سیکھے تھے)‏
پھر علوم کی تحصیل کے کے لیے مدارس کی طرف لوٹ گئے، پھر چند ماہ بعد ہم نے سنا کہ مجاہدین جلال آباد کی فتح کے لئے تیار ہیں ۔شیخ ‏نے مجھ سے کہا آؤ ہم بھی جلال آباد چلتے ہیں ۔مجھے بھی اس میدان کا کچھ تجربہ تھا ۔پر میں نے کہا : شیخ ! ابھی مجاہدین تیار تو ہوجائیں اور ‏عملیات شروع کردیں پھر اگر اس میں طوالت آگئی تو ہم تعلیم سے فرصت نکال کے چلے جائیں گے اور خود کو پیش کردیں گے ۔آپ ‏نے فرمایا : نہیں ! میں تو ابھی قندھار یا ھلمند جارہاہوں نشانہ بازی اور ٹینک چلانے کی تربیت حاصل کروں گا ۔سو آپ چلے گئے اور مکمل ‏توجہ سے ٹینک چلانا سیکھا۔ یہ اس لیے بھی ممکن ہوا کہ آپ انتہائی ذھین اوربیدار مغز تھے۔پھر آپ ”چہار آسیاب ”آگئے اور آپ ‏اپنی لگن میں ثابت قدم اور صابر تھے حتی کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مجاہدین کے ہاتھوں دارالحکومت کابل فتح فرمادیا ۔سو کتنے ہی بھا ئی اس ‏واضح نصرت پر فرحال و شاداں تھے اور یہ اشعار ہر فاتح مجاہد کے دل کی آواز تھے:‏
خوش ہوجا اے زخمی دل اور پرے ہٹ جا اے وحشتناک رات‎
اے کبوتر ہم میں نغمہ سرا ہو، اوراے غمِ دردناک تو زائل ہوجا‎
اے دل ہرغم بھول جا ،اب تو غم غلط ہوچکے ہیں‎
فتح کے آثار نمایاں ہیں‎
خیر پھیل چکی ہے اور نعمتیں بڑھ گئی ہیں‎
کابل میں خوشیاں لوٹ آئی ہیں‎
اور(بڑی خوشی تو) فتح عظیم ہے‏‎
اس کی وادیوں کے چہرے کھل اٹھے ہیں‎
اور اس کے پہاڑوں پر بادِ صبا پھیل چکی ہے‎
اس کے آسمان پہ عزت کے عقاب ہالہ بنائے ہوے ہیں‎
ستارے اور کہکشاں سلام پیش کررہے ہیں‎
اور اس کی سرزمین پر لشکروں نے بہادری کی داستانیں رقم کر دی ہیں‎
اور ہماری سرزمین بدبختوں سے پاک ہوچکی ہے‎
پس خوش آمدید اے اہلِ حق کے لشکرو!‏‎
اپنے ملک کے کنارے خوش خوش رہو‎
زمین پر اسلام و عدل پھیل چکے ہیں‎
اور رحمان و رحیم قوم کا مددگار ہے‎
اے کابل صدق دل سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کاربند رہ!‏‎
‏(تو کیا جانے)تجھے فتح کی بزرگی حاصل ہونے میں کتنی ٹھنڈی آہیں بھری ‏گئی ہیں‎
میری قوم تو دین کو چاہنے والی ہے‎
رحمت رب پہ ہماری مملکت کھڑی ہے‎
میں کمینوں سے کہتا ہوں کہ مکر کے دن ختم ہوچکے ہیں‎
اب تو خیر آگئی ہے اور زخم مندمل ہوچکے ہیں‎
اے کابل ہر لوٹنے والے کے لیے گھر ہوجا‎
کمیونسٹوں کو کینہ تو پرانا تھا
پس کمیونسٹ تو کچلے جاچکے ہیں
تحقیق ہمارے شہروں سے زہرناکیاں منہ پھیر چکی ہیں
‏( معجم البلدان ج 5 ص 179- 180‏‎.‎‏)‏

ان کا کمرہ کابل میں آریانا ہوٹل میں تھا ۔پھر جب شیخ نے دیکھا کہ بلوچ جماعت دن بدن بڑھ رہی ہے اور آپ ان کے مزاج شناس بھی ‏تھے تو آپ نے چاہا کہ ان کے لئے کوئی خاص نظم بن جائے ۔سو آپ نے بلوچ قیادت کو جمع فرماکر ان کے سامنے یہ رائے رکھی کہ اگر ‏ہم اپنا ایک امیر مقرر کرلیں، پھر جہاد کریں اور اپنا دائزہ عمل وسیع کریں ؟تو انہوں نے ان کی موافقت کی ، او کہا ہم آپ کے بغیر کسی ‏اور امیر پر راضی نہیں ہیں، بس آپ ہی ہمارے امیر ہیں،پس انھوں نے امیر المؤمنین حفظہ اللہ (آمین اللھم آمین ) کو اپنے ارادہ سے ‏مطلع فرما کراجازت طلب کی ۔اس پر امیرا المؤ منین حفظہ اللہ نے ان کی تائید فرمائی اور بلوچ بھائیوں کے لئے خاص جماعت کا تعین ‏فرمادیا تاکہ وہ فی سبیل اللہ جہاد کریں ۔اورہمیشہ دیکھا گیا کہ یہ لوگ جنگوں اور معرکوں میں آگے آگے ہوتے تھے ۔

اور اس طرح اللہ کی مشیت سے آپ کو اس عظیم خدمت کی تو فیق حاصل ہوئی کہ اس سے پہلے کسی بلوچ کی قسمت میں یہ بات نہیں ‏لکھی تھی ۔پس آپ نے بلوچ نوجوانوں کوایک ہی جھنڈے تلے جمع کیا۔انہوں نے شمالی افغانستان کے خوفناک وگھمسان معرکوں میں ‏حصہ لیا اور خائنین کی اتنی بڑی تعداد ہلاک کی کہ ہم اسے شمار کرنے سے عاجز ہیں ۔پھر سنہ ١٤١٨ھ میں آپ جامعہ علمیہ کوہ ون آگئے ‏اور شیخ التفسیر والحدیث محمد عمر سر بازی شہید رحمہ اللہ سے درجہء عالمیہ کے پہلے سال کے علوم سے متعلق علمی سیرابی حاصل کرنے لگے ‏۔میرا اس مدرسہ کی طرف جانا ہوا تو میں نے شیخ کے درجات کو بلند پایا آپ ہم جماعتوں پر فائز ،ممتاز اور اول آنیوالوں میں سے تھے ‏۔میں نے ثانوی اور سالانہ امتحانات میں کتب میں حاصل کردہ آپ کے اعلی نمبر دیکھے تھے ۔

پھر آپ جامعہ سعدیہ ”کوٹ سبزل ”صادق آباد آگئے تھے ،یہاں آپ نے مدرسہ کے کبار شیوخ سے کتب حدیث کا درس حاصل ‏فرمایا ۔پھر اپنے سرپر دستارِ فضیلت سجاتے ہوئے سن ١٤١٩ھ بمطابق ١٩٩٨ء میں شہاد ة العالمیہ کی سند فراغت حاصل فرمائی ۔آپ کے ‏اساتذہ آپ کا ذکر بالخیر فرماتے ہوئے کہتے آپ علم و جہاد اور سلوک و احسان میں نابغہ روزگار حضرات میں سے تھے ۔ آپ کے استاذ ‏محترم الشیخ ابو یوسف فرماتے ہیں :۔ ‘شیخ محمود سن ١٤١٨ء میں ایک دوسرے ساتھی کے ساتھ علوم شرعیہ کے حصول کے لیے کےلئے ‏ہمارے ہاں آئے ،چونکہ انہوں نے گزشتہ سال کسی اور مدرسہ سے تعلیم حاصل کی تھی تو ہم نے ان کا ایک امتحان لیا۔ ہمیں نظر آیاکہ ‏شیخ انتہائی ذہین ،باصلاحیت ،سمجھدار طالب علم ہیں لہذا وہ اس امتحان میں کامیاب ہوئے ۔

شیخ مجھ سے کتاب” مسند امام اعظم ”پڑھتے تھے ۔میری اور ان کی اس دوران کئی گر ما گرم محفلیں ہوئیں ۔وہ مجھے مشہور فاتح ملا داد اللہ ‏کے ہمراہ بیتے ہوئے ایام کے میدان جہاد کے واقعات بیان کرتے تھے۔ انہی دنوں افغانستان میں پے درپے فتوحات ہو رہی تھیں اور ‏ہم ان کا تذکرہ کرتے تو شیخ فرماتے : میرا جی ارضِ جہاد کے لئے بے قرار ہے ،مجھ سے یہاں نہیں رہاجاتا ۔میں انہیں تلقین کر تاکہ درس ‏مکمل کیے بنا مت چھوڑو ۔انہوں نے فرمایا : ٹھیک ہے بہت اچھا ۔ میں ان شاء اللہ فتح کے بعد عن قریب ایسا ہی کروں گا ۔

آپ کے اخلاق :‏
آپ انتہائی حسن سیرت و راز داری اور آسمان کو چھوتی ہوئی بلند ہمتی کے حامل تھے ۔ مدرسہ چونکہ شہر کے ایک کونے میں تھا ،بعض ‏اوقات ہمیں کام کرنیوالوں کی ضرورت پیش آتی اور وہ ہمیں میسر نہ ہوتے تو شیخ خالصتاً اللہ سبحانہ وتعالی کی رضا ء کے لیے بغیر دنیوی ‏معاوضہ کے وہ کام کردیتے تھے۔آپ نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں سے گارے اور پتھروں کا ایک کمرہ بنا یا تھا ۔آپ کے جانے کے ‏بعد بھی ایک عرصہ تک طلبہ اس میں سکونت پذیر رہے۔اللہ آپ پر بے پایاں رحمت نازل فرمائے اور آپ کو جنت الفردوس میں ‏داخل فرمائے ۔ٍآمین

افغانستان پرامریکی حملے کے بعد:‏
امریکی و صلیبی اتحاد کی افغانستان پر یلغار امارت کے صوبہ کابل اور شمالی ولایتوں سے پسپا ہونے کے بعد شیخ کے بہت سے قائدین شہید ‏ہوگئے اور آپ کے مجموعہ کے بہت سے عناصر جو آگ برستے ہوے خط اول (یعنی فرنٹ لائن) میں تھے ،خائنین کے ہاتھوں قید ہوئے ‏۔جیسے مزار شریف میں دوستم کے ہاتھوں اور بعض صوبہ کابل میں ۔اس طرح امریکیوں نے شیخ کے معسکر پر دھاوا بول دیا جو کہ ‏مشہور پہاڑ جبل ملک کی جانب واقع تھا اور امریکی طاقتیں مجاہدین کے سا تھ سخت الجھ پڑیں تو یہ بھائی سخت گھیراؤ میں شہید ہوگئے اور یہ ‏‏٣٠ کے لگ بھگ شہد اء تھے۔
مصائب و آلام شیخ پر موسلادھاربارش کی طرح برس رہے تھے ،آپ بہت زیادہ غم میں ڈوبے ہوئے شہداء کے جسموں کو منتقل ‏کرنے کے لیے آئے۔
‏ مگر اللہ کی تقدیر پر آپ راضی تھے اور اپنے نفس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سپرد کر چکے تھے ۔

قائد محمود پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے اپنے بھائیوں کو قید خانوں سے نکالا :‏
شیخ پہلے وہ شخص تھے جنہوں نے مجاہدین بھائیوں کو قید سے نکالنے کی جدو جہد کی ۔وہ یوں کہ آپ ایک قائد کے پاس آئے اور ان کا ‏حلیہ بدل کر انہیں بہت سامال زاد راہ دیکر فرمایا کہ اللہ کا نام لیکر اپنے بھائیوں کو قید خانوں سے نکالنے کے لیے چلے جاؤ ۔اس لیے کہ آپ ‏کو یقین تھا کہ یہ خائنین درھم و دینار کےبندے ہیں اور آپ نے ان سے کہا مال یا کسی اور حوالے سے مت پریشان ہونا ،مال میرے ذمہ ‏ہے ۔سو وہ بھائی مزار شریف چلے گئے اس لیے کہ اکثر بھائی شبر غان جیل میں قید تھے ۔اور ان کی تعداد ١٢٠ سے بھی زیادہ تھی ۔اور ‏اس بھائی نے بھی ایک طرح سے کبھی دوسری طرح سے بھائیوں کو نکالنے کی کوششیں شروع کردیں ۔شیخ اموال جمع کرنے صاحب ‏ثروت لوگوں کے پاس فرداً فرداً جاتے اور ان کے دروازے کھٹکھٹا تے اور بہت مشکلوں سے مال جمع کرکے اس بھائی تک پہنچاتے، حتی ‏کہ انہوں نے ان قید خانوں سے تقریبارسارے مشہور قائد ین نکال لیے جیسے شیخ حافظ غلام اللہ ،قائد محی الدین وغیرہ رحمھم اللہ تعالی ‏۔
شیخ عبد الر شید حفظہ اللہ فرماتے ہیں ؛ شیخ کے بڑے امتیازات میں سے یہ ہے کہ آپ پہلے وہ شخص تھے جنہوں نے اپنے جانبازمجاہدین ‏کوخائنین کی گرفت سے نکالا۔ ‏

سقوط کے بعد شیخ رحمہ اللہ کے کارنامے:‏
‏ آپ دوسرے وہ شخص ہیں جنہوں نے پسپائی کے بعد اپنے عاجز سے مجموعہ کو لے کر جہاد کا آغاز فرمایا ۔
شیخ عبد العزیز جہاد یار فرماتے ہیں؛ ہمیں شیخ نے جمع کرکے ایک مشاورتی مجلس منعقد کی اور بھائیوں سے سوال کرتے ہوئے کہا؛ ‏ہماری اسلامی حکومت تھی اور ہمیں قدرت اور شوکت حاصل تھی ، پھر اللہ نے اسے ہمارے ہاتھوں سے نکال دیا ۔اب ہم کیا کریں ؟ ‏جہاد یا کچھ اور ؟ تو بھائی کہنے لگے : ہم جہاد کے منکر نہیں لیکن شیخ اب اقتدار امریکیوں کے قبضہ میں ہے وہ بحرو برّ کا مالک ہوچکا ۔آپ کسی ‏جگہ کارروائی کرنا چاہیں تو وہ نہیں چھوڑے گا۔

شیخ نے فرمایا : ایساہے تو قر آن و سنت سے واضح کوئی دلیل لے آؤ ،جسے ہم اللہ کے حضور جہاد کے حوالے سے عذر گردان سکیں ،پھر ‏ہم اپنے مدارس اور گھروں کو لوٹ جائیں گے ،پس آپ نے سب کو گنگ اور خاموش کرادیا ۔پھر جب آپ نے دیکھا کہ وہ سب ‏خاموش ہیں کوئی دلیل نہیں پاتے ہیں ، تو آپ نے بات بڑھائی ،فرمایا : میں دیکھ رہاہوں کہ کوئی واضح چیز نہیں پارہے ؟ جو ہمیں جہاد سے ‏معذور قرار دے ، اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم جہاد کریں اور اس عظیم مہم کا آغاز کریں اور جب ہم جہاد شروع کردیں پھر دشمن ہمیں ‏قتل کردے یا ہمارے ہاتھ ، پاؤں کاٹ ڈالے، ہم بروزِ قیامت اللہ کے حضور عذر پیش کریں گے اور کہیں گے کہ اے اللہ ! ہم نے آپ ‏کے حکم جہاد کو شروع کیا لیکن ہم کمزور تھے ،اور ہمارے ساتھ وہ کیا گیا جوآپ کے سامنے ہے۔

شیخ محمد رفیق جنھیں شیخ نے اپنی زندگی میں مالی نگران مقرر فرمایا تھا ،فرماتے ہیں : شیخ نے ہمیں جمع کیا تاکہ ہم یہ کام شروع کریں اور ‏ہم ١٧ بندے تھے آپ ہمیں لے کر ایک گھا ٹی کے پاس چلے گئے ہم وہاں ٤٠ دن ٹھہرے رہے اور ان ایام میں ہمیں سخت ترین ‏پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ان میں سے ایک بہت بڑی پریشانی کُہر کا قہر تھا (ہلاک کن سردی ) وہاں پانی بھی نہیں تھا ۔ان ایام کے ‏دوران ہم وضوء اور غسل جنابت کے لیے تیمم کرتے تھے ۔حتی کہ بھائیوں نے شیخ سے شکوہ بھی کیا اور کہا کہ یہ کارروائی ممکن نہیں کہ ‏ہم کرسکیں ۔ہمارے پاس کچھ مشین گن کے علاوہ اسلحہ بھی نہیں تھا ۔شیخ نے لوگوں سے کچھ اسلحہ عاریتہً لیا ۔ ہمارے پاس ایک ہی کار ‏تھی شیخ نے عاریۃً لوگوں سے ایک اور گاڑی لے لی ۔ ہم پہلے عملیہ کی طرف گئے اور یہ مشہور ” شوٹو”کارروائی ہے ۔یہ اندازاً سال ‏‏١٤٢٣ھ مطابق ٢۰۰٢ء یوم عرفہ کو ہوئی ۔

‏ شیخ محمد امین فرماتے ہیں ؛ شیخ اللہ تعالیٰ کی ذات پر خوب توکل رکھتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ آپ دوسرے وہ شخص ہیں جنہوں نے ‏افغانستان سے مجاہدین کی پسپائی کے بعد انتہائی تھوڑی سی جماعت کے ساتھ گھمسان معرکوں کا آغاز فرمایا ،ایک ایسے وقت میں کہ جب ‏ناامیدی سب پر غالب آچکی تھی اور کوئی بھی اپنی زبان پر مجاہد کا نام لانے کی جرأت نہ کرتاتھا ۔شیخ امین بات آگے بڑھاتے ہوئے ‏فرماتے ہیں:‏
‏ ایک دن شیخ میرے گھر آئے اور فرمایا: ہم نے دوبارہ جہاد کا آغاز کردیا اور ہم دو عملیا ت کر چکے ہیں ۔اورپھرمجھے ان کی مکمل ‏تفصیل بھی بتائی پھر مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں ان کا اسلحہ ،ذخائر اور گاڑیاں اپنے پاس کسی خفیہ جگہ رکھوں ،یہ انتہائی مشکل تھا ،اس لیے ‏کہ دشمن کا مکمل کنٹرول تھا اور کسی بھی وقت کسی کو قید کر لیا جاسکتا تھا۔میں نے آغاز ہی میں گاڑی رکھنے سے انکار کیا ،اور میں نے ان ‏سے عرض کیا: میرے بس میں نہیں کہ میں گاڑی چھپا سکوں ،البتہ یہ ہو سکتاہے کہ میں آپ کے ساتھ عملیہ میں شرکت کروں ۔وہ ‏جہاں کہیں اور جب کبھی ہو ۔لیکن شیخ نے مجھ سے کہا ؛ گھبراؤ مت ! مجھے تم پر تعجب ہے ،آج تم ایک گاڑی کو چھپاکر نہیں رکھ سکتے تو جب ‏ہمارے پاس ٣٠ یا ٤٠ ہوں گی تو پھر کیا کروگے؟ اے شیخ ! اللہ پر بھروسہ کرو! بے شک وہ چاہتاہے کہ مجاہد ین سے کمزوروں کی مدد ‏کرے اور ان کے لیے ان کا وہ دین ممکن بنائے جو اس نے ان کے لیے پسند کر لیا ہے ۔اور غالب دنیا کو ذلیل اور شکست سے دو چار ‏کرے ۔یہ اللہ تعالیٰ کا امر ہے ، اس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم جہاد کریں سو میں نے اس حکم پر عمل کیا ،میں اس سے نصر مبین کا یقین ‏رکھتا ہوں ۔ لہذاآپ پر لازم ہے کہ ہماری اشیاء کی حفاظت کریں ۔

شیخ محمود رحمہ اللہ ہمیں واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے ؛ میں اپنے مجموعہ کیساتھ گھاٹیوں میں آیا، اور وہاں ہم ٤٠ دن ٹھہرے ‏رہے ۔بہادرقائد ملا داداللہ شہید رحمہ اللہ پلان ترتیب دیتے رہے تاکہ ہم مختلف جگہوں میں ایک ساتھ عملیات شروع کریں۔پس ‏جب کارروائی کا مقررہ وقت آیا تو میں قائد ملا داداللہ رحمہ اللہ سے ملا اور میں نے ان سے پلان کے بارے میں پوچھا ، تو انہوں نے فرمایا: ‏جب تک ہم اس کے لئے لیس نہ ہوجائیں تو اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ہم موافق نہیں ۔

اور شیخ (محمودرحمہ اللہ)فرمائے ہیں : بہر حال میں نے تو کارروائی (شوٹو کاروائی)،پھر میں اس مہم کے بعد اسی گھاٹی میں جاملا جہاں پہلے ‏تھا ۔ میں نے انہیں کا میاب کاروائی کی تفصیلات بتائیں ۔ملادادللہ رحمہ اللہ نے مجھ سے پوچھا کتنے گرفتار ہوئے اور کتنے قتل کیے ؟میں ‏نے جواب دیا:‏
میں تو آپ کا شاگرد ہوں ۔میں نے جتنے کفار اور ان کے گماشتے قتل کیے تھے ان کے بارے میں بتا دیا اور یہ بھی بتایا کہ میں نے ‏گرفتارکوئی نہیں کیا اس لیے کہ اسباب اس کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔
میرا اس گفتگو سے مقصد یہ بتا نا ہے کہ وہ دن کتنے مشکل ترین اور پریشان کن تھے ۔اس لیے کہ امریکی جاسوس ہر جگہ پھیل چکے تھے ۔
شیخ نے یہ بھی بتایا کہ جب ہم نے یہ کارروائی کرلی اور صحیح و سالم مال غنیمت کے ساتھ لوٹ آئے تو سب میرے پاس آتے اور پوچھتے ‏آپ نے کیسے یہ کاروائی ترتیب دی؟ اس لیے کہ ایسے وقت اور ایسے اسلحہ کے ساتھ یہ جرأت مندانہ فدائی عمل ایک ناممکن کارروائی ‏تھی ۔
پھر شیخ رحمہ اللہ اپنےمجموعہ کے ساتھ شب خون مارتے تھے حتی کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر ”دیشو”اور خانشین” شہر فتح ‏فرمادیے ۔
اور اسی زمانے میں یعنی ٨ سال قبل برامچہ مجاہدین کا مرکز بن گیااور ان کے لیے آزاد علاقہ بن گیا ۔ وہاں سے دیگر شہر وں اور ولایتوں ‏کے لیے کارروائیاں ترتیب دی جانے لگیں ۔ شیخ رحمہ اللہ مسئول تو نیمروز کے تھے لیکن آپ ھلمند و قندھار اور فراہ اور ھرات کے ‏مجاہدین کو بھی کمک فراہم کیاکرتے تھے، اور وہ امارت اسلامیہ افغانستان کے عسکری حلقے کے ایک مضبوط اور چست رکن تھے،آنے ‏والی سطور میں ہم عسکری حلقے کےحوالے سے تعارف پیش کریں گے ۔

عسکری ہئیت (حلقہ) اس عسکری مجموعہ کے نام ہے جو۲۹ افغان ولایتوں کے عسکری قائدین پر مشتمل ہے ۔اور یہ ھئیت مندرجہ ذیل ‏امور کا اجراء کرتی ہے:‏
جہادی عملیات کے لیے عسکری پروگرام کے خط بندی کرتاور ان کا نفاذ،
‏ افغان ولایتوں میں مجاہدین کی تنظیم اور تیاری ‏
آزاد علاقوں میں مجاہدین کی ٹریننگ کے لیے معسکرات کا سنگ بنیاد رکھنا ۔( مجلة الجهاد، العدد (89)، ص42، صفر 1413هـ.ق ‏اغسطس 1992م‎.‎‏)‏
شیخ رحمہ اللہ کا تعلیمی امور کا اہتمام اور مدارس کا اجراء:‏
عظیم قائد محمود رحمہ اللہ جب بھی کوئی علاقہ فتح کرتے وہاں طلبہ کے لیے ان چیزوں کا اہتمام فرماتے تھے ۔کیوں کہ آپ کے شیخ علامہ ‏محمد سربازی رحمہ اللہ نے آپ کو اس کام کی خصوصی وصیت فرمائی تھی ۔
ڈاکٹر ابو ریحان بلوچی کہتے ہیں ؛ ایک مرتبہ ہم شیخ التفسیر والحدیث علامہ محمد سربازی رحمہ اللہ کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھے تھے تو ‏شیخ رحمہ اللہ نے قائد محمود کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا :‏
‏ آپ پر لازم ہے کہ جو علاقہ بھی فتح کریں اس میں مدارس و مکاتب کا قیام عمل میں لائیں ۔
امارت اسلامیہ کے عہد میں شیخ نے دیشو میں ایک بڑا مدرسہ قائم کیا تھا ۔چھ سال پہلے میں نے وہ مدرسہ دیکھا وہ بہت بڑا تھا لیکن بر ‏باد تھا ۔اس لیے کہ خائنین جب اس پر قابض ہوئے تو اس مدرسہ کے ایک جانب اپنا مرکز بنا یا اور مدرسہ کے کمروں کے دروازے اکھا ‏ڑکے بیچ ڈالے،اسی طرح انہوں نے کھڑ کیاں اور چھت کے شہتیر،لوہا وغیرہ قیمتی اشیاء سب چرالیں اور یہاں تک کہ وہ مدرسہ کتوں کا ‏ٹھکانہ بن گیا۔پھر جب اللہ نے شیخ کے ہاتھ پر برامچہ کو فتح فرمایا تو آپ نے وہاں طلبہ کے لیے ٣ مدارس بنائے ہر مدرسہ میں کم و بیش ‏اڈھائی ، تین سو طلبہ پڑھتے ہیں۔ ‏

آپ کی حساسیت و تجربہ :‏
‏ شیخ محمد امین حفظہ اللہ فرماتے ہیں شیخ محمود انتہائی دوراندیش اور حساس تھے ، ہ آپ لوگوں کو پہچاننے میں انتہائی تجربہ شناس تھے ،واقعہ ‏یوں ہواکہ ہم شمال کے خط اول میں تھے وہاں ایک شخص تھا جو مجاہدین میں دیوانہ مشہور تھا ،وہ مجاہدین سے گھل مل جاتا اور مجاہدین بھی ‏اسے مجنون خیال کرتے اوراسے اس کے حال پر چھوڑ دیتے، یعنی کوئی پرواہ نہ کرتے ،حتی کہ شیخ نے اس کو دیکھتے ہیں شک کا اظہار کیا۔
ہوا یوں کہ ایک مرتبہ دشمن نے بد خشانی مجاہدین کی خندق پر بمباری کی ۔ہم حملہ کے بعد شیخ کے ساتھ ملبہ سے لاشیں نکالنے ک لیے ‏گئے تو دیکھا کہ طیارے پھر سے منڈلارہے ہیں ۔شیخ نے مجھے حکم دیا کہ جاؤ اور اس مجنون کو قابو کر کے لے آؤ میں نے کہا:اس کا کیا کریں ‏گے وہ تو مجنون ہے ۔
فرمایا : لیکن میرا تجربہ یہ ہے کہ وہ جاسوس ہے پس وہ مجنون جہازوں کا انتظار کررہاتھا جب وہ بمباری کے لیے آنے لگے تو ا س نے فرار ‏ہونا چاہا ،ہم نے اسے قابو کرلیا اور تحقیق کے بعد ہمیں معلوم ہواکہ وہ جاسوس ہے ۔اور اس نے انکشاف کیاکہ میرے ساتھ ۷ جاسوس ‏اوربھی ہیں ۔ ‏

آپ کی جہادی خدمات :‏
‏ شیخ مولوی محمد امین حفظہ اللہ فرماتے ہیں : شیخ کی مایہ ناز صفات میں سے ایک صفت دو سروں کی خدمت کرنا ہے ۔آپ بذاتِ خود مجاہدین ‏کے لباس اور جبے سیتے تھے ،اسی طرح ان کے لئے پانی گرم کرکے لاتے، اسلحہ کی میل کچیل کو پٹرول سے دھوتے اور اس کی درستگی ‏کرتے ۔اور انہیں جدید خطوط پر تیار کرتے تاکہ وہ جنگ میں اوروں سے پیچھے نہ رہیں ۔آپ ان کی رہنمائی کے لئے بہت زیادہ اہتمام ‏اور انتہائی جدوجہد فرماتے ۔
پھر جب مجاہدین کا ہرات پر غلبہ ہوا تو انہیں پورے دن ایک آلو ملتا پھر بعد میں خشک دود ھ کا بھی اضافہ ہوا تو ہم اس نعمت پر بہت ‏خوش ہوئے اور ہم نے آپ کے سامنے گوشت کی بھی چاہت رکھی ۔آپ ہماری دلجوئی فرماتے اور فرماتے صبر کرو !ابھی گوشت ‏موجود نہیں ۔
اور ہاں ! ہم اور وہ اس وقت طالب علم تھے اور ابھی علوم شرعیہ سے فارغ نہ ہوئے تھے۔مگر شیخ تو تمام مشکلات اور تکالیف میں ایک ‏بلند پہاڑ اور مضبوط چٹان کے مانند تھے اور آپ ہمیں صبر کی تلقین فرماتے رہتے تھے ۔ ‏

آپ کی بہادری :‏
شیخ محمد امین فرماتے ہیں؛ میں بہت سی کاررائیوں میں شیخ کےساتھ شریک رہا ۔میں نے آپ کو آگے بڑھنے والا شیر پایا جو موت سے ‏بالکل بھی نہ ڈرتے تھے ۔ میں نے ایک معرکہ میں انہیں دیکھا کہ وہ مجاہدین کو بلند آواز سے پکار رہے ہیں اور انہیں ہدایات دے رہے ‏ہیں جبکہ دشمن ان پر ہجوم کیے ہوئے اور انہیں ہر طرح کے اسلحہ سے نشانہ پر لیے ہوئےتھا ۔لیکن شہید قائد بے پرواہ ہوکر مجاہدین کو ‏احکامات دے رہے تھے ،اور انہیں رہنمائی دیتے ہوئے وصیت فرمارہے تھے اور اسی لمحے میں وہ ایک شیر کی طرح اعداء اللہ پر ‏دھاڑرہے تھے ۔آپ برامچہ کا علاقہ مرتدین کے قبضے میں جاتے ہوئے دیکھ کر تھوڑا بہت پریشان ضرور ہوتے مگر ڈرتے نہ تھے۔

ورع و تقویٰ: ‏
آپ عاجز ، صاحب ورع ، بردبار تھے ،اور آپ شرور کو مٹانے والے اور حق کی نصرت اور اسے مضبوط کرنے والے تھے۔آپ کے ‏تقوی کے حوالے سے ایک خاکہ شیخ محمد امین حفظہ اللہ کے لفظوں میں کچھ یوں ہے؛ آپ جب بھی کسی مدرسہ میں ٹھہر تے ،ہر کام سے ‏پہلے وہاں کھا نے کی قیمت ادا کرتے ۔
ایک دن میں شیخ کیساتھ ایک معاون خیر کے ہاں گیا ۔ہم نے ان کے پاس کھانا کھایا پھر جب ہم اس کے گھر سے واپس اپنے ہاں لوٹے تو ‏شیخ نے جو کچھ کھایا تھا قے کردیا ،پھر میری طرف دیکھا اور فرمایا جاؤ اور گوشت کے متعلق پڑتال کرو جو ہم نے اس کے پاس کھا یا تھا وہ ‏کہاں سے آیا تھا؟
ایک مدت کے بعد میں گیا اورمیں نے اس سے گوشت کے بارے پوچھا اس نے کہا: ایک معاون خیر طلبہ کے لئے اونٹ لایا ،لیکن اس ‏وقت طالب علم موجود نہیں تھے تو ہم نے آپس میں تقسیم کرلیا ۔پھر میں نے شیخ کو یہ بتلایا تو آپ نے فرمایا : اسی وجہ سے وہ میرے پیٹ ‏میں نہ رہا۔
ایسے ہی ایک دن اساتذہ گوشت بھون رہے تے اور کلیجی وغیرہ اپنے لیے بنارہے تھے کہ شیخ نے یہ منظر دیکھا تو آپ بہت غمگین ہوئے ‏اور انہیں اس سے روکا اور فرمایا یہ طلبہ کا حق ہے ان کے بغیرتمہارے لیے حلال نہیں ۔ اور آپ فرماتے تھے اپنے کاموں میں تقوی کو ‏شعار بنالو اورایسے ہوجاؤ جیسے اکابرین اور اولیاء کے خدام ہوتے ہیں ۔اگر تم نے ایسا نہ کیا تو نہ توتم بڑے کہلانے کے مستحق ہو اور نہ ہی ‏آزاد لوگوں میں تمہارا شمار ہوگا۔

شیخ رحمہ اللہ کی سخاوت :
اللہ کے راستے اور نیکو کاروں کی خدمت میں بے حساب مال لگانے میں آپ بڑے فراخ دل واقع ہوئے تھے ۔آپ مجاہدین کے ‏درمیان ہدایا تقسیم کرتے تھے اور اس میں سے اپنا حصہ نہ نکالتے تھےاگرکبھی لیتے توبہت تھوڑا۔
شیخ محمد امین فرماتے ہیں؛ میں ایک مرتبہ شیخ کے ساتھ ایک بڑے مالدار آدمی کے پاس تھا ۔اس نے آپ کی خدمت میں بہت سا مال ‏پیش کیا ،شیخ نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہ مال مجھے ہدیہ کردیا اور فرمایا؛ اس مجاہد کو میری نسبت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ اس کے ہاں ‏ایک مریض ہے ۔‏
شیخ جہاد یار فرماتے ہیں؛ایک مرتبہ شیخ ہمیں اپنے اساتذہ کی زیارت کے لیے لے گئے ۔سو جب ہم وہاں گئے اور آپ کے اساتذہ اور ‏مدرسہ کی زیارت کی تو آپ نے اپنے شیخ کو کچھ مال ہدیہ کرنا چاہا، لیکن آپ کے پاس مال نہیں تھا اور ایک بھائی کے پاس تھا وہ حج کے لیے ‏جانا چاہتے تھے ۔آپ نے ان سے قرض لے کر اپنے شیخ کو ہدیہ کیا۔ مجھے دکھ ہوا لیکن انہیں کچھ نہ کہا،پھر ان کے شیخ نے کہا اگر تم فلاں ‏علاقے کو جاؤ تو وہاں میرے ایک شاگرد سے ملاقات کر کے اس کےلیے اور اس کے مدرسے کے لیے دعا کردینا ۔جب ہم اس مدرسہ ‏میں گئے تو مہتمم ِ مدرسہ مشکلات کے بارے میں بتانے لگے اور حالات کی تنگی کا تذکرہ کرنے لگے ۔شیخ نے اس بھائی سے کچھ قرض لیا اور ‏انہیں ھدیہ کردیا۔ ہم وہاں سے نکلے تو میں شیخ پر ناراض ہوا اور عرض کیا آپ کو کیا ہوگیا ہے کہ اپنی جیب میں کوئی پیسہ نہیں لیکن قرض ‏لے کر اوروں کو دیے جاتے ہیں ۔آپ نے مجھے دیکھا اور فرمایا : مجھے یقین ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مجھے یہ عطاکر دے گا ۔حتی کہ ہم واپس ‏آگئے ۔جب اپنے علاقے پہنچے تو ایک معاونِ خیر آیا اور ایک لاکھ روپے دیکر کہایہ بیت المال کے لئے ہے ،پھر چالیس ہزار نکالے اور کہا ‏یہ آپ کی ذات کے لئے ہے ۔شیخ جہاد یار کہتے ہیں ؛ مال آپ کے ہاتھ میں تھا ۔آپ نے مجھ سے فرمایا، دیکھو ! کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ ‏جو میں نے دیا اللہ کا اس بدل عطاء فرمائے گااورکہا ، یہ نہ سمجھو ! یہ میرے لیے ہے ۔بلکہ درحقیقت یہ تمہارے اموال ہیں ۔ مجھ میں تم ‏سے زیادہ کوئی خاص بات نہیں سوائے اس کے کہ میں گویا تمہارا امیر ہوں اور لوگ امراکا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں ،تو انہیں تحفے ‏تحائف پیش کرتے ہیں ۔

آخری خواب اور شہادت :‏
شیخ محمد امین فرماتے ہیں؛آپ نے شہادت سے کچھ عرصہ قبل خواب دیکھا کہ آپ کی تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ چکاہے اور دانے گررہے ہیں ‏آپ انہیں روکنا چاہتے ہیں لیکن روک نہیں پاتے، پھر آپ نے اپنے اس خواب کی خود ہی تعبیر فرمائی کہ میرے قائدعنقریب شہید ‏ہوجائیں گے ۔سو معاملہ ایسے ہی ہوا ۔آغاز میں میدانی قائدکبیراحمدرحمہ اللہ کی شہادت ہوئی جن کا مرثیہ شاعر کبیر فقیر محمد درویش ‏نے کہا ہے ۔پھر قائد مولوی محی الدین اور قائد مفتی نصر اللہ رحمہمااللہ شہید ہوےاور اسکے بعد قائد شیخ مولوی محمود (سیف اللہ ) رحمہ ‏اللہ شہادت سے سرفراز ہوکر اپنے لفظوں کو حقیقت بنا گئے۔
انہوں نے جہاد،بہادری اور دعوت فی سبیل اللہ میں ایک عمر بتا دی تھی ۔ اور ایسی قوم میں جہاد کی تجدید فرمائی جن کا جہاد میں بہت ہی ‏معمولی حصہ تھا ۔ انہوں نے امن و ایمان اور سلامتی و اسلا م کے سا تھ۱۶ ،اشخاص کے ہمراہ اپنی روح ذات باری تعالی کے سپرد کردی ‏۔اور وہ سب اپنے خوابوں اور امیدوں کےسا تھ بروز جمعہ ٢٣ جمادی الاولیٰ ١٤٢٨ھ بمطابق آٹھ جون 2007 کو کامیاب و کامران ‏ہوگئے ۔اوریہ شہادت علاقہ تاغز ضلع خانشین، ہلمند کے قریب امریکی فضائی حملے میں ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ (مجلة الجهاد، العدد ‏‏(89)، ص42، صفر 1413هـ.ق اغسطس 1992م‎.‎‏)‏
‏ يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (27) ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً (28) فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (29) وَادْخُلِي جَنَّتِي (30).(الفجر)‏
‏”(اور جو اللہ کے فرماں بردار تھے ان کے بارے ارشاد ہوگا) کہ اے اطمینان والی روح تو اپنے پروردگار کے (جوار رحمت) کی طرف ‏چل،اس طرح سے کہ تو اس خوش وہ تجھ سے خوش، پھر (ادھر چل) کر تومیرے خاص بندوں میں داخل ہوجاکہ( یہ بھی نعمت روحانی ‏ہے) اور جنت میں داخل ہوجا۔”‏
اگرچہ دشمن نے ہمیں ایک بڑے شیخ سے محروم کردیا ہے ۔لیکن وہ انہیں ہمارے سینوں سے نہیں نکال سکتا ۔آپ ہماری آنکھوں سے ‏اگر چہ اوجھل ہوگئے لیکن آپ کی دل آویز مسکراہٹ ہمارے دل میں اب بھی نقش ہے ۔اور آپ کے خوشبؤوں بھرے تذکرے آ ‏پ کے ہزاروں شاگردوں اور بیٹوں کی زبانوں پر جاری ہیں، جو مسلسل آپ کے عہد کی تکمیل میں لگے ہوے ہیں اور انہی راستوں پر ‏بالاخران سے جاملیں گے جن کا ٹھکانہ اللہ کی طرف سے مغفرت کا پروانہ ہے ۔
اللہ ہمارے شیخ اور تمام شہداء پر رحم فرمائیں اور ان سے راضی ہوجائے اور انہیں خوش کردے اور اپنی جنتوں میں داخل فرما۔ اور ان ‏کا حشر اپنے انعام یافتہ بندوں، انبیاءعلیہم الصلوۃ والسلام ،صدیقین ،شہداء و صالحین کے ساتھ فرما، اور یہ کیسے ہی اچھے رفیق ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔