بے بسی اور امید
تحریر: سائرہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میرے بھائیوں کی جبری گمشدگی کے بعد زندگی کے ایام احتجاج منظم کرنے میں گزر رہے ہیں، اُن کی بازیابی کے لئے اقتدار کے مرکز اسلام آباد کے پریس کلب میں دوسرے جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کے ساتھ کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا گیا اور اسی سلسلے میں خضدار سے کوئٹہ گئی کہ وہاں سے اسلام آباد روانگی تھی ۔
بلوچستان جہاں صبح کا آغاز پرندوں کے گنگنانے سے نہیں بلکہ ماتم سے ہوتا ہے۔ جس جبر کے خلاف اقتدار کے مرکز احتجاج کرنے جانا تھا کہ تربت سے چار جبری گمشدہ نوجوانوں کی ماورائے عدالت قتل کی خبر ہم تک پہنچی، ایسی خبریں ہمارے کلیجے کو چیر دیتے ہیں کہ ہم اس درد سے آشنا ہیں اور روز اسی خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔
پچیس نومبر کی شام کو ہمیں اسلام جانا تھا اور اسی دن بالاچ کی ماروائے عدالت قتل کے خلاف کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالنا تھا۔ سینکڑوں جبری گمشدہ افراد کے لواحقین و سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہم نے ریلی نکالی تاکہ اپنی آواز اُن تک پہنچائیں جن کے سینے میں دل نہیں اور ماؤں کے لخت جگر کو قتل کرکے ویرانوں میں پھینکنے سے ہچکچاتے نہیں ہیں لیکن بلوچستان میں زبان بندی کا قانون لاگو ہے اور جو قتل ہورہے ہیں انہیں احتجاج کا بھی حق نہیں ہے۔ ہمارے راستے پر خاردار تاریں بچھائے گئے مگر مزاحمت کرنے کے بعد ہماری ریلی گورنر ہاؤس کوئٹہ کے سامنے پہنچی اور ہم نے اپنا احتجاج رکارڈ کیا ۔
اسلام آباد کیلئے سفر میں میرے ساتھ جبری گمشدہ سعید احمد کی والدہ، جہانزیب کی والدہ اور بھتیجی ماہ نور تھی اور راشد بلوچ کا خاندان کراچی سے ہمارے ساتھ شامل ہونے کے لئے آ رہی تھی۔
سفر اس کشمش میں گزر رہی تھی کہ کیا اس دفعہ اپنے بھائیوں کو بازیاب کروا پاؤں گی یا احتجاج کا طویل سلسلہ یوں ہی گزر جائے گا۔ بے بسی کے عالم میں سوچتی رہی کہ کمیشنز اور عدالتوں کے چکر لگا چکی ہوں، گورنر ہاوس کے سامنے دھرنا دے چکی ہوں لیکن کھوکھلے وعدوں کے سوا ہمارے حصے میں کچھ بھی نہیں آیا۔
گورنر ہاوس کے سامنے دھرنے میں گزرے تکلیف دہ لمحات جو ذہن پر نقش ہوچکے ہیں۔ مسلسل برستا بارش، شال کی یخ بستہ سردی اور بلوچ مائیں، جو اس آسرے میں بیٹھے ہیں کہ مقتدرہ قوتیں ایک ماں کی فریاد سننے پر مجبور ہوں گے اور اُس کے بیٹے کی بازیابی میں مدد کریں گے ۔
سیما کی چیخ آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے، اس شام چیخ کی آواز پر ہم بھاگتے ہوئے نکلیں تو سیما سڑک پر بارش کی کیچڑ پر بیہوش پڑی تھی اور ننی شارُل اسکے ہاتھ سے گرگئی تھی۔
ستائیس نومبر کو ہم نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے اپنا کیمپ لگایا، ہمارے وہی مطالبات تھے جو کئی سالوں سے ہم مسلسل دہرا رہے ہیں کہ ہمارے پیاروں کو بازیاب کیا جائے۔
اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو اپنے قانون کے تحت ہی صحیح لیکن آئین کی پیروی کریں تاکہ ہم اجتماعی کرب سے نجات پائیں گے، روز ہم ازیت ناک خیالوں سے گزرتے ہیں کہ ہمارے پیارے پاکستان کے عقوبت خانوں میں کس طرح کی تشدد سہہ رہے ہیں۔
جبر کا نظام قائم رکھنے والے انسانیت نہیں رکھتے لیکن کچھ چیدہ چیدہ لوگ ہیں جو انسانیت کی شمع کو جلائے ہوئے ہیں اور انہی میں سے حامد میر ، اسد علی تور، سینیٹر مشتاق اور پی ٹی ایم کے دوست ہمارے کیمپ آئے، ہماری آواز بنے اور ہم سے یکجہتی کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں طلبہ کے کیس کی سماعت تھی تو ہم بھی اپنا مدعا بیان کرنے پیش ہوئے، جہاں ریاست کی ترجمانی سرفرزا بگٹی (اس وقت کے نگران وزیر داخلہ) کررہے تھے، بگٹی صاحب جبری گمشدگی کی سنگین مسئلے سے انکاری رہے، ساری دنیا بلوچستان میں ریاست کے جبر سے آشنا ہے لیکن ریاست کے نمائندے اپنی آنکھیں کھولنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اِن ریاستی نمائندوں کو احساس نہیں کہ ہم کس کرب سے گزر رہے ہیں، میرے کزن رشید کی والدہ اسی کرب کے ساتھ زندگی کے آخری لمحات گزار دیے اور کلمے کی جگہ رشید کا ورد کرتے ہوئے ابدی نیند کی آغوش میں چلی گئیں۔
سرفراز کے شاید علم میں نہ ہو کہ میں اپنی بیمار ماں کی تیمارداری کے بجائے پاکستان کے مرکز میں اقتدار کے ایوانوں کی در کھٹکھٹا رہی ہوں۔
ہائی کورٹ جج کے سوالات پر سرفراز بگٹی خاموش رہے، عدالت نے واضع احکامات دئے کہ ہم اُس وقت تک حکومی موقف ماننے کے لئے تیار نہیں جب تک یہ بچیاں اور مائیں خود پیش ہوکر نہ کہیں کہ ہمارے پیارے بازیاب ہوچکے ہیں اور دس جنوری تک دو ہزار چوبیس کو جبری گمشدہ افراد ( جن کے کیسز عدالت میں زیر سماعت ہیں ) بازیاب نہیں ہوئے تو آپ اور وزیراعظم پر ایف آئی آر کا حکم دونگا۔جج کے فیصلہ سے ہماری امید بڑھی کہ شاید عدالت کے احکامات پر عمل ہو لیکن عدالت کے باہر سرفراز بگٹی نے پھر ریاست کی ترجمانی کرتے ہوئے جبری گمشدگی کے حوالے دبے لفظوں میں عدالتی احکامات کی روگردانی کرتے رہے، احکامات صرف احکامات ہی رہے اور اُن پر عمل نہ ہوسکا، سرفراز اور انوار الحق کاکڑ پر ایف آئی آر تو نہ ہوسکا لیکن ریاستی ترجمانی پر سرفراز بگٹی کو بلوچستان اسمبلی کی سیٹ دی گئی اور بلوچستان حکومت میں حصہ داری بھی مل گئی۔
ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ اسلام آباد اور بلوچ کا رشتہ جبر کے ذریعے قائم ہے لیکن ہم امید قائم رکھتے کہ شاید اب ہماری آواز سنی جائے لیکن دسمبر کی اُس سرد رات ریاست نے بلوچوں کے ساتھ اپنا رویہ پورے دنیا کے سامنے آشکار کردیا۔
ہمارے لئے وہ دل دہلانے والے مناظر جنہیں ہم زندگی بھر بھلا نہیں پائیں گے کہ ہمارے آنکھوں کے سامنے ریاستی پولیس نے اسی سالہ بوڑھی عورتوں کو جو پہلے ہی دو دہائیوں سے بلوچستان میں جبر کے سائے میں زندگی گزار رہی تھی انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔
وہ بچہ جو زندگی کے حقیقتوں سے ابھی آشنا بھی نہیں ہیں، وہ بھی ریاست کے تشدد سے آشنائی حاصل کرتے رہے۔ پولیس نے ہمیں تشدد کا نشانہ بنا کر سڑک پر گھسیٹتے ہوئے گاڑی میں پھینک دیا، وہ ازیت ناک لمحے تھے جب پولیس نے ہمارے سر کے دوپٹے کھینچ لئے، ہماری ماؤں اور بہنوں کے کپڑے پھاڑے گئے، وہ بھیانک منظر سوچتے آج بھی خوف مجھے گھیر لیتی ہے۔
ہم جو جبری گمشدہ بھائیوں کی بازیابی کے لئے سراپا احتجاج ہیں لیکن بے بسی کا عالم دیکھیں کہ جو بھائی ہمارے احتجاج میں شامل تھے انہیں ہمارے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور بے ہوشی کے حالت میں انہیں گرفتار کیا جارہا تھا ۔
ریاست اپنے مرکز اور دنیا اور میڈیا کے سامنے ہمیں تشدد کا نشانہ بنا سکتا ہے تو ہم تصور نہیں کرسکتے ہیں کہ اُن کے عقوبت خانوں میں سالوں سے قید ہمارے پیاروں کے ساتھ وہ کیا سلوک کر سکتا ہے۔
دو مہینے ہمارا احتجاج دنیا کے ضمیر کو جگانے کے لئے جاری رہا لیکن اسلام آباد پریس کلب کے سامنے خاردار تاروں کے بیچ وہ احتجاج بھی ہمارے بھائیوں کی طرح قید میں تھا۔ خار دار تاریں، پولیس کی چوکیاں، اشیا خوردنوش پر پابندیاں اور اسلام آباد کی خون جمادینے والی سردی میں کمبلوں کو کیمپ میں لے جانے پر پابندی لگی۔ کیمپ میں انسانیت کا درد رکھنے والے لوگوں کو شمولیت سے روکھنے کی کوششیں ہوئیں لیکن ہماری مزاحمت جاری رہی اور اِن ہتھکنڈوں کو برداشت کرتے، کئی دن زندانوں میں گزارتے، پولیس کی دھمکیوں کو سہتے ہوئے ہم نے تحریک کو کامیاب شکل میں جاری رکھا۔
بلوچستان میں جبر کا نظام دو دہائیوں سے جاری ہے لیکن میڈیا کی خاموشی اور عالمی اداروں کے عدم رسائی کی وجہ سے ہم پر ہوئے ظلم کے داستان دب جاتے ہیں لیکن اِن دو مہینوں میں ہم دنیا کو بلوچ قوم پر ہوئے مظالم سے آگاہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
جبری گمشدگیوں کے ازیت سے نبردآزما لواحقین کی تمام تر سختیوں کو برداشت کرنے کے باجود بے بسی ختم نہیں ہوئی ہے۔ جس کرب کو ختم کرنے کے لیے ہم نے اسلام آباد کا رخ کیا تھا وہ کرب آج بھی قائم ہے۔ انتظار کی طویل و تکلیف دہ درد ختم نہیں ہوسکا ہے۔
بلوچ ماؤں کے ناقابل فراموش جدوجہد نے اس امید کو زندہ رکھا ہوا ہے کہ اجتماعی مزاحمت کے ذریعے ہم اپنے پیاروں کو ریاست کے عقوبت خانوں سے بازیاب کرانے میں کامیاب ہوں گے اور اپنے پیاروں کی زندہ واپسی تک ہماری مزاحمت جاری رہے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔