بلوچستان کے علاقے بولان میں آج دوسرے روز بھی بڑے پیمانے پر پاکستان فوجی کی بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن جاری ہے، گن شپ و دیگر ہیلی کاپٹروں کی آمد و رفت جاری جبکہ مختلف مقامات پر فوج نے کیمپ قائم کردیئے گئے۔
ٹی بی پی نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق آج دوسرے روز بولان، سبی اور ہرنائی کے مختلف علاقوں بزگر، لکڑ، سانگان، لاکی، جمبرو، چکی وڈھ، میاں کور اور گردنواح کے علاقوں میں فوجی آپریشن جاری ہے۔
اطلاعات کے مطابق ہرنائی کے علاقے جمبرو اور چکی وڈھ میں فوج خیمہ زن ہوچکی ہے جبکہ دوران پیش قدمی مسلسل مارٹر گولے فائر کیئے جارہے ہیں۔
سبی سے ایک علاقہ مکین نے ٹی بی پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج صبح سبی سے بولان کی طرف کم از کم آٹھ گن شپ و دیگر ہیلی کاپٹروں کو جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
جبکہ بزگر اور سانگان، لاکی کی اطراف شدید نوعیت کے دھماکوں اور شیلنگ کی آوازیں سنی گئی ہے تاہم علاقہ محصور ہونے کے باعث مزید تفصیلات تک رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
علاقوں سے واقف ذرائع نے بتایا کہ لاکی، میاں کور زیادہ آبادیوں پر مشتمل علاقے ہیں جہاں لوگ گلہ بانی کرکے اپنا گذر بسر کرتے ہیں، انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ آبادیوں پر مشتمل علاقے آپریشن کی زد میں ہونے کے باعث عام لوگوں کے جانی نقصانات کا خدشہ ہیں۔
اسی طرح دوران آپریشن پہلے سے جبری لاپتہ افراد کو قتل کیئے جانے کے خدشے کا اظہار کیا جاچکا ہے۔
دو روز سے جاری فوجی آپریشن کے حوالے سے پاکستانی حکام نے تاحال اس حوالے سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی ہے۔
خیال رہے گذشتہ دنوں بولان و گردنواح میں بڑے پیمانے پر پاکستان فوج کی نقل و حرکت دیکھنے آئی تھی جس کے بعد گذشتہ روز فوجی آپریشن کا آغاز ہوا۔
اس آپریشن کا آغاز ایسے وقت ہوا جب 29 جنوری کی رات بلوچ لبریشن آرمی نے ایک شدید نوعیت کے حملے میں پاکستان فوج کے ہیڈکوارٹر اور فوجی چیک پوسٹوں و سرکاری تنصیبات پر بیک وقت حملہ کرک مچھ شہر پر قبضہ کرلیا، یہ قبضہ دو روز تک جاری رہا۔
مذکورہ حملے میں بلوچ لبریشن آرمی کے خودکش بمباروں پر مشتمل مجید برگیڈ سمیت بی ایل اے اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ اور بی ایل اے فتح اسکواڈ نے حصہ لیا۔
تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ حملے میں 78 دشمن اہلکار ہلاک کیئے گئے جبکہ اس حملے میں بی ایل اے مجید برگیڈ کے 12 فدائین اور ایک فتح اسکواڈ رکن جانبحق ہوئے۔