بلوچستان کے علاقے بولان میں آج چوتھے روز بھی فوجی آپریشن جاری ہے، مزید خواتین و بچے فورسز کی حراست میں، بھیڑ بکریاں فوج نے قبضے میں لے لیئے۔
پاکستان فوج کی جانب سے بولان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن آج چوتھے روز بھی جاری ہے۔ بولان سے متصل سبی، ہرنائی، مچھ میں پاکستان فوج کی بڑی تعداد موجود ہیں جبکہ گن شب و دیگر ہیلی کاپٹروں کی آمد و رفت جاری ہے۔
آج موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پاکستانی فورسز نے بولان سے متصل سبی کے علاقے شابان میں علیان نامی شخص کے گھر کو محاصرے لیکر خواتین و بچوں کو اپنے قید میں رکھا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان فوج نے علیان کے پچیس کے قریب بھیڑ بکریوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔
گذشتہ روز ڈھاڈر کے نواحی علاقے میں پاکستان فوج نے گلہ بان مالئے و رشتہ داروں کے گھروں کو محاصرے میں لیکر خواتین و بچوں کو حراست میں لیا جو تاحال بازیاب نہیں ہوسکے ہیں جبکہ ان کے گھروں کو بھی نذرآتش کردیا گیا ہے۔
علاقہ فوجی محاصرے میں ہونے اور مواصلاتی نظام کی عدم موجودگی کے باعث مکمل معلومات تک رسائی میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
بولان آپریشن کے حوالے سے تاحال پاکستان حکام کی جانب سے کوئی موقف پیش نہیں کیا گیا ہے جبکہ بلوچ سماجی و سیاسی حلقوں کی جانب سے دوران آپریشن عام لوگوں کو نشانہ بنانے اور جعلی مقابلے میں جبری لاپتہ افراد کو قتل کرنے کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
اس آپریشن کا آغاز ایسے وقت ہوا جب 29 جنوری کی رات بلوچ لبریشن آرمی نے ایک شدید نوعیت کے حملے میں پاکستان فوج کے ہیڈکوارٹر اور فوجی چیک پوسٹوں و سرکاری تنصیبات پر بیک وقت حملہ کرک مچھ شہر پر قبضہ کرلیا، یہ قبضہ دو روز تک جاری رہا۔
مذکورہ حملے میں بلوچ لبریشن آرمی کے خودکش بمباروں پر مشتمل مجید برگیڈ سمیت بی ایل اے اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ اور بی ایل اے فتح اسکواڈ نے حصہ لیا۔
تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ حملے میں 78 دشمن اہلکار ہلاک کیئے گئے جبکہ اس حملے میں بی ایل اے مجید برگیڈ کے 12 فدائین اور ایک فتح اسکواڈ رکن جانبحق ہوئے۔