بلوچستان میں ریاستی انتخابات کا ڈھونگ – ریاض بلوچ

270

بلوچستان میں ریاستی انتخابات کا ڈھونگ

تحریر: ریاض بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

27 مارچ 1948 کو پاکستانی قبضہ گیریت کے سیاہ دن سے لیکر آج تک مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی الیکشن یا مردم شماری کا کوئی قانونی اور آئینی جواز نہیں بنتا ہے. پاکستان بلوچستان میں بندوق کی نوک پر قابض ہے، بلوچستان ایک مقبوضہ خطہ ہے اور مقبوضہ علاقے میں کوئی بھی عمل وہاں کے باشندوں کی رضا کے بغیر عالمی قوانین کے مطابق غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی ریاست نام نہاد انتخابات کے ذریعے ایک تو دنیا کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں عوام کی بالادستی ہے جبکہ بلوچستان کے حوالے سے ایک اور بات اس کیلئے زیادہ اہم ہے کہ دنیا کو بتا سکیں کہ بلوچ قوم اس ریاست کو تسلیم کرتے ہیں جو ریاست کے قانون ساز اسمبلی کیلئے منعقدہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

بلوچ من حیث القوم بلوچستان کی مالک ہیں، جسکی ایک تاریخی حیثیت اور حقیقت ہے جو ایک ارتقائی عمل سے ہوکر یہاں پہنچا ہے اور ہزاروں سال پرانی تاریخ رکھتی ہے۔ نومولود ریاست پاکستان جو دو قومی نظریے کی ایک بے بنیاد اساس کی بنیاد پر وجود میں لایا گیا اور عالمی سامراجی سازش کے تحت آج بلوچستان پر قابض ہے۔ تب سے پاکستانی قومیت کا ناجائز دعویٰ کرتا آرہا ہے تاکہ بلوچ اور دوسرے مقبوضہ قوموں کا تاریخی قومی شناخت مٹایا جاسکے۔

بلوچ قومی تشکیل، تہذیب و تمدن، رسم و رواج، بلوچ کی قومی اور علاقائی زبانیں ہزاروں سال کے ارتقائی عمل کے نتائج ہیں۔ ایک غیر فطری ریاست کو اسلام اور مذہب کے نام پر بلوچ قوم اپنی ہزاروں سال پرانی رسم و رواج، زبانیں اور اپنی زمین چھیننے کی ہرگز اجازت نہیں دے گی۔

ریاستی منعقدہ غیر آئینی نام نہاد انتخابات میں ریاست کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے تمام نام نہاد قوم پرست، مذہبی جماعتیں اور تمام علاقائی نام نہاد سردار، نواب، میر اور معتبر برابر کے شریک جرم ہیں۔ بلوچستان کے قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں میں جن بلوچ باریش سردار یا میر معتبر کو چند سال پہلے بلوچ حلقوں میں جو عزت اور مقام حاصل تھا، آج پاکستان سے وفاداری اور مراعات کے حصول کیلئے بلوچ کے نسل کشی اور بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں ریاست کے ساتھ برابر شریک جرم ہونے پر انہیں آج وہ عزت اور مقام حاصل نہیں رہا۔

پاکستان اپنے انہی کرائے کے حواریوں کے ساتھ مل کر انتخابات کو کامیاب کرانے کیلئے مختلف طریقوں سے بلوچستان میں مظالم ڈھا رہی ہیں۔ بلوچستان کے دور دراز منتشر آبادیوں کو بندوق کی نوک پر فوجی کیمپوں کے قریب زبردستی منتقل کر رہے ہیں تاکہ انہی محصورین سے زبردستی ووٹ ڈلوایا جا سکے۔ الیکشن سے کچھ مہینے پہلے انہی حواریوں کی خواہشات پر لوگوں کے بچوں کو فوجیوں سے اغواء کروایا تھا کہ ان بچوں کے والدین ان کے پاس آئیں اور بچوں کو چھڑوانے کیلئے ووٹ دینے کی ضمانت دے سکیں۔

پاکستانی مقتدرہ قوتیں ویسے تو پورے پاکستان میں کسی بھی عمل میں خفیہ طور پر ملوث ہوتے ہیں، لیکن بات جب بلوچستان کی آتی ہے تو وہاں براہ راست اپنا کردار دکھانے سے بھی نہیں کتراتے، بلوچستان میں ہر منعقدہ الیکشن میں فوج اور ایجنسیاں براہ راست اپنے خاص لوگوں کو سلیکٹ کرتے آرہے ہیں، جس پارٹی کو مرکز میں لانے کا پروگرام ہوتا ہے تو راتوں رات فوج بلوچستان میں ان دو چار خاندانی وفادار اپنے کاسہ لیسوں کو انہی پارٹی میں شمولیت کرا لیتے ہیں یا بہ وقت ضرورت باپ جیسے ٹولہ بنانے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔

پچھلے چند سالوں میں بلوچ آزادی کی تحریک کی کامیابی اور ریاستی مسلسل ناکامی سے ریاست خوفزدہ ہوگئی ہے۔ ریاست کی حتیٰ الوسع کوشش یہی ہے کہ ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا کرسکے، جو چند سال پہلے کا تھا جب لوگ گھر گھر انتخابی مہم چلاتے تھے، نوجوان پارلیمانی پارٹیوں کے جھنڈے لگاتے تھے، جوق در جوق شمولیتوں کا ڈرامہ رچتا تھا، “مخالفین کی نیندیں حرام کریں گے” یا ” یہ الیکشن مخالفین کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا “وغیرہ وغیرہ کے نعرے لگتے تھے، یہ پاکستانی طرز کا سیاسی ماحول اب بلوچ قوم مکمل رد کرچکا ہے اور جسے ایک دفعہ پھر پاکستانی ریاست اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر بلوچ سماج میں رائج کرنا چاہتا ہے، اس دفعہ بلوچ مزاحمت نے دونوں محازوں پہ سرخرو ہو کر بلوچ عوام کے دل جیت لیے ہیں، قوم کی امیدیں اور نیک تمنائیں اپنے وطن زادوں اور وطن زادیوں پہ ہیں۔

ایک انتخابی کلچر کو فروغ دینے کے لیے ریاست اپنے ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو سامنے لا رہا ہے، تا کہ تمام لوگوں کو انتخاب کیلئے متحرک کرنے کی کوشش کرے۔ ہر حلقے سے نام و گمنام لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح پکڑ کر کاغذاتِ نامزدگی جمع کروایا گیا ، تاکہ الیکشن کیلئے ماحول بنا رہنا چاہیے۔

آج بلوچ قوم کے ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے قومی آزادی کیلئے قربانی دی ہے جن کا لہو صرف ایک آزاد بلوچ قومی ریاست کی تشکیل کی جدوجہد میں بہا ہے۔ پاکستان اور اسکے حواری یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ بلوچ قوم نے نا کل پاکستانی قبضہ اور اسکے غیر قانونی اور آئینی مردم شماری اور انتخابات کو قبول کیا تھا اور نا آج قبول کریں گے۔ آج بلوچستان میں کوئی ایسا گھر یا جھونپڑی نہیں جہاں پاکستانی فورسز کے ظلم و بربریت کے نشان نا مل سکیں۔

پاکستان کے زر خرید حواریوں کو ان ظلم زدہ بلوچوں کے پاس ووٹ مانگتے ہوئے شرم تو آنی چاہیئے، جب رات کے اندھیرے میں قبضہ گیر فورسز انکے گھروں میں چور اور ڈاکوؤں کی طرح گھس کر انہیں یر غمال بنا کر گھروں میں لوٹ مار کرتے ہیں، بلوچ ماؤں بہنوں کی بے حرمتی کرتے اور بچوں بوڑھوں کو اٹھا کر لیجاتے ہیں۔ تب کہاں تھے وہ نام نہاد قوم پرست جو آج ووٹ کی بھیک مانگنے کی خاطر بلوچ ننگ و ناموس اور ساحل وسائل کا نعرہ لگاتے ہیں؟

پچھلے پینتیس سالوں کی پاکستانی نیم جمہوری نظام کا حصہ بننے والے یہ نام نہاد قوم پرست بلوچ قومی غلامی کو مزید مستحکم کرنے کیلئے ہر بار ریاست کے ہاتھوں بلوچ قوم کے خلاف استعمال ہوتے آرہے ہیں۔ بلوچ سرزمین پر ایٹمی دھماکے سردار اختر مینگل کی دور حکمرانی کی سیاہ سوگات ہیں جبکہ ڈاکٹر مالک کی گزشتہ دور حکومت میں توتک سے ایک دو پچھتر بلوچ لاپتہ افراد کی اجتماعی قبریں برآمد ہوئیں اور سینکڑوں بلوچوں کو شہید اور اغواء کیا گیا۔

اگر بلوچستان کے زمینی حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو اس وقت پاکستانی ریاست کیلئے بلوچستان میں انتخابات کا انعقاد ہی انتہائی مشکل لگ رہا ہے، نا کہیں الیکشن کمپیئن ہورہے ہیں نا عوام کا جوش و خروش نظر آرہا ہے، بلوچ عوام ریاست کے تمام اداروں سے مایوس ہیں، کیوں کہ ریاست کے تمام ستون بلوچ نسل کشی میں بالواسطہ یا بلا واسطہ ملوث ہیں، پارلیمان، عدلیہ، بیوروکریسی، میڈیا سمیت ہر ادارہ فوج اور ایجنسیوں کے تابع ہیں، بلوچستان کے حوالے سے ایک جھوٹے بیانیے کو لیکر سب فوج کے پیرول پہ چل رہے ہیں۔

اس دفعہ الیکشن سے پہلے ریاستی جبر اور نا انصافیوں کے خلاف بلوچستان سمیت دوسرے بلوچ حلقوں میں شدید عوامی نفرت بھی دیکھنے کو ملا جہاں بی وائی سی کی کال پر ہر شہر اور کوچے سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ نکلے ریاستی جبر، غلامی اور بلوچ نسل کش پالیسیوں کو مسترد کردیا، جبکہ دوسری طرف بلوچ مسلح تنظیموں کی طرف سے بھی اس دفعہ ریاستی سٹرکچرز اور انتخابی مہم پہ متعدد حملے ہوئے، بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نے محض ایک آٹھ روز کے دوران 93 حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی جس میں مختلف نوعیت کے حملے شامل ہیں، بلوچ قومی مزاحمت نے ریاستی مشینری کیلئے بلوچستان میں الیکشن کا انعقاد ناممکن بنا دیا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔