بلوچستان: دھاندلی پر احتجاج کناں جماعتیں عوامی حمایت سے محروم ہیں
تحریر: اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
8 فروری کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کئی حوالوں سے غیر معتبر قرار دیے جارہے ہیں وفاقی جماعتوں میں جے یو آئی ف اور پاکستان تحریک انصاف نتائج کو چیلنج کرچکے ہیں جب کہ جماعت اسلامی اور دیگر کئی جماعتوں کو نتائج میں دھاندلی کے کھلی تحفظات اور شکایتیں ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی بھی توقعات کے برخلاف نتائج سے حیران تو ہیں مگر وہ حکومت سازی کے بہانے میں اس پر صرف نظر کیے ہوئے ہیں۔
بلوچستان کو ہمیشہ غیر سیاسی مقتدرہ نے ایک تجربہ گاہ کے طور لیا انتخابی عمل میں ہر بار نئے چہرے اور نئی پارٹیوں کا تجربہ ایک روایت ہے، 2018 کے الیکشن سے ایک ماہ پہلے بلوچستان میں باپ پارٹی بناکر عجلت میں حکومت اس کے حوالے کردیا گیا، 2013 کی حکمران جماعت نیشنل پارٹی کو اسمبلی سے واش آؤٹ کردیا گیا جب کہ اس بار بھی انہیں توقعات کے مطابق اس کا حق نہیں دیا گیا۔ الیکشن سے پہلے نیشنل پارٹی کم از کم 8 سے 10 سیٹوں پر مستحکم پوزیشن بلکہ جیت کا دعویٰ دار تھا، 8 فروری کے بعد اس کے حصے میں پہلے چار پھر تین اب صرف دو پکی سیٹیں آئی ہیں۔
انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے نتیجے میں بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہے، بلوچ اور پختون قوم پرست جماعتوں کو اگر مکمل نہیں تو اسمبلی سے باہر کرنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے اور یہ کوشش ان کے پاس موجود گنتی کے چند نشستوں کی دوبارہ شماری وغیرہ کے نام پر پھر سے چھین لینے کی تیاریاں زوروں پر ہیں جس میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی سیٹوں کے علاوہ خوشحال خان کاکڑ کی جیتی گئی سیٹ شامل ہیں، بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کو ایک ایسے نوزائیدہ بچے کے ہاتھوں شکست سے دوچار کیا گیا جس کی پاکستانی شناخت الیکشن سے عین پہلے بلکہ ان کی نگران وزارت کے بعد دیے جانے کا الزام ہے اسی طرح نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک کو قومی اسمبلی کی سیٹ پر ایسے شخص سے ہرایا گیا جو نیشنل پارٹی کے بقول وہ 40 ہزار ووٹ تو لے چکے مگر انہیں اسی حلقے میں 40 ووٹرز یا چار پولنگ اسٹیشنز کا نام نہیں معلوم۔
انتخابی دھاندلی کے خلاف بلوچستان میں 9 فروری سے سیاسی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں، اس سلسلے میں کوئٹہ میں چار جماعتی اتحاد قائم کی گئی ہے اور اس کے پلیٹ فارم پر ایک تحریک کا آغاز کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے ڈاکٹر مالک جو نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، نے 9 فروری کی شام اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس میں انتخابی نتائج مسترد کرنے کا اعلان کرکے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا اس کے اگلے دن 10 فروری کو ڈاکٹر مالک کی سربراہی میں نیشنل پارٹی نے تربت میں ریلی نکالی اور ڈی آر او کی آفس کے سامنے دھرنا دیا اس دھرنا میں نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور پی بی 25 کیچ 1 کے امیدوار جان بلیدی نے سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے ایک ادارے پر اثر انداز ہونے کا نام لے کر براہ راست الزامات لگائے۔
نیشنل پارٹی کی طرف سے تربت میں شٹرڈاؤن ہڑتال کے علاوہ دھرنا دیا گیا اور ریلیاں نکالی گئیں ایم ایٹ شاہراہ اب تک دو بار بلاک کرکے ٹریفک معطل کی گئی جب کہ پارٹی کی خواتین کارکنان نے ڈی آر او آفس کے سامنے ایک مستقل احتجاجی کیمپ لگانے کا اعلان کیا ہے جس میں خواتین اور مرد دونوں شریک ہیں۔
نیشنل پارٹی نے عام انتخابات میں پی بی 25 کیچ 1 پی بی 27 کیچ 3 اور پی بی 28 کیچ 4 کے انتخابی حلقوں اور این اے 259 کیچ کم گوادر کی نشستوں پر بڑے پیمانے پر ٹھپہ ماری اور انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مخالف جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پر انتخابی نتائج پر اثر انداز اور نیشنل پارٹی کے امیدواروں کے نتائج تبدیل کرکے انہیں زبردستی ہرانے کا الزام لگایا ہے۔
نیشنل پارٹی کی طرف سے 10 اور 11 فروری کو تربت میں ریلیاں نکالی گئیں اور ڈی آر او کی آفس کے سامنے دھرنا دیا گیا جس میں خواتین کارکنوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ 12 فروری کو نیشنل پارٹی کی طرف سے تربت شھر میں شٹرڈاؤن ہڑتال کے علاوہ شھید فدا چوک پر دھرنا دیا گیا جہاں ڈاکٹر مالک اور پی بی 25 کیچ 1 سے نیشنل پارٹی کے امیدوار مرکزی سیکرٹری جنرل جان بلیدی نے خطاب کرکے نتائج کو مسترد کیا اور دھاندلی کے خلاف احتجاج کا دائرہ وسیع پیمانے پر پھیلانے کا اعلان کیا۔
13 اور 14 فروری کو نیشنل پارٹی کے کارکنوں نے ایم ایٹ شاہراہ کو تین مختلف مقامات پر رکاوٹیں ڈال کر بلاک کردیا جس کے باعث تربت سے کراچی اور کوئٹہ جانے والے مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انجمن تاجران کے مطابق ایم ایٹ شاہراہ پر دھرنا دینے کے سبب کراچی اور کوئٹہ سے آنے والے سبزیوں اور گوشت کے ٹرک پھنس گئے جس سے انہیں لاکھوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
نیشنل پارٹی کی طرف سے تربت کے علاوہ گوادر پسنی اورماڑہ اور پنجگور میں بھی شٹرڈاؤن ہڑتال کے ساتھ ساتھ اہم شاہراہوں کو بند کیا گیا اور احتجاجی جلوس نکالے گئے۔
نیشنل پارٹی کی قیادت ہمیشہ پرامن جمہوریت پسند ہونے کا دعویٰ دار رہی ہے اور بلوچستان میں پر تشدد واقعات کے خلاف ان کے بقول سب سے موثر آواز ہے مگر اب ان کی قیادت اور کارکنوں کے سیاسی مزاج میں یکسر بدلاؤ آیا ہے پارٹی کے کارکنوں حتیٰ کہ سیکرٹری جنرل نے پہلی بار ریلیوں کے دوران سخت لہجے کے ساتھ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کیا ہے اور براہ راست ان پر بلوچستاں میں دھاندلی اور نتائج پر اثر انداز ہونے کے الزامات عائد کئے ہیں۔
بلوچستان میں دو دہائیوں سے منحرف پارلیمانی سیاست کے بیانیہ کو ایک نئی طاقت ملی ہے، عدم تشدد کے حامی قوم پرست سیاسی جماعتوں کے بقول انہیں زبردستی انتخابی عمل سے آؤٹ کرنے کے پیچھے بلوچستان کے سیاسی حالات کو غیر محفوظ کرکے جنگی ماحول میں مخصوص مفادات کو پروان چڑھانا مقصود ہے وہ اشارہ دیتے ہیں کہ اس سے بلوچستان مزید خون خرابے اور تشدد کی جانب جائے گی اور جو نوجوان ان دو دہائیوں میں انتخابی عمل میں ان کے ساتھ شامل رہے ہیں مایوس ہوکر غیر پارلیمانی بیانیہ کو سپورٹ کریں گے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق نیشنل پارٹی اور بی این پی دونوں جماعتیں اسٹیبلشمنٹ سے قربت کے باعث عمومی مسائل یا لاپتہ افراد جیسے انسانی حقوق کے اہم ترین مسئلہ پر خاموشی یا ڈپلومیٹک پالیسی کے سبب عام بلوچ نوجوان کا اعتماد کھوچکی ہیں اب جب کہ ان کے سیاسی مفادات کو انتخابات میں زک پہنچائی گئی ہے وہ احتجاج کررہی ہیں اس لیے ان کے احتجاج کو زیادہ سنجیدگی سے لینا ان کو ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے قریب کرنا ہوگا جہاں وہ طاقت لے کر بلوچستان کے اہم مسائل خاص طور پر مسنگ پرسنز ایشو پر سودا بازی کریں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔