بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ
تحریر: مہر جان
دی بلوچستان پوسٹ
جہاں سچائی ، سادگی اور حقیقت نہیں ، وہاں عظمت نہیں ۔ ٹالسٹائ
فلسفے کے میدان میں عموماََ ان کو فلسفی مانا جاتا ہے جنہوں نے اپنا فلسفیانہ نظام پیش کیا ہو،اگر فلسفی ہونے کو اسی سخت معیار پہ پرکھا جائے تو سب سے پہلے سقراط کو فلسفیوں کے صف سے نکالنا پڑے گا، جو اپنے ذہن کی فکری ڈوروں کو سماج کے تقلیدی افعال سے الجھا کر ایک ایسے نتیجے پر پہنچنے کی سعی کرتے تھے جو اپنے وجود کا عقلی جواز رکھتے ہوں، سقراط کو اس کے عمل سے ایک فلسفی مانا جاتا ہے، وہ غور و فکر، سوالات ، مکالمہ اور سچائی کی کھوج لگانے پہ کمربستہ تھے اور اسی طرزِ عمل سے وہ سیاسی ، اخلاقی اور فلسفیانہ راہ راست کو تلاش کرنے پر یقین رکھتے تھے، ان کا یہ عمل کہ وہ یونان کی گلیوں میں نوجوانوں کو سوچنے ، سمجھنے اور تفکر کرنے کی ترغیب دے کر وقت کے دیوتاؤں پہ سوالات اٹھاتا تھا جس کی پاداش میں انہیں زہر کا پیالہ پلایا گیا، بقول ایلن بدایو کہ ان کا یہ عمل انہیں فلسفیوں کی صف میں شامل کرتا ہے, اس کے مقابل گلیلیو کا عمل عقیدے کی آمریت کے بجائے تفکر و تجربے کی بنیاد پر سوالات اٹھا کر زندہ رہنے کا فیصلہ اسے بھی فلسفیوں کے صف سے نہیں نکالتا، دونوں شخصیات وقت کی لہر میں مقبولِ عام اور تسلیم شدہ خیالات کی مخالف سمت چل کر ایک نے سوالات ، بحث مباحثہ کرکے موت کو قبول کیا تو دوسرے نے زندہ رہ کر اپنے عمل کو دوام بخشا، بابا مری نے سقراط کی طرح ریاست کے خدایانِ اقتدار سے الجھ کر بلوچ قومی شعور کو بیدار کرنے کی سعی کرکے گلیلیو کی طرح جی کر بلوچ مزاحمت کی راہ ہموار کی۔ بابا مری سیاسی طالح آزماؤں کی طرح سیاسی مہم جوئی کا کبھی بھی قائل نہیں رہا بلکہ سقراط کی طرح غور و فکر، سوچ و بچار، اوراصولی موقف کی صورت میں مختلف سوالات اٹھاتے رہے، جس سے نہ صرف وہ مرض کی تشخیص کی بلکہ معالج کی صورت میدان عمل میں بھی اترے ، وہ اس بات پہ زور دیتے رہے کہ” ہمیں سوچنا چاہیے ، غور و فکر کرنا چاہیے ، مل بیٹھ کر تجزیہ کرنا چاہیے،اچھی طرح چھان بین کرنی چاہیے” کہ “بلوچ نیشنل ازم کی روح کیا ہے؟ اس سے بڑھ کر ہمارے قومی اہداف کیا ہیں؟ ہمارے قومی مسائل کیا ہیں؟قومی جہد کی راہ کیسے متعین کرنی چاہیے؟ ہمارا راستہ تلخ اور کھٹن ہے کیا ہم اس بار کو اٹھا سکتے ہیں؟ مقابلہ کرسکتے ہیں؟ ہمارے اندر نیشنل ازم کی پختگی کتنی ہے؟ کس قسم کا خیال ہو ؟ کیسی تیاری ہو؟ کیا اتنی تربیت و تیاری ہوچکی ہے؟ قوم پرست پارٹی قوم سے منسوب ہونی چاہیے یا پھر وطن سے یا کسی انتظامی یونٹ سے؟ ہمارے قومی مسائل کیا ہیں؟ بلوچ کا جس دشمن سے واسطہ ہے اس کا تاریخی پس منظر، کردار کیا ہے؟ پاکستان کی سرزمین کب بنی ؟ کئونکر بنی؟ کیا زبردستی بنی ؟ یا رضا سے بنی؟ وہ سقراط کی طرح یہ سوال بھی عالمی اقوام کے سامنے رکھتا ہے کہ “کیا ایسا قانون دنیا میں بنا ہے جو سب کے لیے برابر ہو؟ وہ کمزور اور طاقتور کے مابین بنائے ہوئے قوانین پہ سوالات اٹھاتا ہے اسی پس منظر میں وہ طاقتور کے بناۓ ہوۓ قوانین کی پیچھے بھاگنے کو رسم و دکھاوے سے تعبیر کرتے ہیں ، وہ سامراجی عزائم کی دفاع کے لیے طے کردہ دہشت گردی کی “تعریف” پہ سوال اٹھاتا ہے کہ دہشت گردی کیا ہے؟ جب کالونیل ازم یا نیو کالونیل ازم کی بات ہو تو وہ یہ سوال رکھتا ہے کہ انگریزوں سے ہندوستان کو فائدہ زیادہ پہنچا یا پھر نقصان؟ رومن امپاہر ، انگریزی قبضہ گیر اور دیگر سرمایہ دار ممالک نے کیا ماضی میں ترقی کا راگ الاپ کر اقوام کو نہیں لوٹا ؟ کیا تاریخ کوئ ایسی مثال پیش کرسکتی ہے کہ قابض اقوام نے اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر یا ترس کھا کر مفتوحہ قوم کی بھلائ کے لئےاور ان کی ترقی کے لیے اپنی توانائیاں صرف کی ہوں؟ نسانی حقوق کے علمبرداروں سے یہ سوال کافی معنی خیز ہےکہ “ہم انہیں انسانی حقوق کا علمبردار کیوں کہیں جو نوآبادیاتی پاکستان کو قائم رکھنا چاہتے ہیں؟” بابا مری بلوچ قوم کے لیے یقینا ایک دماغ کی مانند تھے، جو نہ صرف سیاست کے میدان میں ایک سیاسی فلاسفر کی طرح سوالات اٹھاتا رہا بلکہ ان سوالوں کے ذریعے بلوچ قوم کو ساکن خیالات و خوابیدہ حالات سے بیدار کرکے مزاحمت کی راہیں بھی ہموار کرتا رہا۔
بابا مری کے لیے سب سے پہلے “سردار فلسفی” کا اصطلاح “افغانستان واپسی کے بعد پہلا انٹرویو” ہفتہ وار جریدہ “زندگی” میں استعمال ہوا ہے،جس انٹرویو میں بابا مری گلوبل کیپٹل ازم پہ ایک فلاسفر کی طرح پون گھنٹہ گفتگو کرتے ہیں کہ ” سوسائٹی کے ایک طبقے میں روپے کا سیلاب آگیا ہے جس نے بنیادی قدروں کو اپنی زد میں لے لیا ہے ” دراصل بابا مری کیپٹل ازم کے بارے میں وہی باتیں بااندازِ دیگر یعنی اپنی زمین سے متعلق دہرا رہے تھے جو مارکس نے لکھی تھی کہ کیسے غیر مرئی قوتیں کیپٹل ازم میں کارگر ہوکر بیگانگی کی صورت پیدا کرتی ہے، بابا مری اس حوالے سے ایک فرانسیسی لکھاری کا قول بھی دہراتا ہے کہ ” جہاں سرمایہ حاوی ہوتا ہے وہاں فوج سب سے بڑی محافظ ہوتا ہے” اسی طرح ان کے مطابق ” پاکستان گلوبل کیپٹل ازم کی اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے اور اس کے علاقے اس کڑی کے مزید چھوٹے حصے ہیں اور گلوبل کیپٹل ازم کی مشین حرکت کررہی ہے ۔اس بڑے پرزے(ملک)کی کوئی مرضی نہیں تو آگے چھوٹے حصوں کی مرضی کیا ہوگی”. بابا مری اس حوالے سے نجی مجالس میں یہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہلوچ دلیر قوم ہے ہو سکتا ہے وہ جسمانی لڑائی میں فتح یاب ہو ، میڈیا کی جنگ میں بھی کسی حد تک کامیابی مل سکے، لیکن سب سے خطرناک جنگ پیسوں کی جنگ ہوگی، زر کامل عیاری سے عہدِ حاضر کا دین بن چکا ہے جو اقدار و اشیاء کی تعین میں مرکزیت کا حامل گردانا جاتا ہے جو قومی اقدار ، اسپرٹ اور تاریخ وغیرہ کو کسی خاطر میں نہیں لاتا اسی لیے بابا مری کہتے تھے کہ جب پیسوں کی ریل پیل ہوگی مجھے خدشہ ہے کہ کہیں وہاں بلوچ شکست نہ کھا جاۓ، آج پیسوں کی ریل پیل میں ہم نے ریاستی بیانیہ کو دل و جان سے لگا کر صرف “سردار’ کو مطعون ٹہرا کے باقی بلوچ قوم دشمن قوتوں بشمول ریاستی گماشتوں کو بری طرح سے نظر انداز کررہے ہیں کہ پیسوں کی ریل پیل سے کیسے کوئی بلوچ ، بلوچ اقدار سےخائف ہو کر خود کو پاکستانی اقدار کا گرویدہ اور وراثت کا حق دار سمجھتا ہے اور بلوچ دشمنی پہ اتر آتا ہے ، بابا مری کے مطابق “یہ ایسا فنامینا ہے جو سیاسی طور پہ اثر انداز ہوا ہےمعاشرتی اور سیاسی سطح پر اس چیز نے صورتحال تبدیل کردی ہے پیسہ ضرورت ہے لیکن اب وہ حاوی ہوگیا ہے” جنگی محاذ پر بھی وہ پیسوں کی ریل پیل سے ایک عسکری مدبر کی طرح متفکر تھے ، وہ پیسوں کے حوالے اس قدر محتاط تھے ، ایک دفعہ ایک مری مہمان کو جب کراچی ڈیفنس سے ملیر بذریعہ ٹیکسی بجھوایا گیا تو ٹیکسی کا سن کر بابا نے کہا “ٹیکسی سک گران انت”(یعنی اس کا کرایہ بہت زیادہ ہے) وہ جنگ کے پیسوں کو جنگ پہ اہتمام سے خرچ کرنے پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے۔
(جاری ہے )
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔