ہیومن رائٹس واچ کا پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار

499

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں گزشتہ برس پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی 740 صفحات پر مشتمل ورلڈ رپورٹ 2024 میں 100 ممالک میں انسانی حقوق کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں سال 2023 کے دوران پاکستان میں آزادیٔ اظہار رائے، سول سوسائٹی پر حملوں، مذہبی آزادی، خواتین اور بچوں کے خلاف ہونے والے تشدد، دہشت گردی، جنس کی بنیاد پر تفریق، مہاجرین، معاشی اور سماجی حقوق سمیت متعدد شعبوں میں مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے۔

ہیومین رائٹس واچ کی ڈائریکٹر برائے ایشیا ایلین پیئرسن کے مطابق پاکستانی حکومت لاکھوں پاکستانیوں کو غربت سے نکالنے میں ناکام دکھائی دی ہے۔

ان کے بقول حکومت کی توجہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ فراہم کرنے کے بجائے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو روکنے پر رہی۔

رپورٹ میں گزشتہ برس پاکستان میں نو مئی کے بعد ہونے والے پر تشدد واقعات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نو مئی کو فوجی تنصیبات اور املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف حکومت کی جانب سے مظاہرین اور ان کے اہلِ خانہ کی گرفتاریاں، سیاسی وابستگیاں رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا اور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا۔

گزشتہ برس سابق پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کی اسلام آباد کی ایک عدالت سے گرفتاری کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں مظاہرے اور نجی و سرکاری املاک کو نشانہ بنانے کے واقعات پیش آئے تھے۔

پاکستان کی حکومت اور فوج ان پرتشدد مظاہروں کو ایک منظم سازش قرار دیتے ہیں جب کہ تحریکِ انصاف ان واقعات سے لاتعلقی ظاہر کرتی ہے۔

تاہم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں اور کارکنان کو نو مئی کے واقعات اور سرکاری و عسکری املاک پر حملوں کے کئی مقدمات کا سامنا ہے۔

رپورٹ میں نو مئی کے واقعات کے ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات کو ان کے فیئر ٹرائل کے حق سے محرومی کہا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ 2023 میں پاکستان میں برطانوی دور کے بغاوت یا اس پر اکسانے سے متعلق قوانین کو بالخصوص سیاسی مخالفین اور صحافیوں کے خلاف استعمال کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

اس سلسلے میں ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ برس اگست میں علی وزیر اور ایمان مزاری کے خلاف قائم ہونے والے مقدمات کا بھی حوالہ دیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تیرانہ حسان کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ پاکستان میں 2023 میں میڈیا اداروں، خصوصاً حکومت پر تنقید کرنے والے میڈیا پر دباؤ بڑھتا نظر آیا۔

ان کے مطابق ماضی کی طرح شہباز شریف کی اگست میں ختم ہونے والی حکومت نے بھی سیاسی مخالفین، این جی اوز اور میڈیا پر دباؤ کا طرزِ عمل برقرار رکھا۔

رپورٹ میں گزشتہ برس 11 مئی کو صحافی عمران ریاض خان کی عمان جاتے ہوئے ایئر پورٹ سے گرفتاری اور کئی ماہ حراست میں رکھنے کا واقعے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

اس بات کی نشان دہی کی گئی ہے کہ عمران ریاض کی رہائی سے قبل اور بعد میں بھی ان کے خلاف مقدمات کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

گزشتہ برس اگست میں وائس آف امریکہ کے ڈیوا سروس کے نمائندہ فیاض ظفر کو پولیس نے حراست میں لیا۔ ان پرقانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلانے اور عوام میں نفرت ابھارنے کا الزام عائد کیا گیا تھا تاہم انہیں بعد ازاں رہا کردیا گیا تھا۔

اگست میں وکیل اور انسانی حقوق کی رہنما کی بغاوت کے مقدمے میں اسلام آباد سے گرفتاری کو بھی آزادیٔ اظہارِ رائے پر پابندیوں کی مثالوں میں شامل کیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان توہینِ مذہب جیسے قوانین میں ترمیم نہیں کرسکی ہے جس کے سبب اس قانون کی آڑ میں اب بھی اقلیتیوں کے خلاف مذہبی تشدد کا راستہ اپنایا جارہا ہے۔

مذہبی آزادی کی صورتِ حال سے متعلق اگست 2023 میں فیصل آباد کے علاقے جڑانوالہ میں مسیحی آبادی پر ہونے والے حملے کی مثال دی گئی ہے۔

یہ پرُتشدد واقعہ دو مسیحیوں پر توہینِ مذہب کا الزام کے نتیجے میں پیش آیا تھا جس میں مشتعل ہجوم نے پتھروں، لاٹھیوں سے مسیحی برادری کے افراد، ان کے مکانات، چرچ اور قبرستان کو نقصان پہنچایا تھا۔

رپورٹ میں گزشتہ برس کراچی میں احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہ اور لاہور میں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی فیکٹری پر حملوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکی محکمۂ خارجہ نے مذہبی آزادیوں سے متعلق رپورٹ میں پاکستان کو مذہبی آزادی سے متعلق خصوصی تشویش کے حامل ممالک کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

افغان پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کی پاکستان سے بے دخلی پر تبصرہ کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ حکومت نے لاکھوں افغان شہریوں کو وطن واپسی کے لیے 28 دن کی مہلت دی۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سال 2023 کے دوران پاکستانی حکام کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ خاص طور پر ایسے افغان شہری جو کسی دستاویزی کارروائی کے بغیر پاکستان میں مقیم ہیں انہیں پولیس اور مقامی انتظامیہ کی کارروائیوں کے خدشات لاحق رہے اور انہیں روزگار اور تعلیم کے حق سے بھی محروم کیا گیا۔

سال 2023 میں پاکستان کی نگراں حکومت نے ملک مین بسنے والے افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاون کاآغاز کیا اور ایسے افغان مہاجرین کو بے دخل کیا جو غیر قانونی طور پر ملک میں پناہ لیے ہوئے تھے۔

حکومت کے اس اقدام کی وجہ سے جس کے نتیجے میں دسمبر تک پاکستان سے افغانستان واپس جانے والے افغان مہاجرین کی تعداد 3 لاکھ ستائیس ہزار پر پہنچ گئی۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق واپس جانے والے افغان مہاجرین میں دس ہزار ایسے مہاجرین بھی تھے جو اسائلم کے لئے پاکستان میں قیام پذیر تھے اور ان کی منزل یورپی ممالک تھے۔

تاہم حکومت پاکستان کا اس پر موقف رہا کہ سرحد پار ہونے والی دہشت گردی اور اسکی روک تھام کے لیے انھیں ملک سے ایسے افغان مہاجرین کو بے دخل کرنا پڑا جو غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل ہوئے تھے۔

رپورٹ میں ملک بھر میں خواتین اور بچوں کے خلاف بڑھنے والے تشدد کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک بھر میں ایک ہزار خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔

صرف پنجاب میں 10 ہزار 365 خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ پاکستان میں ریپ کے مجرمان کو سزا دینے کا تناسب محض تین فی صد رہا۔

رپورٹ میں گزشتہ برس اسلام آباد میں ایک جج کی فیملی کی جانب سے 14 سالہ بچی رضوانہ پر تشدد اور کراچی میں 11 سالہ گھریلو ملازم مقبول کی تشدد سے ہلاکت کے واقعات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ساحل‘ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ نے بتایا کہ پاکستان میں 2023 کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں پر جنسی تشدد کے اوسطاً روزانہ 12 واقعات رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ملک میں پرائمری سطح پر 60 لاکھ جب کہ سیکنڈری سطح پر ایک کروڑ 30 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں لڑکیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

جس کی اہم وجوہات اسکولوں کی کمی، پڑھائی کے اخراجات، کم عمری میں بچیوں کی شادی، کم عمری میں مزدوری بتائی جاتی ہے۔

اسی طرح ملک میں موجود خواجہ سراوں کو درپیش مسائل اور ان کے ساتھ صنفی اور جنسی بنیادوں پر امتیاز کرنے کے حوالے بھی بات کی گئی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2023 میں خواجہ سراؤ پر سب سے زیادہ حملے خیبر پختونخواہ میں کیے گئے ہیں۔

گزشتہ برس وفاقی شریعت عدالت کی جانب سے ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کے خلاف فیصلہ آیا تھا جس میں خواجہ سراؤں کا اپنی مرضی سے جنس کے تعین کو غیر اسلامی قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کو خواجہ سراؤں کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا۔