بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل نے انتخابی مہم کے حوالے سے آواران میں منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات ہو رہے ہیں مختلف سیاسی جماعتیں پارٹی پروگرام ، سابقہ کارکردگی آپ لوگوں کے سامنے رکھے رہے ہیں اسی طرح میں بھی بلوچستان نیشنل پارٹی کا وژن لے کر آیا ہوں آواران میں 2014ءمیں شہید اسلم جان گچکی کی برسی پر جب آیا تھا اس وقت آواران کے حالات کچھ اور تھے اور آج کچھ اور ہیں گزشتہ بیس سالوں کے حالات سے سب بخوبی واقف ہیں کہ کوئی ایسا گھر نہیں جہاں صف ماتم نہ بچھا ہو ان بیس سالوں میں بیواﺅں اور یتیموں کی تعداد میں اضافہ نہ ہوا ہو اس کی وجوہات جو بھی ہوں 2002ء میں جب اسلم جان گچکی کو شہید کیا گیا وہ لوگ جنہوں نے اسلم جان گچکی کو شہید کیا وہ خود بھی درپدر ہوئے اور علاقے کو عوام کو بھی درپدر کر دیا میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ہوتے تو علاقے کا یہ حال نہیں ہوتا مگر یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ آواران ، مشکے ، جھاﺅ کے عوام لاوارث نہ ہوتے موجودہ جو حالات ہیں اس کے ذمہ دار سرکار اور سابقہ نمائندے ہیں جنہوں نے لاوارث سمجھ کر کچھ کام نہ کیا کیونکہ ان کو صرف اور صرف ووٹ چاہئیں وہ ووٹ آپ لوگوں کے دیئے ہوں یا کہ جنات نے حقیقت یہ ہے کہ آپ لوگوں نے تو ووٹ نہیں دیا جنات جو دن کو نظر نہیں آتے راتوں میں نظر آتے ہیں کبھی کبھی دن کو بھی نظر آتے ہیں پر مخصوص لباس پہنے ہوئے ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو خود کو ملک کا نگہبان سمجھتے ہیں ان کے ہاتھوں نہ صرف آواران ، مشکے ، جھاﺅ بلکہ پورا بلوچستان متاثر ہے آپ لوگوں کو ہمیشہ لاوارث سمجھا گیا وارث وہ ہوتا ہے جو ووٹ کی طاقت سے آئے آپ لوگوں نے ووٹ نہیں دیا جنات اور خلائی مخلوق نے جنہیں ووٹ دیا وہ ان کے وارث ہیں عوام کے نہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ظلم و زیادتی جتنی بھی ہوں جنات کے لائے گئے وارث کو کوئی سروکار نہیں کیونکہ ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہوتی ہے اور ان کو نازل کرنے کا مقصد ظلم و زیادتیوں پر چپ کا روزہ رکھنا ہے شہید اسلم گچکی کے بعد یہاں سے جو بھی ایم این اے منتخب ہوا یا ایم پی اے منتخب ہوا اس نے کچھ نہ کیا کیونکہ ان کو کرپشن کی تو اجازت ہے مگر بولنے کی اجازت نہیں ہے ان کی صلاحیتیں ایسی ہیں کہ کرپشن کرنے پر ان پر نیب سمیت کوئی بھی ادارہ کوئی کیس نہیں بنا سکتا کیونکہ ان کو لانے والے تحقیقات کرنے پر منظر عام پر آ جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس بار بھٹو کو زندہ کرنے والے آ رہے ہیں اسی طرح کے دور میں جھاﺅ ، مشکے ، آواران کے باسیوں کو ہیلی کاپٹر سے پھینکا گیا اسی بھٹو نے آپ لوگوں کے ووٹ دینا ہے 1970ءمیں ہمارے لوگوں کو تیر سے مارا گیا ہے اب بھی ہمارے لئے تیر لیا جا رہا ہے بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو کس نے ختم کیا اس کے پیچھے یہی لوگ تھے جو ہمارے نوجوانوں کو لاپتہ اور بچوں کو یتیم کر رہے ہیں بھٹو کوبے نظیر زندہ نہ کر سکی لاڑکانہ والے زندہ نہ کر سکے لاڑکانہ کی آبادی یہاں کی آبادی سے کئی گنا زیادہ ہے اب وہ آواران آ رہے ہیں بھٹو کو زندہ کرنے ، بھٹو جب زندہ تھا ہمارا کیا حال تھا اب جب پھر بھٹو زندہ ہوا تو ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔
انہوں نے کہا کہ زرداری دور حکومت میں 2009ءمیں لاپتہ ہونے والے شہید لالا منیر ، شہید شیر محمد ، شہید غلام محمد کیا حالات کی گئی تھی وزیراعظم کس جماعت کا تھا ، صدر کس جماعت کا تھا اسی پیپلز پارٹی کا تھا تینوں کو لاپتہ کر کے اذیت کا نشانہ بنا کر ہیلی کاپٹر سے لاشیں پھینکی گئیں عمران خان حکومت ہو ، نواز حکومت ہو ، زرداری حکومت ہو آواران کے عوام کی حالات جیسی تھی وہی رہی یہی آواران کی خواتین کو جب گرفتار کیا گیا تو وفاق میں کس کی حکومت تھی قومی اسمبلی میں بلوچستان کے اراکین اسمبلی کی تعداد 19ہے صوبائی اسمبلی میں اراکین کی تعداد65ہے یہ انہی علاقوں سے منتخب ہوئے ہیں آپ لوگوں نے کسی کو ووٹ دیا یا نہیں وہ اسی آواران کی قومی اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کرتے رہے خواتین کی گرفتاری پر ان میں سے کس نے آواز بلند کی کسی نے اف تک نہ کی جب ہم نے خواتین کی گرفتاری پر قومی اسمبلی میں آواز بلند کی تو صرف اسلم بھوتانی ہمارے ہم پلہ کھڑا ہوا میرے پارٹیوں سمیت اور بھوتانی کے علاقوں کسی نے ہمارے احتجاج میں ساتھ تک نہ دیا بلوچستان کے تمام ایم این ایز نواب ، سردار جو بھی اس وقت ایوان میں تھے بڑی بڑی ہستیوں کے پھوتے ہیں آنکھیں نیچی کر کے اسمبلی کے ایوان سے باہر چلے گئے میری طرف نہ آئے تربت سے خواتین کا لانگ مارچ اسلام آباد تک گیا وہ خواتین کس کی خاطر اسلام آباد تک گئیں آپ لوگوں کیلئے گئیں مجھے معلوم ہے کہ پنڈل میں بیٹھے لوگوں کے عزیز لاپتہ ہیں جس کا بیٹا ، بھائی ، باپ لاپتہ ہے اس کو احساس ہے اس کے ہمسائے کو بھی احساس ہے کسی کا جانور گم جائے وہ ساری رات سو نہیں سکتا یہاں وہاں دیکھتا ہے کہ مل جائے جس کا پیارا 20سالوں سے لاپتہ ہے اس پر کیا گزر رہی ہوتی ہے یہ درد صرف وہی جانتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کو اسمبلیوں سے تو دور رکھ جا سکتا ہے اپنے قوم سے نہیں جنرل مشرف مجھے زیر نہیں کر سکا ، جنرل ایوب ، جنرل یحییٰ خان ، بھٹو ہمارے اکابرین کو زیر نہیں کر سکا اب انوار الحق ، سرفراز یا نگران وزیراعلیٰ میرا راستہ روک سکتا ہے جو باتیں میں یہاں کر رہا ہوں وہ اسمبلیوں میں بھی کیں ، اندرون و بیرون ملک جا کر کر کیں ، لاہور جا کر میں نے مولانا فضل الرحمان ، نواز شریف ، زرداری ، شہباز شریف ، بلاول بھٹو کے سامنے بھی یہی باتیں کیں لاہور میں مینار پاکستان دیکھنے نہیں اپنا موقف رکھنے گیا ہے طاقتوروں کی طاقت سے انکار نہیں کرتا لیکن یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سوچ سمجھ کر کرنا جو کرنا تھا لوگوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ بی این پی کو ووٹ نہیں دیں ، امیدواروں کو پارٹی چھوڑنے کا کہا جا رہا ہے میں کہنا چاہتا ہوں عوام بی این پی کو ووٹ نہ دیں کس جماعت کو دیں کسی ایک جماعت کے نام تو لیں آپ کبھی پیپلز پارٹی ، کبھی ن لیگ آپ لوگ ایک پارٹی نہیں بنا سکے باپ پارٹی بنی جو اب ختم ہو چکی دل کے ٹکڑے ہزاروں ہوئے کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا جام صاحب مسلم لیگ کا حصہ بن گئے یہاں کے موصوف پیپلز پارٹی والے ہو گئے کچھ جمعیت علمائے اسلام میں چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کا انتخابی نشان آج کا نہیں 1996ءمیں بھی اسی نشان کلہاڑا پر آپ نے ہمیں کامیاب کرایا صوبائی اسمبلی کی نشست پربی این پی کے امیدواراسی طرح قومی اسمبلی کی نشست پر آزاد امیدوار اسلم بھوتانی کی کامیاب کو یقینی بنائیں