مزاحمت زندگی ہے
تحریر: ذکیہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ جو تحریک رواں دواں ہے آج اسکی وجہ کیا ہے؟ اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ اور بلوچ پر اتنی بڑی خاموشی کیوں؟ کیا ہم اس ملک کے باشندے نہیں؟ اور ہمیں یہی دکھانا چاہتا ہے کہ ہم ان میں سے نہیں؟
یہ ریاست ہم پہ مزید ظلم ڈھانےکے لیے ہر روز نئے منصوبے اور ہتھکنڈے اختیار کر رہا ہے۔ انہیں اس بات کا تو علم ہے کہ ہمارے پیاروں کے ساتھ کس حد تک ظلم و بربریت وہ کر رہا ہے، مگر ہمارے لیے فکر کی بات یہ ہے کہ ہمارے پیارے اپنی لا شعوری اور قومی شناخت کے لیے گمشدہ کیے جا رہے ہیں۔ بلوچ کے نام رکھنے سے کوئی بلوچ نہیں ہوتا، اسکے لیے لالچ، بکاؤ، مردہ ضمیری اور کرسی کی لالچ سے پرے ہو کر جبر کے خلاف جنگ کرنا پڑھتا ہے۔
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہوچکا ہے کہ یہ ایک قومی تحریک ہے اور سیاست سے بلکل پاک ہے اگر پھر بھی آپ شک و شبہات کے شکار ہے تو جا کہ اسلام آباد میں ان لوگوں کو کوئی پیشکش کریں اور جواب سننے کی طاقت رکھ رکھیے کیونکہ ہمیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ وہ صرف اپنے پیاروں کی بازیابی اور بلوچستان میں لگی آگ کو بجانے کیلئے اتنی تکالیف اٹھا رہے ہیں جو کبھی بھی آپکی ہاں میں ہامی نہیں بھر سکتے۔
ہمارے نام نہاد سیاست دان جو زبردستی ہمارے سروں پہ مسلط کیے گئے ہیں جن کو ریاست ہی چنتا ہے اور پالتا ہے ہمارا ان سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ اب اس خوش فہمی میں مت رہئیے ہے کہ بلوچ عوام انہیں ووٹ دے گی۔ ان سے ہماری گزارش ہے براۓ مہربانی کر کے خیالی پلاؤ بنانا بند کردیں۔ بلوچ عوام میں اتنا شعور آچکا ہے اور وہ اب وہ اپنی اصل تحریک سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
ہمارے لواحقین جو اسلام آباد میں بیٹھے ہیں ان کے خلاف ہر دن ریاست نئے نئے حربے استعمال کرکے انہیں تنگ کیا جارہا ہے تاکہ وہ انہیں مجبور کر کے پیچھے ہٹا سکے، مگر انہیں یہ پتہ ہی نہیں کہ یہ پہلے سے ریاست کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگ ہیں۔
اب ان پہ مزید جبر وتشدد کر کے مزید حالات خراب نہ کریں اور اتنا مجبور نہ کریں کہ پورا بلوچستان آ کے وہاں بیٹھ جائے۔ ہم بلوچ ایک ہیں ہمارا تہذیب ایک ہے، ہماری پہچان ایک ہے چاہے ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں پھر بھی ایک دوسرے کے درد کو محسوس کر سکتے ہیں اور ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کی بنائی ہوئی لکیروں نے جغرافیائی طور پہ ہمیں الگ دکھایا گیا ہے لیکن ہمارے دلوں سے قوم کے لیے جو جذبات ہیں تم کبھی نہیں نکال سکتے۔ یہ احساس ہماری قومی اتحاد کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ پنجاب میں جو بلوچ رہے ہیں اس تحریک نے یہ بھی عیاں کر دیا کہ وہ بھی بلوچ کا درد اپنا درد سمجھتے ہیں۔ آج بلوچ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہی کیوں نہ رہتا ہو وہ اپنے قوم کے لیے آواز اٹھا رہی ہے جو کہ ایک حقیقی جذبہ ہے اسکو جتنا دبانے کی کوشش کی جائے گی اتنا ہی ابھرے گا۔ اسکا اندازہ حالیہ وقت سے لگایا جاسکتا ہے شہید بلاچ کی شہادت سے اسکے والد محترم اور بہن پھر جاکر اسلام آباد اس تحریک میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ مزاحمت گودی ماہ رنگ اور تمام بلوچ ماؤں، بہنوں کی شکل میں آج اسلام آباد میں تحریک چلا رہے ہیں جنکا موقف صرف بلوچ قوم کو ظلم سے آذاد کرنا ہے۔ سچ کہتے ہیں مزاحمت زندگی ہے، ہم سب کی ایک ہی آواز ہے۔
“زندہ ہے مزاحمت زندہ ہے”
“ماہ رنگ کی شکل میں زندہ ہے”
“ماہ زیب کی شکل میں زندہ ہے”
“سمّی کی شکل میں زندہ ہے”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔