فکری و نظریاتی مباحث ایک تنقیدی جائزہ (حصہ چہارم) – مہر جان

338

فکری و نظریاتی مباحث ایک تنقیدی جائزہ

تحریر: مہر جان

دی بلوچستان پوسٹ

مارکسزم کا بنیادی مقدمہ بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ جو مارکسزم میں ترمیم کے حق میں ہے جیساکہ فرینکفرٹ اسکول آف تھاٹ یا وہ جو مارکسزم کو آج کے دور سے غیر متعلقہ سمجھتے ہیں وہ پہلے مارکسزم کی بنیادی مقدمے کو سمجھ لیں، کہ دراصل مارکس نے جدلیاتی مادیت کی تناظر میں تاریخی مادیت کو آشکار کرنے کی کیسے کوشش کی ہے؟

التھیوسے جدلیاتی مادیت کو سائنس اور تاریخی مادیت کو فلسفے کا میدان سمجھتا ہے، جبکہ مارکس کے لیے دونوں بیک وقت فلسفیانہ و سائنسی میدان ہیں، اب یہاں سے اک نئی بحث کا آغاز ہوا کہ سماجی علوم کو واقعی سائنسی انداز سے دیکھنے کا عمل فائدہ مند بھی ہے ، یا پھر سماج کی ایک اپنی حقیقت ہوتی ہے جس کو سائنسی انداز سے دیکھنے کا عمل نقصان دہ یا کم ازکم غیر مفید ہے، نقادوں کے خیال میں اس طرح میکینکل انداز سے سماج کو دیکھنے سے انسان کی اپنی آذادی یا اخلاقیات داؤ پہ لگ جاتی ہے، وہ سائنسی انداز کو مشینری ،یا میکنیکل انداز کا نام دیتے ہیں جس میں کانشئیسنیس(شعور) کو نظر انداز کردیا جاتا ہے ،شعور کی فعالیت سے صرف نظر کرکے محض میکانکی انداز سے سماج کی تبدیلی کو مشروط سمجھنا عقیدہ پسندی کے قریب جبکہ جدلیات کی مخالف سمت ہے، لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا مارکسزم میں سائنس ( تاریخی مادیت) اس حدتک گہرا ہے کہ جس سے تاریخی مادیت(تاریخی پڑاؤ) کی تشکیل ہورہی ہے؟ مارکس کے بعد لوکاچ نے مارکسزم پہ اس حوالے سے بنیادی کام کیا، لوکاچ نے اس طرح کی سائنسزم پہ تنقید کرکے ریزن ، آذادی اور کلاس کانشئیسنیس کو مارکسزم میں گہرائی اور وسعت عطاء کی۔

سائنس پہ دوسری تنقید اس کی یونیفارمٹی ہے، چونکہ سائنسی علوم کی بنیاد یونیفارمیٹی یعنی یکسانیت پر ہے، اسی نقظہ نظر سے سماج میں یونیفارمیٹی کے تصور کو تقویت ملی، اس یکسانی تصور کے باوجود جب سماج کو بڑے بڑے مختلف النوع تجربات کا سامنا کرنا پڑا تو پھر لسانیات کے ڈسکورس میں سماجی علوم سیاسیات سے لے ادب تک کے میدان میں پوسٹ ماڈرن ازم ابھر کر سامنے آیا جو یونیفارمیٹی کو رد کرتے کرتے یونان کے سوفسطائی پروٹاگورس کی بات کر گیا کہ ،” انسان تمام اشیاء کا پیمانہ ہے” ہرچند اس نے فرد کی بات کی تھی “تاریخی پڑاؤ” کی نہیں” ، یعنی ابجیکٹیو ریئلیٹی(معروضی سچائی) کو بُری طرح سے نظر انداز کردیا گیا، تاریخ سے لےکر اخلاقیات کو فقط مختلف انٹرپریٹیشنز کا نام دیاگیا، نیطشے کی زبان میں یہ کہا جانے لگا “جو آپ کے لیے اچھا ہے وہی اچھا ہے”۔ یعنی “اچھائی” کی کوئ یونیورسل/معروضی تعریف نہیں، نہ کوئ یونیورسل اخلاقیات ان کے ہاں موجود ہے، جس سے ایک نئی صورتحال ابھر کر سامنے آئی، جسے لیوتارڈ نے “پوسٹ ماڈرن کنڈیشن” یعنی “مابعدجدید صورتحال” کا نام دیا۔ جبکہ دوسری طرف جو لوگ اس پورے تناظر سے ہٹ کر عقل کو بنیاد بناکر یونیورسل اقدار کی باتیں کرتے ہیں وہ اس سوال کا پوسٹ کالونیل تناظر میں سامنا کرتے رہے، کہ کہیں یورپ اپنے اقدار کی پرچار عقلیت اور سائنس کے نام پہ تو نہیں کررہا؟حتٰی کہ نگوگی نے یہاں تک کہہ دیا کہ مغرب ایک مخصوص جگہ کا نام نہیں بلکہ مغربیت کا ایک مخصوص پروجیکٹ ہے،
‏West is not a place , but a project of westernisation.

پہ بات ذہن نشین رہے کہ پوسٹ کالونیل اسٹڈیز میں اقدار کا تعین طاقت کرتی ہے ، بقول نیطشے “لفظوں پہ طاقت کا پہرہ ہے” جمہوریت ، جمہوری اقدار اس لیے قابل قدر نہیں ہوتی کہ جمہوریت میں ہر فرد کی آزادی ممکن ہے( جو درحقیقت ممکن ہی نہیں) بلکہ پوسٹ کالونیل اسٹڈیز میں جمہوریت کی پیچھے “مغربی طاقت” کو کارفرما دیکھ کر عوام میں اسے قابل قدر سمجھا جارہا ہے، سویلائزیشن ، و نان سویلائزیشن کو’ سیلف اور آدر” کی تناظر میں دیکھا جاتا ہے، یعنی سیلف آدر کی نہ صرف امیج بنارہا ہوتا ہے بلکہ اس کی بی اینگ اور سیاست کو بھی shape دے رہا ہوتا ہے۔الغرض اس طرح نئی صورتحال میں دو انتہائیں سامنے آگئیں ایک وہ جو اپنی زمینی حقاہق کے برعکس یونیورسلٹی کے نام پہ باہر کے اقدار کو آئیڈیلائز کرتے رہے، وہ نوآبادکارانہ رہن سہن سے لے کر سیاست و دانش کو نقل کرنے کی بے ڈھنگ کوششیں کرتے رہے، دوسرے وہ جو اپنی اقدار کے نام پہ ہر یونیورسل پروسیس کی ہر سطح پہ مخالفت کرتے رہے ، جبکہ ان دوانتہاؤں کی بیج نیچر جدلیاتی حوالے سے ریلٹیوازم سے یونیورسلٹی تک کا سفر طے کررہا ہے۔

اس تناظر میں جب ہم اپنی زمین کی بات کرتے ہیں ہمیں نہ دنیا سے ہٹ کر اپنا سفر طے کرنا ہے اور نہ ہی فکشنل پولیٹکس کا شکار ہوکر زمینی حقائق کے برعکس درآمد کردہ نظریات و سیاسی معاملات کو “کاپی اینڈ پیسٹ” کرکے اپنی زمین پہ ہو بہو لاگو کرنا ہے، سیاسی فلاسفرز کا اصل کام یہی ہے کہ اس خلا کو کیسے پر کرکے مزاحمت کو بنیادیں فراہم کردیں, فلاسفر ہمیشہ سے سیاسی نظریات سے لےکر سیاسی معاملات کو سرسری وجذباتی انداز سے دیکھنے کی بجاۓ سوچ کی آنکھ سے دیکھتا ہے، سیاسی میدان سے لے کر جنگ کے میدان میں دشمن کا آپ کے تحمل سے خوفزدہ ہونا آپ کی جیت ہے۔ کہ آپ کتنے تحمل سے دشمن پہ ٹوٹ پڑتے ہیں، جنگ کی میدان میں اس کی ایک شاندار مثال جسے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کیا، اس جنگجو کرد عورت کی ہے، جب مورچہ میں اس عورت کے سر کو گولی چھو کر گزرتی ہے تو وہ مسکرا کر پھر سے حملہ آوار ہوتی ہے ۔ جنگ کے میدان میں اس کا تحمل اور مسکراہٹ ہی مزاحمت ہے۔

جذبات کو ریشنلائزڈ کرنا دراصل مزاحمت کی بنیاد ہے، علم و عمل و شعور و فلسفہ سامراج کی موت ہے، فلسفے کےخلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ اسی کا شاخسانہ ہے، سامراج کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ محکوم کو علم و عمل ، شعور و فلسفے سے دور رکھ نوآبادیاتی علمیاتی ہتیھاروں / سرکاری نصابوں سے ان کےاذہان پر تابڑ توڑ حملہ کر کے مفلوج ، بےجوڑ اور نقل در نقل کرنے والوں کی فوج بنائیں جو شکل و صورت سے محکوم لیکن ذہنی حوالے سے نوآبادکار ہو ، اسے انفارمیشن کے سیلاب میں اس طرح بہا لے جاۓ، کہ محکوم و معتوب فقط ڈگری و نوکری کے تگ و دو تک محدود رہیں ، گر کوئ غیر نصابی کتب کی طرف رجوع بھی کرے تو پروفیسرصاحبان علم و شعور کے نام پہ کسی اور ڈگر پر انہیں لے چلیں ، ان کا مطمع نظر بھاری بھاری ڈگریاں، بڑی بڑی اصطلاحیں، بڑے بڑے مصنفین کے رٹے رٹائے جملے یا بڑے بڑے عہدے ہوتے ہیں،

پروفیسرز کے ساتھ ساتھ محکوموں کے لکھاری حضرات کا المیہ بھی یہی ہے کہ وہ اس بات سے غافل ہیں کہ آخر کن وجوہات کی بناء پر علی شریعتی اپنی قوم کے لیے البرٹ کامیو کی بجاے فینن کو پڑھنے کی خواہش زیادہ رکھتے تھے ، بابا مری بھی افتادگاں خاک کو پڑھنا ہر بلوچ کے لیے کیوں ضروری سمجھتے تھے، تاکہ قاری کامیو کے کردار کی طرح اپنی زمین ، سماج و تاریخ سے بیگانگی کا شکار ہوکر کہیں بے وطن نہ ہوجاے،لیکن یہاں کے لکھاری حضرات ابھی تک منٹو کی فینٹیسی سے نکلنے کو تیار نہیں، یا پھر پنجاب کے مخصوص طبقہ کو قابل قبول بننے کے لیے ہوا کی دوش پر سو کشتیوں میں سوار ہوکر طرح طرح کی پھلجھڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں، گر بہت ہی زیادہ ہوا تو اوشو جیسے نیم فلاسفر جو عقل کے حق میں نیم ملا سے کسی طور پہ کم نہیں ہیں، ان جیسے چالاک لوگوں کی میٹھی میٹھی گولیاں ہوتی ہیں ، جو جہد و مزاحمت سے کوسوں دور بھاگتے ہیں جس کے لیےحاکم کی حاکمیت و محکوم کی محکومیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔جبکہ فلسفہ و منطق میں حالات و واقعات کو فینٹیسی ، و پھلجھڑیوں اور میٹھی میٹھی گولیوں میں جانچنے کی بجاے اپنے زمینی حقاہق سے دیکھاجاتا ہے،کسی اور زمین کے حقاہق کواپنی زمین پہ “ہو بہو” نہ نقل کیا جاتا، نہ ہی قصہ گوئی کی جاتی ہے،بلکہ زمینی جنگ کے ساتھ ساتھ بیانیہ کی جنگ کے لیے نظریاتی کیمپس کی صورت زہن سازی کی جاتی ہے ،سچائی کو برملا کہنے کی جرات اور جھوٹے بیانیوں کو رد کیا جاتا ہے، جہاں میڈیا سے لے کر اکیڈمیاء تک ، قلم سے لے کر مورچے تک آپ کا سب سے مضبوط سہارا سچ ہوتا ہے، آج ہماری زمین یہ سوال شدت اختیار کرتا جارہا ہے کہ ہم ہر سطح پہ سچ کہنے اور سچ سہنے کی کتنی ہمت و حوصلہ رکھتے ہیں ؟ فقط تعریفوں کے پل اور ہیروازم تاریخ کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں.یہ نوشتہ دیوار ہے کہ جمہوریت ،آ ئین، قانون، ریاستی ادراوں سے انصاف یہ سارے ڈھکوسلے وقت کے ساتھ ساتھ آشکار ہوجاتے ہیں کالوناہزر اور کالوناہزڈ کی جتنی زیادہ تفریق ہوگی ،یہی تفریق کالوناہزرکی موت ہے ،جبکہ دوسری طرف جمہوریت، آہین، قانون ہمدردی کے پردے میں کالوناہزر و کالوناہزڈ کی تفریق کا خاتمہ کالوناہزڈ کی موت ہے، اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوۓ ذہن سازی وقت کی اہم ضرورت ہے، جس کے لیے فلسفہ کا پڑھنا بنیادی شرط ہے ، یہ خاصہ بلوچ تاریخ میں بابا مری کا تھا کہ وہ سیاسی منظر نامے کو مظہر کی بجاے سوچ کی آنکھ سے دیکھتا تھا ،ھیگل کے مطابق مظہر دھوکہ تو نہیں ہے لیکن مظہر سے حقیقت تک پہنچنے کے لیے ذہن کی آنکھ اولین شرط ہے جو مظہر کی نفی کرکے حقیقت تک پہنچا سکے ، سارتر گرچہ نو آبادیاتی حکام کے لیے یہ کہتا ہے کہ “انہیں ھیگل پڑھنے کے لیے تنخواہ نہیں ملتی اس لیے وہ اسے نہیں پڑھتے” لیکن یہاں صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے بقول سارتر “انہیں یہ بتانے کے لیے بھی کسی فلسفی کی ضرورت نہیں پڑتی کہ غیر مطمئن ضمیر اپنے ہی تضادات میں آخرکار پھنس جاتا ہے”۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔