شناخت اور آزادی کی تحریک
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان میں دو دہائیوں سے آزادی کی جنگ جاری ہے اور آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے ریاست نے متعدد انسداد انجرجنسی پالسیاں بنائیں، جن میں، بلوچ سیاسی کارکنوں کو ہزاروں کی تعداد میں جبری گمشدگی کا نشانا بنایا گیا، سینکڑوں جبری گمشدہ افراد کے سڑک کناروں اور ویرانوں میں مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں اور جعلی پولیس مقابلوں میں گمشدہ افراد کو مارنے کا تسلسل اب بھی جاری ہے۔
ریاستی جبر سے بلوچستان میں ایک انسانی المیہ نے جنم لیا اور بلوچ قوم نے خوف کے حصار کو توڑ کر ریاست کے مبینہ جبر کے خلاف بلوچستان کے گوشے گوشے میں ہزاروں کی تعداد میں احتجاج کردیا،
اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی پلیٹ فارم پر بلوچ قوم سیاسی مزاحمت کے لئے منظم ہورہی ہے۔
بلوچ سیاسی مزاحمت کے توانا آواز عالمی دنیا میں بھی سنی جارہی ہے ۔ اقوام متحدہ سے وابستہ ادارے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر تحقیق کررہے ہیں اور امریکہ ؤ برطانیہ کے پارلیمان میں بھی بلوچ قوم پر ہوئے جبر پر بحث ہورہا ہے۔
موجودہ سیاسی ابھار سے پہلے پاکستان کے مقتدر قوتیں بلوچ قومی مسائل کو چند سرداروں اور غیر ملکی قوتوں کی کارستانی قرار دیتے تھے لیکن اب پاکستان کے نگران وزیر اعظم اقرار کررہے ہیں کہ بلوچستان میں آزادی اور شناخت کی جدوجہد جاری ہے۔ انوار الحق کاکڑ کا اس حقیقت کا اظہار یہ ثابت کرتا ہے کہ ظلم ؤ جبر سے حقوق اور آزادی کی تحریک کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے اور بلوچ قوم کو قومی حقوق ؤ بشمول حق آزادی دینے سے ہی بلوچستان کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔