سال 2023 – بلوچ آزادی پسند تنظیموں کی سالانہ مسلح سرگرمیاں

888

سال 2023 میں بلوچستان بھر میں مسلح سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا، جس میں آزادی پسند بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے کل 612 حملے کیے گئے۔ یہ رپورٹ بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ ریپبلکن گارڈز (بی آر جی)، بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے)، بلوچ لبریشن ٹائیگرز(بی ایل ٹی)، اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) سمیت دیگر کے سرگرمیوں کا ایک جامع تجزیہ فراہم کرتی ہے اور ان کے انفرادی اور اجتماعی اثرات کو اجاگر کرتی ہے۔

حملے اور اثرات

گذشتہ سال مجموعی طور پر 612 حملے ہوئے۔ حملوں میں پاکستانی فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اس سے منسلک افراد کے ساتھ ساتھ انکے مقامی ‘سہولت کاروں’ کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں 557 سے زائد ہلاکتیں اور 423 سے زائد زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں بلوچستان کے 26 اضلاع متاثر ہوئے جن میں بڑے شہروں، قصبوں اور دور دراز کے علاقوں سمیت 134 مختلف علاقے شامل ہیں۔

بلوچستان لبریشن فرنٹ

گذشتہ سال بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) 284 حملوں کے ساتھ بلوچستان میں سب سے زیادہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے تنظیم بنی، بی ایل ایف کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں 287 سے زائد ہلاکتیں، 161 سے زائد پاکستانی فورسز کے اہلکار و ان سے منسلک افراد زخمی ہوگئے۔ مجموعی طور پر 76 سے زائد تنصیبات کو نقصان پہنچا۔ تنظیم نے 12 اضلاع میں کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی جن میں سے نوے فیصد سے زیادہ حملے پانچ مخصوص اضلاع تک مرتکز تھے۔ 12 اضلاع کے اندر 54 مقامات پر کارروائی کی گئی، جن میں 18 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بی ایل ایف کو سال بھر میں 35 جنگجوؤں کا نقصان بھی اٹھانا پڑا، جو کے تمام آزادی پسند تنظیموں میں سب سے زیادہ تھا۔

بلوچ لبریشن آرمی

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے شہری حملوں پر زور دیتے ہوئے 18 اضلاع کے 67 علاقوں میں وسیع سرگرمیوں کا مظاہرہ کیا۔ 247 کارروائیاں کی گئیں، جن کے نتیجے میں 213 سے زائد فوجی اہلکار و ان سے منسلک افراد و مقامی سہولت کار ہلاک جبکہ ان حملوں کے نتیجے میں 264 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جبکہ 206 تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا۔

بی ایل اے نے دو ‘فدائی’ حملے کیے جن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر پاکستانی فوسز کو نقصان اٹھانا پڑا، جن میں چینی انجینئرز اور پاکستانی خفیہ اداروں کے اعلیٰ افسران شامل تھے۔ پورے سال کے دوران، بی ایل اے کو 14 جنگجوؤں کو جانی نقصانات اٹھانے پڑے جن میں تین ‘فدائی’ ارکان بھی شامل تھے۔ بی ایل اے کے ان کارروائیوں میں ہرنائی جیسے علاقوں میں کئی دنوں تک شاہراہوں کا محاصرہ اور ناکہ بندی کرنا شامل تھا۔ مزید برآں، تنظیم نے 17 افراد کو گرفتار کیا، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں، اور ہائی الرٹ فوجی پوسٹوں کو نشانہ بناکر ان پر قبضہ کیا۔ یہ واقعات بی ایل اے کو بلوچستان میں سب سے مہلک و صلاحیت رکھنے والی تنظیم بناتی ہیں۔

دیگر مسلح تنظیمیں

بلوچ ریپبلکن گارڈز، بلوچ نیشنلسٹ آرمی، بلوچ لبریشن ٹائیگرز، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور دیگر نے مجموعی طور پر 81 حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ اہم واقعات میں بی این اے کا پنجاب میں جعفر ایکسپریس کو نشانہ بنانا اور بی آر جی کی جانب سے سندھ (خیرپور) اور پنجاب کے زیر انتظام ڈیرہ غازی خان میں حملوں کی ذمہ داری قبول کرنا شامل تھے۔ ان تنظیموں نے مجموعی طور پر 49 فورسز اہلکار و ان سے منسلک افراد کو ہلاک اور 60 سے زائد زخمی کیئے جبکہ 58 تنصیبات کو نقصان پہنچانے اور چار افراد کی گرفتاری کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ واقعات 11 اضلاع میں پھیلے 15 علاقوں میں پیش آئے۔

بی ایل ایف، بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کی سرگرمیوں کا تقابلی جائزہ

پچھلے سال کے دوران، بلوچستان لبریشن فرنٹ نے کل حملوں میں سے تقریباً 46.41 فیصد کی ذمہ داری قبول کی، جبکہ بلوچ لبریشن آرمی نے تقریباً 40.36 فیصد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ ان دونوں تنظیموں نے مجموعی طور پر رپورٹ کیے گئے کل حملوں میں سے تقریباً 86.76 فیصد کی ذمہ داری قبول کی۔ باقی مسلح تنظیموں بشمول بلوچ ریپبلکن گارڈز، بلوچ نیشنلسٹ آرمی، بلوچ لبریشن ٹائیگرز، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور مختلف دھڑوں نے بقیہ 13.24 فیصد حملوں میں حصہ لیا۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں جاری شورش میں آج بھی بی ایل ایف اور بی ایل اے سب سے زیادہ نمایاں تنظیمیں ہیں۔

سال 2022 اور 2023 میں مجموعی سرگرمیوں کا موازنہ

سال 2023 میں بلوچ مسلح تنظیموں نے اپنی سرگرمیاں تیز کیں، مجموعی حملوں کی تعداد خاطر خواہ اضافے کے ساتھ 612 تک پہنچ گئی، جو پچھلے سال کے 475 کے مقابلے میں 28.42 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس تعداد میں 557 سے زائد ہلاکتیں شامل ہیں (سال 2022 کے 804 ہلاکتوں کے مقابلے میں 30.94 فیصد کمی) 423 زخمیوں اور تنصیبات کے نقصانات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، جس کی تعداد 340 سے زائد تک پہنچ گئی اور 2022 میں رپورٹ کردہ 98 سے زائد کے مقابلے میں نمایاں 246.94 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ کارروائیوں کے علاقوں میں 26 اضلاع کے شہر اور دور دراز علاقے شامل رہیں جس سے متاثرہ علاقوں کی تعداد 134 تک پھیل گئی۔ گذشتہ سال بلوچ مسلح تنظیموں کے جانی نقصانات میں 50 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ۔