بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال

242

بدھ کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی جبکہ کئی علاقوں میں مظاہرے کیئے گئے۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے بلوچ مظاہرین نے اپنے مطالبات کی عدم منظوری کے خلاف احتجاج جاری رکھتے ہوئے پاکستان بھر میں شڑڈاوان ہڑتال کی اپیل کی تھی ۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ زیر حراست بالاچ بلوچ قتل میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو سزا ، سی ٹی ڈی کو غیر فعال ، بلوچ نسل کشی اور جبری گمشدگیوں کو بند کیا جائے ۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت جبری گمشدگیوں کو بند کرنے کے بجائے مزید بلوچوں کو لاپتہ کررہی ہے اور اسلام آباد دھرنے کو سبوتاژ کرنے کیلئے راہ ہموار کی جارہی ہے۔

آج صبح سے بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ، صنعتی شہر حب، ساحلی شہر گوادر، گڈانی سمیت خضدار، نوشکی، مستونگ، کوہلو، چاغی، دالبندیں، وندر، مند، تمپ، سوراب، قلات، پنجگور، بارکھان، بسیمہ، ناگ، بلیدہ اور دیگر علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی۔

ڈیرہ غازی خان،تونسہ شریف، لیاری، ملیر کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں کاروباری مراکز بند رہے جبکہ گلگت بلتستان میں بلوچ مظاہرین سے اظہار یکجہتی کیلئے کاروباری مراکز بند رہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد نے جمع ہوکر مظاہرہ کیا۔

بلوچستان کے بعض شہروں میں لوگوں کی بڑی تعداد نے سڑکوں میں نکل کر احتجاج کیا۔ ہڑتال کے سبب کاروباری مراکز ، سرکاری ، مالیاتی ادارے بند رہیں۔

کوہلو میں شرکاء نے کوہلو تا پنجاب کے شاہراہ کو بند کرکے ریاستی جبر و بربریت کیخلاف شدید نعرے بازی کی۔

شرکاء نے کہاکہ کئی روز سے اسلام آباد میں ہماری ماں بہنیں بلوچستان میں ریاستی ظلم اور اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں مگر ریاست انہیں انصاف فراہم کرنے کے بجائے طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان جمہوری اور فلاحی ریاست نہیں بلکہ ایک سکیورٹی ریاست ہے جہاں عوامی رائے کا کوئی حیثیت نہیں ہے، اسلام آباد میں ہماری ماں بہنوں پر تشدد کے بعد اب انکے کھانے پینے کے ایشیا پر بھی پابندی عائد کرکے ریاست نے اپنا اصل چہرے دکھا دیا اور انوار الحق کاکڑ جیسے کٹھ پُتلی وزیراعظم کو سلیکٹ کرکے بلوچ محکوم قوم کی آواز دبانے کی تسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کو بلوچستان کے لاپتہ افراد، بھوک و افلاس، بےبسی، احساس کمتری و دیگر مسائل نظر نہیں آتے مگر چمالنگ، سندک، ریکوڈک، کوئلہ، تیل و گیس اور بلوچستان کے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ، پشتو اور سندھیوں پر ہونے والی ظلم و جبری کی داستان طویل ہے پاکستان کے وجود سے ان محکوم اقوام کو تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ ریاست نے ہمیشہ ان اقوام پر اپنا قوت کا استعمال کرکے انہیں زیر کرانے کی کوشش کیا ہے، ریاست نے ہمیشہ اپنی طاقت خواتین و بچوں پر آزمائی ہیں جس طرح اسلام آباد میں سرد راتوں میں واٹر کین سے معصوم بچوں پر پانی پھینکا گیا یہ جمہوری ریاست کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ہم سلام پیش کرتے ہیں ان ماں بہنوں کو جو ریاستی ظلم کیخلاف ڈٹی رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاست یہ بیانیہ لیکر بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کی آواز کو دبانا چاہتی ہے کہ ان سب کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ ہے اور بیرونی قوتیں پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں ہم حیران ہیں انڈیا کو اس کھباڑ ملک کا کرنا کیا ہے؟ ریاست لاپتہ افراد کے لواحقین پر طاقت کا استعمال اور مختلف شہروں میں پرامن احتجاج میں حصہ لینے والے لوگوں پر ایف آئی آر درج کرکے انہیں مزید بدزن اور بغاوت پر مجبور کر رہا ہے۔

آخر میں مظاہرین کا کہنا تھا کہ ریاست طاقت کا استعمال کرنے کے بجائے لاپتہ افراد کے لواحقین کے مطالبات تسلیم کرکے لاپتہ افراد کو رہا کریں اور تمام شہریوں میں درج جھوٹی ایف آئی آر واپس لیں اہلیان کوہلو لاپتہ افراد کے لواحقین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

دیگر شہروں میں بھی شرکاء نے بلوچ مظاہرین سے یکجتی کے طور پر سڑکوں پر نکل کر حکومت سے مطالبہ کیاکہ اسلام آباد احتجاج کے شرکاء پر تشدد بند کرکے انکے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔