بلوچ پرامن مظاہرین کو ہراساں کرنے پر حکومت کو شرم آنی چاہیے – ایمنسٹی انٹرنیشنل

344

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسلام آباد میں بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء  کو مسلسل ہراساں کرنے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب جاری کردہ تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام دو ماہ تک جاری رہنے والے پرامن دھرنے کے دؤران بلوچستان سے سینکڑوں خواتین اسلام آباد آئے جو اپنے لاپتہ پیاروں اور بلوچستان میں ماورائے عدالت و قانون جبری گمشدگیوں اور قتل کے خلاف انصاف کا مطالبہ کررہے تھیں۔

22 دسمبر 2023 سے نیشنل پریس کلب میں بلوچ مظاہرین کے پرامن دھرنے کے دؤران ریاستی مشنری کی جانب سے لانگ مارچ حوالے جھوٹا مہم چلایا گیا، اسلام آباد پہنچے پر انھیں گرفتاریوں کا سامنا رہا اور یہاں تک کے کھلے آسمان تلے احتجاج کرنے والوں کو ضروری وسائل سے بھی پولیس کی جانب سے محروم رکھا گیا۔

اس حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل میں قانون اور پالیسی کے پروگرام ڈائریکٹر کیرولین ہورن نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ لواحقین کو ہراساں کرنا پرامن مظاہرین کے مطالبات کے بارے میں حکام کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔

انہوں نے کہا آزادی اظہار اور پرامن احتجاج کے حق سے انکار نے لاپتہ افراد کے خاندانوں کی جانب سے سالوں برداشت کیے جانے والے مصائب کو مزید بڑھا دیا ہے، جس میں بوڑھے افراد سے لے کر دو سال تک کے بچوں تک شامل ہیں۔

ہورن نے اس بات پر زور دیا کہ ان مظاہرین کی آوازوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، خاص طور پر پاکستان میں ہونے والے قومی انتخابات کے دوران، پورے انتخابی عمل میں انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

ایمسنٹی انٹرنیشل نے حکام کو اپنے تنقید بیان میں کہا ہے کہ مظاہرین کے آرگنائزر مہرنگ بلوچ نے مختلف حلقوں کی جانب سے بلوچ مخالف رویوں پر افسوس کا اظہار کیا جس کی وجہ سے وہ اپنے احتجاج کے اس مرحلے کو ختم کرنے پر مجبور ہوئے۔ انہیں پولیس کی ہراسانی، پروفائلنگ اور روزانہ کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا، جو ان کی پرامن تحریک کو دبانے کی منظم کوششوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

حکام کی جانب سے طاقت کے استعمال میں ‘انٹرنیشنل مظلوم اقوام کانفرنس’ میں لوگوں کی داخلے پر پابندی، دھرنے کے شرکاء کے ارد گرد خاردار تاریں لگانا، اور احتجاجی مقام پر ضروری سامان نہ لیجانے کی اجازت شامل تھا، شدید سردی میں بھی مظاہرین کے حوصلے بلند تھے کیونکہ سردی میں بیٹھنے کا درد گھر بیٹھے اپنے پیاروں کی واپسی کا درد سے زیادہ نہیں تھا-

رپورٹ میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما منظور پشتین پر حملہ سمیت جبری حراستوں اور من مانی گرفتاریوں کے متعدد واقعات کی تفصیلات دی گئی ہیں، جو تین بار ضمانت ملنے کے باوجود زیر حراست ہیں۔

بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء کو 20 دسمبر 2023 کو اسلام آباد پہنچنے پر آنسو گیس، واٹر کینن اور لاٹھیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد ازاں گرفتاریوں، جن میں خواتین، بچے، طلباء اور بوڑھے شامل تھے، اس دؤران انتظامیہ نے غفلت کا مظاہرہ کیا۔ G-7 وومنز پولیس سٹیشن، اسلام آباد میں 47 خواتین اور پانچ بچوں کی حراست کے دوران حکام کے بدسلوکی اور دھمکانے کی شکایت کی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے اس رپورٹ میں بلوچستان میں مظاہروں کو کور کرنے والے صحافیوں پر مقدمات کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور فورسز کی جانب سے وڈھ، بلوچستان میں ریلی کی کوریج کرنے والے صحافیوں اور لوک سُجاگ کی فاطمہ رزاق سمیت دیگر میڈیا اہلکاروں کو ہراساں کیے جانے اور حراست کا سامنا کرنا پڑا، جس سے صحافیوں میں خوف اور خود سنسر شپ کی فضا پیدا ہوئی۔ مزید برآں، کوہلو اور تربت میں سرکاری ملازمین کو لانگ مارچ میں شرکت پر معطل کر دیا گیا۔

رپورٹ میں اہم حکومتی شخصیات کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال پر روشنی ڈالی گئی ہے جنہوں نے لاپتہ افراد کو ‘دہشت گرد’ قرار دیا، جس سے مظاہرین کے مقصد کے جواز کو مزید نقصان پہنچا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سابقہ ​​سفارشات کا اعادہ کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے جبری گمشدگیوں کو ختم کرنے، بین الاقوامی کنونشنز کی توثیق کرنے اور بلوچ مظاہرین کے خلاف تمام قانونی کارروائیوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا بالاچ مولا بخش کے مبینہ ماورائے عدالت قتل سے شروع ہونے والا بلوچ لانگ مارچ، بلوچستان میں احتساب اور ماورائے عدالت قتل اور گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے کیونکہ بلوچستان میں ناانصافیوں کا سلسلہ دھائی سے جاری ہے جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن نے 2011 سے لے کر اب تک 10,078 جبری گمشدگیوں کو ریکارڈ کیا، جو پاکستان کے بین الاقوامی وعدوں کی خلاف ورزی ہے۔

ایمسنٹی انٹرنیشل کی جانب سے رپورٹ کے آخر میں پاکستان حکام پر زور دیا ہے کہ انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی پر فوری توجہ اور کارروائی کی ضرورت ہے۔