بلوچستان، میکسم گورکی کی “ماں” ۔ عزیز سنگھور

226

بلوچستان، میکسم گورکی کی “ماں”

تحریر: عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ

“ماں” ایک مشہور انقلابی ناول ہے جو روس کے مشہور انقلابی شاعر، ناول نگار اور افسانہ نگار میکسم گورکی نے 1906ء میں لکھاتھا۔ جس کی کہانی ایک انقلابی فیکٹری مزدور کے گرد گھومتی ہے۔ اس کا ترجمہ 62 زبانوں میں ہوا ہے اور کئی فلمیں بھی اس کہانی پر بن چکی ہیں۔ میں نے یہ ناول طالبعلمی کے دوران دو مرتبہ پڑھا۔ اور ایک مرتبہ اس کی فلم بھی دیکھی۔ یہ ناول انقلاب روس سے پہلے کے حالات، جدوجہد اور انقلاب میں عوامی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ناول انقلاب روس میں عورتوں کی جدوجہد کو اجاگر کرتا ہے۔

ناول کی کہانی ایک مزدور پافل ولاسوف، اس کی ماں، اس کے دوستوں اور کچھ خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ ماں اپنے بیٹے اور اس کے مقصد یعنی انقلاب کے لیے سختیاں برداشت کرتی ہے اور اپنے بیٹے کی گرفتاری کے بعد خود ایک انقلابی بن جاتی ہے۔ تاہم وہ ایک فرضی کردار تھا۔

آج بلوچستان میں اس ناول کے ہزاروں حقیقی کردار ادا کرنے والی مائیں ملیں گی۔ جو اپنی اولاد کی جبری گمشدگی اور ان کی بازیابی کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔ جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ میں ان میں دو لاپتہ افراد کی ماؤں کا ذکر کرونگا۔ جن میں طالب علم رہنما ذاکر مجید بلوچ کی ماں، “راج بی بی” اور انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ، ماسی “بذخاتون” شامل ہیں۔

اماں “راج بی بی” ایک بلوچی نام ہے۔ جس کے معنی ہیں ۔ “راج” یعنی قوم، “بی بی” شہزادی ہے۔ اس کا پورا مطلب “قوم کی شہزادی” ہے۔ حقِیقتاً یہ قوم کی شہزادی ہے۔ آج یہ ماں صرف ذاکر مجید کی ماں نہیں ہے۔ بلکہ پوری بلوچ قوم کی ماں بن چکی ہے۔ ہر لاپتہ افراد کی اولادوں کے سرپر اس کا ہاتھ ہے۔ ان کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ آج وہ صرف اپنی اولاد کی بات نہیں کررہی ہے۔ بلکہ تمام جبری گمشدکی کے شکار افراد کی بات کررہی ہے۔

اماں راج بی بی نے لانگ مارچ میں شریک خواتین اور بچوں کی پشت پناہی کی۔ تربت سے نکلنے والا لانگ مارچ مکران، شاشان، جھالاوان، ساراوان، شال، کوہلو، بارکھان، کوہ سلیمان سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچ گیا۔ جہاں نیشنل پریس کلب کے باہر لانگ مارچ کے شرکا کا دھرنا جاری ہے۔

لانگ مارچ کے شرکا کا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بلوائی جائے جو خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لے، اور بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل بند کئے جائیں۔ 2021سے جعلی مقابلوں میں ابتک مارے جانے والے لاپتہ افراد کے حوالے سے جوڈیشنل انکوائری کی جائے تاکہ حقائق سامنے آجائیں اور اس کے ذمہ داروں کو کڑی سزادی جائے تمام لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے اور انہیں عدالت میں صفائی کا موقع دیا جائے۔

جبری لاپتہ بلوچ طالب علم رہنماء ذاکر مجید بلوچ کی والدہ “راج بی بی” کا تعلق ضلع خضدار کے علاقے “نال” سے ہے۔ ان کے بیٹے کو 8 جون 2009 کو مستونگ پڑنگ آباد سے اٹھایا گیا۔ جو تاحال لاپتہ ہیں۔ ذاکر مجید، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے سینیئر وائس چیئرمین تھے۔ وہ کوئی بلوچ سرمچار ( بلوچ گوریلا) نہیں ہے۔ بلکہ پرامن جدوجہد پر یقین رکھنے والے طالب علم لیڈر ہیں۔

اس لانگ مارچ سے قبل ان کی بہن فرزانہ مجید نے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد پیدل مارچ بھی کیا تھا۔ اس پیدل مارچ میں لاپتہ دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ، شہید جلیل ریکی بلوچ کے والد ماما قدیر بلوچ، لاپتہ سیاسی کارکن رمضان بلوچ کے بیٹے علی حیدر بلوچ اور بلیدہ بٹ سے لاپتہ جان محمد کی والدہ اور بہن بھی شامل تھیں۔ اس پیدل مارچ کو وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے آرگنائزڈ کیا گیا۔

آج اماں “راج بی بی” نے کراچی، اسلام آباد اور کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بے شمار پریس کانفرنسز، احتجاجی مظاہرے کئے۔ مگر بدقسمتی سے تمام بلوچ سیاسی لاپتہ افراد کی بازیابی تو کجالانگ مارچ کے نتیجے میں ان کے بیٹے ذاکر مجید بلوچ کو بھی نہ چھوڑاگیا۔

اماں “راج بی بی” کو ان کا بیٹا لوٹا دیا جائے یا اگر اس نے کوئی غیرقانونی کام کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ سزا دینا عدالتوں کا کام ہے۔ اس ماں پر رحم کیا جائے۔ ایک ماں کی اپنی اولاد سے محبت کبھی بھی ختم نہیں ہوتی۔ آج 14 سال ہونے والے ہیں کہ ذاکر مجید زندان میں قید ہے۔ لیکن بطور ماں وہ ان 14 سالوں میں ایک دن بھی وہ انہیں یاد کئے بغیر نہیں گزار سکی ہیں۔ وہ حکومت سے فریاد کررہی ہے کہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے ذاکر مجید کو منظر عام پر لاکر انہیں دکھایا جائے تاکہ ایک ماں کو اپنی اولاد کی سلامتی کا سکون تو ملے مگر قانون بنانے والے بھی اپنے قانون اور آئین کی پاسداری نہیں کررہے ہیں۔ اگر ذاکر مجید کسی جرم میں ملوث ہے تو یہ عدالتیں کس لیے بنائی گئیں ہیں۔ انہیں عدالت میں پیش کرکے جو بھی سزا دینا ہے دی جائے مگر انہیں جبری لاپتہ رکھنا کونسا انصاف ہے۔ ایک بےبس اور لاچار ماں اپنے بیٹے کی جدائی کی اذیت میں تڑپ رہی ہے۔ اس انسانیت سوز ظلم کی ملکی قوانین اور ہمارا مذہب اسلام اجازت نہیں دیتا ہے۔

ماسی “بذخاتون” ایک نڈر اور باہمت کردار ادا کرنے والی ہستی ہے۔ ان کے بیٹے راشد حسین کو 26 دسمبر 2018 میں راشد حسین اور ان کے کزن حفیظ زہری کو متحدہ عرب امارات میں گرفتار کیا گیا۔ بعد میں راشد حسین بلوچ اور حفیظ زہری کوپاکستانی حکام کے حوالے کردیاگیا۔
بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے عبدالحفیظ زہری اور راشد حسین بلوچ گذشتہ کئی سالوں سے متحدہ عرب امارات میں کاروبار چلاکرگزر بسر کررہے تھے۔ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے باعث وہ متحدہ عرب امارات منتقل ہوئے تھے۔ عبدالحفیظ زہری کے بھائی مجید زہری کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔ جن کی تشدد زدہ لاش 24 اکتوبر 2010 کو ملی تھی جبکہ عبدالحفیظ کے والد حاجی رمضان زہری جو خضدار کے ایک کاروباری شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے، ان کو 2 فروری 2012 کو بھرے بازار میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ اسی خاندان کے ایک اور فرد، عبدالحمید زہری کو کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے لاپتہ کیا گیا۔

ان تینوں کی گرفتاری کے خلاف ان کے لواحقین نے عدالت سے رجوع کیا۔ احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ بالاآخر 3 فروری 2023 کو عدالتی حکم پر کراچی سینٹرل جیل سے عبدالحفیظ زہری کی رہائی ممکن ہوئی۔ تاہم عدالتی حکم پررہائی پانےوالےعبدالحفیظ زہری اور انکی فیملی کو طاقتورافراد کی جانب سے کراچی سینٹرل جیل کے باہر دوبارہ اغوا کی کوشش کی گئی، مزاحمت کرنے پر فیملی کی خواتین اور بچوں کو زد و کوب کیا گیا۔ اس کوشش کے دوران عبدالحفیظ بھی زخمی ہوگئے تھے۔ کافی شورشرابہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ہجوم لگ گیا۔ جس پر اغوا کار انہیں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ اور یوں عبدالحفیظ زہری آزاد ہوگئے۔

اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے عبدالحمید زہری کے اہل خانہ کی طویل جدوجہد سے 31 اکتوبر 2023 کو وہ بازیاب ہوئے۔ عبدالحمید زہری کی بازیابی میں ان کی اہلیہ فاطمہ بلوچ، بیٹی سعیدہ حمید، بیٹا ھمل بلوچ اور بیٹی ماہروز بلوچ کی اذیت ناک جدوجہد کا نتیجہ تھا، عبدالحمید زہری کے بچوں اور اہلیہ نے تین سال تک ان کی بازیابی کے لئے سڑکوں پر لاٹھیاں کھائیں، اذیتیں برداشت کیں۔ اسی فیملی کا آخری فرد، راشد حسین تاحال لاپتہ ہیں۔

آج کل ماسی “بذخاتون” اور دیگر لاپتہ افراد کے اہل خانے کے ہمراہ تخت اقتدار کے شہر اسلام آباد میں سراپا احتجاج ہیں۔ لاپتہ افراد کے لواحقین نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے اپنا علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کیا ہے۔ اس احتجاجی کیمپ میں جبری لاپتہ جہانزیب محمد حسنی کی والدہ، لاپتہ آصف و رشید بلوچ کی ہمشیرہ سائرہ بلوچ، مستونگ سے جبری گمشدگی کے شکار پولیس اہلکار سعید احمد کی والدہ، سجاد و ظہور احمد کے لواحقین سمیت ایک سو سے زائد دیگر لواحقین بھی شریک ہیں۔

جبکہ انسانی حقوق کی رہنما ایمان مزاری ایڈوکیٹ نے راشد حسین سمیت دیگر بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اسلام ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہوئی ہے۔ جس پر عدالتی حکم پر سابق نگران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کی عدالت میں پیشی ہوئی۔ عدالت نے حکم دیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے ورنہ نگران وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے خلاف ایف آئی درج کی جائیگی۔ عدالتی حکم پر سابق نگران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی، راشد حسین اور دیگر لاپتہ افراد کے اہلخانے سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور اس ملاقات میں سرفراز بگٹی نےلاپتہ افراد کے لواحقین کو کھانے کی دعوت دی ۔ جس پر لواحقین نے دعوت سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ وہ اسلام آباد سیر و تفریح کرنے نہیں آئے ۔ انہیں ان کے پیارے چاہئے وہ انہیں دے دیں وہ اپنے گھر بلوچستان واپس جائیں گے۔

لواحقین نے راشد حسین بلوچ کی حوالگی پر متحدہ عرب امارات کے قومی دن کے موقع پر اسلام آباد میں ریلی نکالی اور احتجاج کیا ۔ اور راشد حسین بلوچ کی متحدہ عرب امارات کے حکام کی جانب سے پاکستان منتقل کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ۔ مظاہرین نے راشد حسین کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ اگر وہ کسی بھی جرم کا مرتکب ہوا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ اور جرم ثابت کیا جائے۔

ماں کی بدعا چنگاریوں کی طرح آسمان پر جاتی ہے۔ ڈرو! اس دن سے جس دن ان ماؤں کے دلوں سے آپ کے لئے بددعائیں نکلیں۔ ان کی بددعائیں، حکمرانوں کے شیشے کے محلوں کو راکھ کردیں گی۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔