بدترین جنگ ۔ زباد بلوچ

522

بدترین جنگ
تحریر: زباد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

بد ترین جنگ ،ہاری ہوئی جنگ ہے، اس سے بد ترین جنگ وہ ہے،جو آپ پر واجب تھی اور آپ لڑے نہیں ۔
(برزکوہی)
آج بلوچستان میں کوئی بھی شخص بلوچ قومی تحریک سے وابستگی سے انکاری نہیں لیکن اس خوف کے سائے تلے اس طرح مجبور ہیں کہ وہ عملاً تحریک سے کوسوں دور ہیں ، آخر کب ؟کیا ہم ایسے ہی خوف کے گرد اپنی غلامی کو قبول کرینگے؟

خوف ہر لمحہ انسان کی سوچ ،اس کی صلاحیت اور قوت فیصلہ کو دیمک کی طرح چاٹ لیتا ہے اور انسان کے تمام تر ہنر ماند پڑ جاتے ہیں۔خوف کے عالم میں محفوظ ہونا ممکن نہیں بلکہ دن بدن زیادہ ہوگا۔
تو آپ کیسے دنیا کو باور کرانے میں کامیاب ہونگے کہ پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے بلوچوں کے ساتھ انسانی حقوق کے خلاف جرائم کا عملاً قصور وار ہورہا ہے، کس طرح باقی بلوچوں میں دشمن کے خلاف نفرت اور مزاحمت کا شعور کو اجاگر کرو گے؟ کیا یہ خوف نہیں جو انسان کو بے بس ،خاموش اور نظر انداز کرنے پر مجبور کر رہا ہے؟

کیا دشمن ہماری نظر اندازی ،خاموشی اور بے بسی سے سدھرئیگا؟ کیا یہ ظلم وستم کی داستانیں رُک جائینگے؟

کل جو کچھ بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستانی فوج اور اس کی حمایت یافتہ الشمس اور البدر کے درندوں کے ہاتھوں ماں اور بہنوں کی بے حرمتی اور آبرویزی ہوا،کیا آج بلوچستان میں پاکستانی فوج اور اس کی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے نہیں کر رہے ہیں ؟کیا بنگالی قوم خوف کے ساۓ تلے بے بسی،خاموشی سے نظر انداز کر رہے تھے باقولِ بنگالی لیڈر شیخ مجیب الرحمان کے بنگلہ دیش آزاد تو ہوا لیکن بنگال میں کوئی بنگالی کنواری لڑکی نہیں بچا، تو پھر آج بنگالی قوم شرمندہ ہیں یا قابلِ فخر قوم ہے؟اور آج دنیا بنگالی قوم کو کس نظر سے دیکھا جارہاہے بنگالی قوم اس وقت دنیا کی توجے کا مرکز بن گیا اور آج بنگلہ دیش دنیا میں ایک آزاد اور خود مختار ریاست میں موجود ہے ۔ آج بلکل بلوچ قوم کے ساتھ وہی نار واہ سلوک ہورہا ہے لیکن بلوچ قوم ایسے واقعات کو روایتی اور فرسودہ نقطہ نظر سے نظر انداز کرنے کی کوشش کررہا ہے بجاۓ ایسے دلخراش واقعات سے اپنی قوم کو بیداری اور آگاہی دے بلکے ان واقعات پر خوف ،خاموشی اور بے حسی پر پردہ ڈال کر دشمن کی پالیسی کو تقویت دے رہا ہوتا ہے ۔

آج بلوچ ہولو کاسٹ اور واقعہ کر بلا کی عہد سے گزر رہا ہے اور تاریخ ہر دن کو اپنے آغوش میں لیکر تاریخ رقم کررہا ہے اور جو خوف کے شکار لوگ خاموش تھے اور ڈرپوک تھے وہ آج بھی تاریخ میں نفرت مذمت اور لعنت کے القابات سے یاد ہوتے ہیں اور آج ہر طرف بلوچ قوم کا پاکستانی فاشسٹ فوج کے ہاتھوں قتلِ عام ہورہا ہے
یاد رکھا جاۓ اگر ایسے ہی خوف کے گرد خاموش، بے حسی اور نظر انداز کرنے کا روایتی طریقہ کار اور سوچ ایسے چلتا رہا تو تاریخ میں ایسے جرائم مرتکب ہونے والے برابر شریک ہونگے،بجاے اپنی باری کے انتظار سے آج پہلے سے بلوچ قوم میں یہ سوچ و شعور کو اجاگر کرنا ہوگا کہ ایسے واقعات کو خداراپردے کے پیچھے ڈھپانپنے کی کوشش مت کرو ۔ان تمام واقعات کو انقلابی اور تحریکی نقطہ اور تقاضات کے سانچوں میں رکھتے ہوۓ قدم اٹھانا اور فیصلہ کرنا آج وقت اور حالات کی ضرورت ہے-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔