انقلاب ماہ رنگ کے نام ۔ بیرگیر بلوچ

358

انقلاب ماہ رنگ کے نام
تحریر: بیرگیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

ماہ رنگ بلوچ سنہ 2020 میں اس وقت سب کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئیٹہ میں طلباء کے آن لائن کلاسسز کے خلاف ایک احتجاج کے دوران بولان میڈیکل کالج کے طلباء کو گرفتار کیا گیا تھا اس احتجاج میں ماہ رنگ بلوچ کو بھی پولیس نے گرفتار کیا تھا اور پولیس وین میں بٹھائے جانے تک اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کررہی تھی۔

تمام ممالک کی انقلاب میں عورتوں کا کردار فعال رہا ہے خواہ وہ فرانس کیوبا یا جمہوریہ ایران کی انقلاب ہو ، بر کینا فاسو کی انقلابی سنکارا نے اپنے ملک کیلئے عورتوں کے شانہ بشانہ مزاحمت کرتے ہوئے افریقی سیاسی رہنماؤں کو بھی تبدیلی لانے کیلئے متحد کرنے اور انقلاب میں عورتوں کو ساتھ ملاتے ہوئے افریقہ میں انصاف اور حقوق کی بنیاد رکھی۔

دنیا کے دیگر اقوام کی طرح بلوچ قوم کیلئے بھی ضروری ہیکہ خواتین کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے جدوجہد کرے کامیابی ہمیں اس وقت نصیب ہوگی جب ہم بلوچ خواتین کو مزاحمت میں حصہ دار بنائیں اور دوسری ترقی یافتہ ممالک کی مثال دینے کی بجائے خود مثال بن جائیں ویسے اگر بلوچ قوم کی تاریخ دیکھیں تو اس میں بانڑی بلوچ گل بی بی بلوچ بی بی مہتاب بلوچ بانک کریمہ بلوچ لمہ ڈاڈی بلوچ شاری سمیہ بلوچ اور دوسرے بلوچ خواتین کا کردار ہمارے لئے باعث فخر ہیکہ بلوچ قوم بلوچ خواتین کے شانہ بشانہ مزاحمت کا ہنر رکھتی ہے
مگر اس کیلئے ہمیں اور بھی کوشش کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہر بلوچ کے گھر مرد و زن شانہ بشانہ انقلاب کیلئے اٹھ کھڑے ہوجائے اور ایک ساتھ مزاحمت کی علامت بن جائے۔

بقول کماش بشیر زیب کے عورتوں میں صنف کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے یہ فرق کوئی فرق نہیں ہے عورتیں ہمارے ہمراہ ہے ہمارے جہد کا حصہ ہے ہمارے جنگ کا حصہ ہے عورتوں کے ہمت صلاحیت شعور مردوں کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

حالیہ جدوجہد میں کی کردار نمایاں ہے جب کویٹہ سے اس قافلہ کو لیکر اسلام آباد کی طرف اپنے ہمنواؤں کے ہمراہ روانہ ہوئی تو جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کردی گئی خواہ وہ ایف آئی آر کی صورت میں ہو یا ریاست کے نت نئے حربے ہو ان کی حوصلہ نہیں ٹوٹی وہ پُر ہمت رہے انہوں نے پورے بلوچستان کو جگایا ریاست کے پالے ہوئے غنڈوں کو شکست دے کر اسلام آباد پہنچیں۔

لیکن یاد رکھنا یہ انقلاب ہے اور انقلاب کبھی رکتا نہیں ہے انقلاب دن ہفتوں مہینوں میں نہیں بنتی اس کیلئے سال دو سال بھی کافی نہیں بلکہ اس کیلئے صدیاں بھی گزز جاتی ہے۔

انقلاب کیلئے سردار عطاء اللہ مینگل نے بہت اچھے الفاظ کے ساتھ جرنیلوں کو بتایا تھا کہ” ایک میں لاہور میں آکر آپ کو بتاؤں گا کہ بلوچستان آزاد کیسے ہوئی اور انقلاب کیا ہوتی ہے ”
اگر یہ ظلم نہ رکا تو انقلاب نسلیں لائیں گے حامد میر کیا خواب کہا تھا کہ تم نے جو نفرت عورتوں ذہنوں میں بٹھا رکھی ہے وہ کبھی بھی ختم نہ ہوگی اور یہ نسلوں میں منتقل ہوگی۔

اس جنگ میں ماہ رنگ کی فتح ہوگی ہمارے پیاروں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گے جو جنگ پہاڑوں لڑی جارہی تھی ریاست کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آج یہ جنگ بلوچستان کے علاقوں کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے ریڈ زون ریڈ زون میں لڑی جارہی ہے۔

بقول ماہ رنگ بلوچ کے “ یہ زندگی ہماری ہے یہ وطن ہمارا ہیں ہم ہر اس فرد کے خلاف خلاف ہیں جو ہم پر جبر کرکے حکومت کرنا چاہتا ہیں ہم اس سب کے خلاف ہیں ہم سب کو یہیں کہنا چاہتے ہیکہ بلوچ اپنے وطن کا وارث خود ہیں اور اس کو جینا مرنا وہ طئے کرے گا آپ اپنے بندوق سے ہمیں ختم کر سکتے ہیں لیکن اس نظریہ کو مٹا نہیں سکتے۔”

ابھی بھی وقت ہے ڈرو اِس ہجوم سے ،اگر اس ہجوم نے شہروں سے نکل کر کہیں اور پناہ لینا شروع کیا تو آپ اپنے شہروں میں رہنے کے قابل نہیں رہیں گے
اِستاک و ہمت سگ حوصلہ نا گودیک و ڈیہہ نا
زاکر نا لمہ ماہ رنگ صبیحہ سمّی و سیما
بشخانو خن کل راجے اینو دڑدآن تینا
دا سائرہ بیبو ماہ زیب چھنکا لمہ ضیا نا


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔