امریکہ اور برطانیہ کے یمن میں حوثی اہداف پر حملے

211

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکی اور برطانوی افواج نے جمعے کو علی الصبح بحیرہ احمر میں ’بحری جہازوں پر حملوں کے بعد دفاعی کارروائی‘ کرتے ہوئے یمن میں حوثی ملیشیا کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں۔

اپنے ایک بیان میں جو بائیڈن نے کہا کہ ’ضرورت پڑنے پر وہ مزید فوجی کارروائی کا حکم دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔‘

حوثی ذرائع اور عینی شاہدین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یمن کے کئی شہروں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق حوثی ملیشیا کے سرکاری میڈیا اور اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے بتایا کہ جمعے کو علی الصبح یمن میں ہوائی اڈوں اور فوجی تنصیبات کو بھاری فضائی حملوں نے نشانہ بنایا۔

حوثیوں کے میڈیا نے کہا کہ برطانیہ کے ساتھ امریکہ نے جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دارالحکومت صنعا، حدیدہ اور صعدہ کے آس پاس کے مقامات کو نشانہ بنایا۔

اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے حدیدہ اور صنعا میں بڑے حملوں کی تصدیق کی ہے۔

حوثیوں کے زیر انتظام المسیرہ ٹی وی نے بتایا کہ میزائلوں نے صنعا کے قریب ایک ایئربیس، تعز، حدیدہ اور ابس کے ہوائی اڈوں اور صعدہ کے قریب ایک فوجی کیمپ کو نشانہ بنایا۔

حوثیوں کے نائب وزیر خارجہ حسین العزی نے کہا: ’ہمارے ملک کو امریکی اور برطانوی بحری جہازوں، آبدوزوں اور جنگی طیاروں نے بڑے جارحانہ حملے کا نشانہ بنایا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ اور برطانیہ کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اس صریح جارحیت کے سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔‘

امریکی میڈیا نے بتایا کہ حملوں میں لڑاکا طیاروں اور ٹوماہاک میزائلوں سے حملے شامل تھے۔

بائیڈن نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’آج میری ہدایت پر امریکی فوجی دستوں نے برطانیہ کے ساتھ مل کر یمن میں حوثی ملیشیا کی جانب سے استعمال کیے جانے والے متعدد اہداف کے خلاف کامیابی سے حملے کیے تاکہ دنیا کی سب سے اہم آبی گزرگاہوں میں سے ایک میں بحری جہاز آزادانہ سفر کر سکیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اس کارروائی میں انہیں آسٹریلیا، بحرین، کینیڈا اور ہالینڈ کی حمایت بھی حاصل تھی۔

انہوں نے ان حملوں کو حوثیوں کے حملوں کا ’براہ راست ردعمل‘ قرار دیا، جس میں تاریخ میں پہلی بار اینٹی شپ بیلسٹک میزائل کا استعمال بھی شامل ہے۔

صدر بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ ’حوثیوں کے حملوں نے امریکی اہلکاروں، سویلین میرینرز اور ہمارے شراکت داروں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے (عالمی) تجارت اور جہاز رانی کی آزادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘

امریکی صدر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی اپنے اہلکاروں پر حملوں کو برداشت نہیں کریں گے اور نہ ہی دشمن عناصر کو بحری سفر کی آزادی کو متاثر کرنے کی اجازت دیں گے۔

ان کے بقول: ’میں اپنے لوگوں اور بین الاقوامی تجارت کے آزاد بہاؤ کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کی ہدایت کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کروں گا۔‘

برطانیہ کے وزیراعظم رشی سونک نے بھی ایک بیان میں کہا کہ بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حالیہ حملوں کے جواب میں یمن میں حوثی اہداف کے خلاف جمعے کی صبح امریکی اور برطانوی فضائی حملے ’ضروری اور متناسب‘ تھے۔

ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ سے جاری بیان میں رشی سونک نے مزید کہا: ’عالمی برادری کی جانب سے بار بار انتباہات کے باوجود حوثیوں نے بحیرہ احمر میں حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، لہٰذا ہم نے امریکہ کے ساتھ اپنے دفاع میں محدود، ضروری اور متناسب کارروائی کی ہے جس سے حوثی ملیشیا کی فوجی صلاحیتوں کو کم کرنے اور عالمی جہاز رانی کے تحفظ میں مدد ملے گی۔‘

دوسری جانب حوثی ملیشیا کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی بمباری کے جواب میں کارروائی کر رہے ہیں۔

حوثی 2014 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے یمن کے ایک حصے کو کنٹرول کر رہے ہیں۔

سعودی عرب کا اظہار تشویش

ادھر سعودی عرب نے یمن میں حوثی ملیشیا کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں کے تناظر میں ’تحمل سے کام لینے اور تشدد سے بچنے‘ کا مطالبہ کیا۔

سعودی وزارت خارجہ نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ ریاض حالیہ مہینوں میں یمن کے حوثیوں کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف ہے اور موجودہ صورت حال پر تشویش کے ساتھ گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

وزارت نے مزید کہا کہ ’سعودی عرب بحیرہ احمر کے خطے کی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے جہاں جہاز رانی کی آزادی ایک بین الاقوامی مطالبہ ہے۔‘

یمن میں حوثی ٹھکانوں پر حملوں کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ

امریکی اور برطانوی افواج کی جانب سے یمن میں حوثی ملیشیا کے خلاف حملے شروع کیے گئے حملوں کے بعد جمعے کو تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق تیل سے مالا مال اس خطے میں نئے تنازع کے بعد خام تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق یمن میں تازہ ترین حملوں کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد جمعے کو تیل کی قیمتوں میں دو فیصد سے زیادہ اضافہ نوٹ کیا گیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے موجود صورت حال میں کہ ڈبلیو ٹی آئی 75 ڈالر سے تجاوز کر سکتا ہے جب کہ برینٹ 80 ڈالر سے اوپر جا سکتا ہے۔