اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر دھرنے پر بیٹھے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کو ہراساں کرنے اور انتظامی کی جانب سے دھرنے کے شرکاء کو ہٹانے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے لواحقین کو پریس کلب کے سامنے سے ہٹانے سے روک دیا ہے-
عدالت نے حکم دیا کہ بلوچ مظاہرین کو ہراساں نہ کیا جائے، دورانِ سماعت پٹیشنر کی جانب سے وکیل عطاءاللہ کنڈی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
درخواست گزار کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ اداروں کی جانب سے لواحقین کو ہراساں کرنے کی متعدد واقعات پیش آئے ہیں جہاں ادارے حملہ آور ہوکر کبھی اسپیکر اٹھا لے جاتے ہیں تو کبھی کمبل اور سردی سے بچنے کے لئے سامان روکے جاتے ہیں لواحقین کے خلاف دوبارہ آپریشن شروع ہونے کا خدشہ ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی آپریشنز کو 5 جنوری کو ذاتی حیثیت میں عدالت طلب کرلیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ویسے تو لوگ شاہراہ دستور پر تین تین ماہ دھرنا دیتے ہیں، عدالتوں کو گالیاں دیتے ہیں، یہاں بڑے بڑے احتجاج ہوئے اور مظاہرے بھی ہوئے، عوام کے حقوق کو یہاں کوئی ماننے کو تیار نہیں لیکن پرامن بلوچ مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے جو قانونی غلط عمل ہے-