انسانی حقوق کے عالمی دن پر تربت میں حق دو تحریک بلوچستان کے زیراہتمام بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ کے تعاون سے ایک ریلی تربت پریس کلب سے نکالی گئی جس میں سیکڑوں کی تعداد میں لاپتہ افراد کی فیملی سے تعلق رکھنے والے خواتین و بچے شریک تھے۔
ریلی کے شرکا نے لاپتہ افراد کی تصاویر اٹھائے شھید فدا چوک تک مارچ کیا اور ریاستی مظالم کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ ریلی کی قیادت حق دو تحریک کے بانی رہنما مولانا ھدایت الرحمن، حسین واڈیلا، صبغت اللہ شاہ جی اور شھید بالاچ مولا بخش کی بہن نجمہ بلوچ نے کی۔
ریلی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے حق دو تحریک کے بانی مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ اللہ کا آفاقی قانون ہر انسان کو عزت اور آزادی سے زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے مگر بدقسمتی سے 1948 سے آج تک اس ریاست میں بلوچ صرف لاش اٹھاتی آرہی ہے، بلوچستان پر جبر اور ظلم کا ایک الگ قانون نافذ کیا گیا ہے بلوچستان کو پاکستان کے دیگر علاقوں سے ریاست نے مختلف بناکر تشدد کا الگ طریقہ اپنایا ہے پشاور اور پنڈی میں خودکش ہوتے ہیں مگر اتنی سختی وہاں نہیں کی جاتی، بلوچستان میں ہر چوکی اور چیک پوسٹ پر بلوچوں سے ان کی شناخت پوچھا جاتا ہے، رات تین بجے ہمارے گھروں پر چھاپہ مار کر ہماری ماؤں بہنوں کی بے عزتی کی جاتی ہے، ہر قدم ہر ہمارے تہذیب اور کلچر کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
ریاست ہر قدم پر جتاتی آرہی ہے وہ ہمارا دشمن ہے لیکن دشمن کی حیثیت سے ہماری ثقافت اور کلچر کا ابھی تک پتہ نہیں ہے، ریاست اور ان کے اداروں کی بلوچ دشمن حرکتوں سے پاکستان مستحکم نہیں ہوسکتا، ان رویوں سے بنگلہ دیش الگ ہوا، بنگالیوں کو بلوچوں کی طرح ریاست نے تشدد اور نفرت کا نشانہ بنایا انہی رویوں سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا، بنگلہ دیش بنانے میں کسی بلوچ کا ہاتھ شامل نہیں تھا اس کا ذمہ دار پنجاب کے حکمران، فوجی جرنیل اور فوجی آپریشن تھے۔ ریاست کے اصل حکمران جسٹس حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کا اگر مطالعہ کرتے تو بلوچستان کو بنگلہ دیش کی طرح نہیں لے تھے۔
انہوں نے کہا کہ آج سوشل میڈیا کا دور ہے سیاسی شعور کا دور ہے بندوق کی زور پر کسی قوم کو فتح نہیں کیا جاسکتا، یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بلوچستاں کوئی مفتوحہ اور مقبوضہ خطہ نہیں بلوچستان کے لوگ اس ملک میں غلام تھے اور نا ہی غلام بننا پسند کریں گے ہم اس ریاست کے شھری ہیں مگر تیسرے درجہ کا شہری نہیں ہوں گے۔ ریاستی حکمرانوں نے کلبھوشن کو مجرم بناکر وی آئی پی کا درجہ دیا ایک مجرم کو بچانے کے لیے آئین میں ترمیم کی جاتی ہے مگر بلوچوں کے قتل کے لیے آئین توڑا جاتا ہے۔
حق دو تحریک کے سربراہ حسین واڈیلا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی بلوچ کو دبایا جائے گا، تکلیف دی جائے گی تو ہم زندہ باد کا نعرہ نہیں لگائیں گے، غاصب ریاست مظلوموں کے اتحاد کو تار تار کرتا ہے ریاستی غضب ناکی ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے، جب تک ہم اتحاد اور یکجہتی نہیں دکھائیں گے ہماری طاقت منتشر رہے گی۔
انہوں نے کہاکہ بالاچ زندہ ہے اور زندہ رہے گا بالاچ کی میت نے ثابت کردیا کہ وہ انقلاب کا داعی تھا اس نے بلوچوں کو کیچ سے شال تک یکجا کیا، بالاچ کی ماں کو رونا نہیں چاہیے کیوں کہ ان کے لیے پورا بلوچستان اٹھ گیا ہے، انہوں نے کہاکہ جبر کے زور پر کسی قوم کو زیر نہیں کیا جاسکتا ورنہ امریکہ ویت نام پر ابھی تک قابض ہوتا، اپنی جدوجہد کی وجہ سے بلوچ کبھی ختم نہیں ہوں گے اور نا ہی تحریک کمزور ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ 14 دنوں تک کیچ میں ایک میت جدوجہد کرتی رہی 15 منتخب نمائندے موجود تھے مگر ان میں سے کوئی ایک دن بھی نہیں آیا ایسے لوگوں کو جو بکاؤ مال ہیں انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچستان کے ساحل وسائل اس وقت کارآمد ہون گے جب بلوچ بچے گا، ہمیں بہ حیثیت قوم مل کر قومی تحفظ کے لیے جدوجہد کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس ریاست میں بلوچوں کو غدار اور ملک کا دشمن کہا جاتا ہے لیکن جو ادارے اور لوگ ملک کا قانون نہیں مانتے لوگوں کو ماورائے آئین اغوا اور قتل کرتے ہیں وہ اصل دہشت گرد اور اس ملک کے مجرم ہیں ہیں انہیں سزا دی جائے، انہوں نے کہاکہ آپس میں اتحاد و اتفاق اور اپنی یکجہتی کے زریعے بلوچ کو تحفظ دیا جاسکتا ہے اس لیے ہم سب کو الگ الگ خانوں میں بٹنے کے بجائے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے بصورتِ دیگر بلوچ شناخت کی جنگ میں اہنا وجود ہار جائیں گے۔
ریلی سے حق دو تحریک کے رہنما صبغت اللہ شاہ جی، حق دو تحریک پنجگور کے صدر ملا فرھاد، خواتین سیکرٹری حق دو تحریک اور بالاچ مولا بخش کی بہن نجمہ بلوچ نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچوں کا آپس میں اتحاد و اتفاق اور یکجہتی منزل پر پہنچنے کی ضامن ہے، ادارے بلوچوں کے ماورائے آئین و عدالت قتل میں شامل ہیں وزرائے اعظم اور صدور مملکت سے لے کر بیوروکریسی تک قید رہے سزائیں کاٹیں مگر کبھی کسی جنرل اور کرنل کو گزند نہیں پہنچا، بلوچوں کے ماورائے آئین و عدالت قتل اور مسخ شدہ لاشیں پہنچانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
انہوں نے کہاکہ تشدد کے زریعے خوف پھیلانے کی کوشش ناکام ہوئی ہے کیچ سے شال تک شھید بالاچ مولا بخش ایک توانا آواز بن کر بلوچ یکجہتی کا سمبل بن گیا ہے اس اتحاد و اتفاق اور طاقت کو اب کوئی نہیں توڑ سکتا۔