کیچ تا شال لانگ مارچ، مزاحمت کا استعارہ
تحریر: سعید یوسف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب وہ ریاستی ظلم اور جبر کے خلاف اٹھتے ہیں تو وہ سماجی سیاسی تہذیبی اور مذہبی جمود کو توڑکر سماج میں ہمہ جہتی حرکت پیداکرتے ہوئے اپنی قومی بقاء اور زندہ رہنے کی جدوجہد میں ناقابل تسخیر بن جاتے ہیں وہ زہنی آزمائشوں روح اور نفسیات پر ہتھوڑے کی ضرب جیسے زخموں دکھوں درد اور تکلیفوں کا سامنا کرنے کے باوجود انہیں عبور کرکے فیصلہ کن جدوجہد کے لے شعوری طور پر تیار ہوجاتے ہیں جمود ٹوٹ جاتی ہے خاموشی چیخ اٹھتی ہے راستے اور پگڈنڈیاں شاہراہ انقلاب بن جاتے ہیں حرکت اور جمود کی بیچ ایک کشمکش اور تناؤ پیدا ہوتی ہے سطعی ومصنوعی آوازیں رد ہوجاتی ہے اور ایک شعوری اور حقیقی جدوجہد کا آغاز ہوجاتاہے جس کا شعور ی مظاہرہ کیچ سے اٹھنے والی بالاچ بلوچ کے اندوہناک قتل کا ردعمل ہیں جب وہ درداور چیخیں کوہ چلتن سے ٹھکر اتی ہوئی شال کی آبادی میں گھل مل جاتے ہیں تو ریاست کے ایوان لرزجاتے ہیں ان کے اداروں میں تذبذب اور بوکھلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے ان کے لب و لہجہ اور بیانیہ کا حلیہ بگڑ جاتاہے ہر قسم کے ریاستی ہتھکنڈے اس پر امن تحریک کے سامنے ڈھیرہوجاتے ہیں لیکن یہ لانگ مارچ کرنے والے ہار نہیں مانتے آگے بڑھتے ہیں مطالبات رکھتے ہیں جس طرح وقت کی رفتار تیز ہوتی ہے بلکل اسی طرح نجات اور مزاحمت کا سفربھی وقت کی رفتار اور چال سے آگے بھڑتی ہے۔
میں نے جب شال میں بلوچ خواتین کا سمبولک جدوجہد کو اجاگر پایا اور جوق جوق در جوق بلوچ عوام کی شمولیت ان کی غم و غصہ اور احتجاج کو دیکھا تو مجھے زار روس کے خلاف پاویل کی ماں اور روسی خواتین کا کل کردار یاد آئی میں نے اس جدوجہد میں الجزائز کی خواتین کی شعوری کردارکو دیکھا طالب علمی کے زمانے میں جب میں میکسم گورکی کی ناول پڑھتا تھا تو مجھے جو چیز اس سے متاثر کرتا تھاوہ پاویل ولاسوف کی ماں تھی جب اس کے بیٹے کو گرفتار کرکے سائیبریا بھیجا جاتاہے تو اس کی ماں اس کی تقریر کی کاپیاں چھپواکر عوام میں بانٹتی تھی وہ پاویل ولاسوف کی تقریر سایئکلو سٹائل کراتی ہے سٹیشن پر جاتی ہے گھروں اور دفتروں میں جاتی اس کی تقریر بانٹتی ہے جب پاویل ولاسوف کو زار روس کے سپاہی مارتے ہیں ٹھڈے مارتے ہیں بال نوچتے ہیں تو پاویل ولاسوف بے خوفی کے ساتھ اپنی الفاظ پہ گرفت مضبوط کرتی ہے مجھے اس کی یہ لافانی الفاظ بہت انسپائر کرتے ہیں کوئی سچ کو دبانہیں سکتا حتی کہ خون کا سمندر بھی نہیں۔بلکل اسی طرح ظلم کے خلاف اٹھنے والی اس رد عمل کواس مقصد کو اس منزل کو بلوچ فرزندوں کے پانی کی طرح بہا یا جانے والے لہو سے دبایانہیں کیا جاسکتاختم نہیں کیا جاسکتابلکہ یہ لہو اس کی ایندھن ہے یہ جدوجہد کی سانس ہے یہ جدوجہد کو آئل کرتی ہے۔
دنیا میں کئی بھی تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو خواتین کا کردار انتہائی پر اثر اور اہمیت کا حامل رہاہے وہ چاہے الجزائر ہو یا ویت نام زار روس کے خلاف ہو یا جنرل ڈیگال کے وہ کوریا ہو یا کردستان یا بنگلہ دیش وہ مصر ہو یا کولمبیا وہ کیوبا ہو یا بلوچستان ہر مظلوم اقوا م کی تحریکوں میں خواتین کاکردار مشعل راہ ہے آج بلوچستان میں داد شاہ کی بہن اور چاکر کی بہن بانڑی کی جدوجہد میں کئی اور بانڑی شامل ہیں یہ دھرتی بانجھ نہیں اس کی کھوکھ بانجھ نہیں کامریڈ ماہ رنگ بلوچ ہویا بانک سمی دین بلوچ جنھیں یہ فکر ان کی اسلاف سے وراثت میں ملی ہے یہ فکر اس سرزمین کی فکر ہے اس آدرش کے پیچھے خون کا ایک سمندر ہے یہ نیشنلزم اور قوم دوستی کے آدرش ہے یہ واک و اختیار کے قربان گاہ کی وراثت ہے جو ان کے جان نشین ہے وہ بانک صبیحہ ہو یابانک شلی بلوچ اور دیگر بلوچ بہنیں جو اس مادی تاریخی اور ابدی سچائی کے لئے سامراجی ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکے ہیں جو ریاستی دھمکیوں ایف آئی آراور اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود نہ وہ اپنے پیاروں کی شہادت یا گمشدگی کے درد کو لے کر نہیں اٹھی ہے بلکہ وہ بلوچستان کا زخم بلوچستان کا دکھ ہزاروں شہداء کا درد ہزاروں جبری گمشدگی کا شکار فرزندوں اور غلامی اور محکومی کا درد لئے بلوچ گلزمین کے لئے اٹھے ہیں جو درخشان اور قابل ستائش ہے۔
ریاستی جبر و قہرجبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں بلوچ فرزندوں کے قتل عام کے خلاف کیچ سے شال تک پر امن لانگ مارچ گزشتہ تئیس دنوں سے ایک منظم اور اٹوٹ تسلسل کے ساتھ رواں دوان ہیں جب کہ گزشتہ تین دنوں سے شال کے یخ بستہ سردی اور نقطہ انجماد کے پارہ میں بلوچ خواتین جبری گمشدہ افراداور شہداء کے لواحقین اور بلوچ عوام سریاب روڈپر چار دنوں سے دھرنا دیتے ہو ئے جب اسلام آباد کے لئے روانہ ہوجاتے ہیں تو بلوچ عوام انہیں الوداع کرتے ہوئے ان پر گل پاشی کرتے ہیں انہیں والہانہ عقیدت کے ساتھ رخصت کرتے ہیں یہ مناظرجب کیمرے میں قید ہوجاتے ہیں تو ایک تاریخ بن جاتے ہیں اگرچہ اس وسیع تر قومی وعوامی لانگ مارچ کا فوری سبب کیچ میں بالاچ بلوچ سمیت دیگر تین افراد کی فیک انکاؤنٹر میں قتل ہیں لیکن اس تحریک کی شدت اور ابھرنے کی بنیادی وجہ نوآبادیاتی تسلط اور جبر ہے جوبلوچ وطن میں 1947 سے تادم جاری ہیں ریاست بغیر وقفہ اور ٹہراہوکے بلوچ وطن کو یہاں کے دیس وادیوں کے لئے جہنم بنایاہوائے حالیہ دہائی میں 2006 سے لے کر اب تک بلوچ قومی جدوجہد کو کچلنے کیلئے ریاست اپنی ڈاکٹرائن میں جبری گمشدگیوں مارو اور پھینکو پالیسی سمیت جعلی مقابلوں میں نہتے اور پہلے سے جبری گمشدگیوں کی فہرست میں شامل بلوچ فرزندوں کی قتل عام کے سلسلے میں تیزی لائی ہے جس سے ہر دوسرا بلوچ گھر متاثر ہے کسی کا بیٹا کسی کی بھائی کسی کی باپ یا تو سالوں سے جبری طور پر لاپتہ ہیں یا تو انہیں شہید کردیا گیاہے حالیہ احتجاج کے سرخیل اور روح رواں زیادہ تر بلوچ خواتین اور مائیں ہیں جن کی ہمراہی میں بالاچ بلوچ کی والد اور معیار بلوچ اور ایسی مائیں بھی شامل ہیں جو اپنے اپنے جگر گوشوں کی تصاویرہاتھ میں لئے ظلم اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کا استعارہ بن کر بے خوفی سے سرشار اور فولادی عزم کے ساتھ ریاست کے ظالمانہ اور خونی ہتھکنڈوں کے خلاف تازہ دم جذبہ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ شاید ان کی شنوائی ہو شاید انہیں کوئی انصاف دے سکے یاکوئی ان کی درد اور کرب کی روئیداد سن سکے لانگ مارچ میں شامل ایسی مائیں ہیں جن کی پاؤں میں کوئی جوتی تک نہیں جن کے پاس پہننے کے لے گرم کپڑے نہیں جن کے پاس لانگ مارچ میں شریک ہونے کے لئے نقدی رقم نہیں وہ ادھار لے کر آتے ہیں لیکن وہ اپنے بیٹوں بھائیوں اور شوہروں کی بازیابی کی ازیت کا درد لئے آگے بڑھ کر انصاف کی دیوی کو تلاش کرتے ہیں کوئی اپنی بیٹے کی تصویر ہاتھ میں لئے ا حتجاج میں شامل ہیں کسی کے ہاتھ میں اس کے باپ کی گمشدگی کا تصویر ایک نوحہ بن کر ریاست کو للکارہی ہے منگچر میں ایک بہن اپنی بھائی کے بازیابی کے تقریر کے دوران بے ہوش ہوکر بے ساختہ زمین پر گرتی ہے تو دوسری بہن اسے سہارا دیتے ہیں تو جہاں کوئی ماں اس احتجاج میں اپنی بیٹے کی بازیابی کے لئے چیخ رہی ہیں جہاں اس احتجاج میں میں عمر رسیدہ بوڑھے شامل ہیں وہاں کم سن معصوم بچے بھی شامل ہیں جن کے معصوم ہاتھوں میں ان کی بزرگوں کی گمشدگی کی تصویرایک سوالیہ نشان بن چکاہے وہ بغیر کسی ڈر خوف اور رکاوٹ کے مزاحمتی جدوجہد کو ایندھن دیتے ہوئے آگے بڑھ کر ریاستی ظلم و بربریت کوبے نقاب کرتے ہوئے احساس اور روح پر لگے ایک ایک زخم اور ایک ایک دکھ اور کرب کا حساب مانگ رہے ہیں شہداء کا لہو اب ایک طغیانی بن کرریاست کی غیر انسانی رویوں کو بے نقاب کررہی ہے لیکن یہ اس تحریک کا ابتدائی نقطہ اور پروگرام نہیں اور نئی بلوچستان میں کسی بلوچ فرزند کا اولین قتل ہے بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں کی مارو اور پھینکو کی ریاستی پالیسی کے خلاف ایک گونج ہے یہ شور نہیں قومی شعور ہے۔
اگر چہ بالاچ کی شہادت نے پہلے سے موجودہ غم غصہ اور فرسٹیشن میں شدت پیداکرکے سیاسی بیداری کے اس ماحول کو مزید منظم اور متحرک کیا اور کیچ میں بلوچ خواتین کے بڑے پیمانے پر احتجاج نے مزاحمت کی اس لہر کو مزید پر حوصلہ او پر طاقت بنادی
بالاچ کی شہادت نے تمام بلوچوں کے درد کے بندھن کو ایک اجتماعی درد کے بندھن سے جوڑ دکر رکھ دیا جو صدیوں سے جاری اس تحریک کا معراج ہے کیچ سے شال تک ہر کوچہ دمگ سے بلوچ عوام اس احتجاج میں ہر اول دستہ کے طور پر شامل رہے اور ریاست کے بربریت کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں قتل عام کے خلاف بلوچ خواتین ہر اول قیادت کررہی ہے بلوچ بہنوں اور ماؤں کی یہ نمائندگی اور قیادت ان ان روایتی پارٹیوں کے منہ پر ایک ایسا تھپڑہے جن کی سیاست مسلسل مفادپرستی اور ووٹ اور الیکشن کے گرد اب میں غرق ہے جو اپنی بیانیہ اور منشو میں تو بلوچستان اور بلوچ عوام کی بات کرتے ہیں لیکن وہ ریاست کی بربریت سے جنم والے اس ازیت کوش نفسیاتی گھاؤ کے خلاف زبان بندی کو ترجیح دیکرگھٹن محسوس کررہے ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قوم دوستی کی جدوجہد کا پہیہ معجزات پہ نہیں چلتے لفاظیت سے آگے نہیں بڑھتی کٹھ پتلی اسمبلیوں کا حصہ بن کر اس درد کا مداوا نہیں کیا جاسکتا بلوچستان کا یہ زخم اقتدار کی حصہ داری سے مندمل نہیں ہوسکتے ماؤں کے پرنم آنکھوں میں بہتے آنسووں کو ڈھکوسلہ نعروں سے نہیں پونچا جاسکتاگورنر، سینٹر اور وزیر بن کر بلوچ قوم کا مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا بلوچ شہداء کی قربانی اور خون کا تقاضاء یہ نہیں اور نہ ہی یہ متبادل ہے کہ کوئی بلوچ وزیر اعلی ہو بلکہ اس سے ہم نے اپنی تذلیل غلامی اوربربادی میں اضافہ دیکھی ہے مصلحت پسندی اور اقتدار کی شراکت یا حصہ داری سے غلامی کی زنجیریں توڑی نہیں جاتی بلکہ یہ غلامی کی بیڑیوں کومضبوط کرنے کے اوزار اور حربہ ہے بلکہ یہ کمپرومائز اور تیسرے درجہ کے یہ سمجھوتہ بازی اور منافقت افیوں کی طرح بلوچ سماج بلوچ نیشنلزم اور اجتماعی قومی شعور کے لئے جان لیوا ہے آج ہماری مائیں اور بہنیں اور بیٹیاں اپنی پیاروں کی بازیابی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں لیکن قوم پرستی کے دعویدار پارٹیاں پارلیمانی ٹکٹیں بانٹ رہی ہیں انتخابی مہم چلارہے ہیں وہ کھبی قوم دوست نہیں ہوسکتے جو اپنوں کے درد میں ان کے ساتھ شامل نہ ہو آج بھی ان کے لئے سیاست کا مقصد دولت استحصال اور اقتدار بن چکاہے جو بے ضمیر اور غیر قومی سیاسی سرگرمیوں کا بازار مصر لگایا ہوائے جو اقتدار اور عہدوں کے سودے میں اپنی قوم وطن اور شناخت سے لاتعلق ہوگئے ہیں جو ضمیر فروشی اور کاسہ لیسی کو سیاست کا معیار بنا چکے ہیں جو کالونائزر کے ساتھ وفاداریوں کو اپنا پیشہ سمجھ چکے ہیں وہ ان زخموں اور دکھوں کے اس ذہنی ازیت سے مکمل بے پرواہ ہیں جیسے وہ اس خطے کے باسی نہیں دوسری طرف ریاست اس احتجاج سے اس قدر خوف زدہ ہوچکاہے۔
کہ تربت سے لے کر شال تک ہر علاقوں میں اس قافلہ کو روکنے کے لئے جگہ جگہ راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے لانگ مارچ کوسبوتاژکرنے اور بلوچ توار کو دبانے کی حربہ استعمال کرتے ہیں بوکھلاہٹ اتنی کہ لانگ مارچ کا شال میں آمد سے ایک دن پہلے نام نہاد ریڈ زوں کو چاروں طرف سے کنٹینر لگاکر سیل کردیا جاتاہے لیکن کیاکنٹینر یا باڑ لگانے سے یہ آواز رک سکتاہے کیا کسی کے جسمانی قتل سے یہ تحریک ختم ہوسکتی ہے نواب اکبر بگٹی کو شہید کرکے اس کے تابوت پر تالا لگانے سے کیا اس کی فکر نظریات پر تالا لگا جانا ممکن تھا شہید غلام محمد کو شہید کرنے کے بعد کیا اس فکر کی آبیاری رک سکی زاہد بلوچ زاکر مجید اور ہزاروں جبری گمشدہ افراد کو زیر زمین ازیت گاہوں میں سلاسل کرکے کیایہ جدوجہد ختم ہوا سینکڑوں بلوچ فرزندوں صحافیونں دانشوروں طلباء اور سیاسی ایکٹوسٹ کی شہادت سے جدوجہد میں کوئی ٹہراہو یا وقفہ آگیا کیا فکر خیر بخش کومٹانے کی کوششیں بار آور ثابت ہوئی ;ہیں کیا قربانی کا یہ نذر اور بلیدان ختم ہوسکا یقین جاننے آج بھی خیر بخش اور غلام محمد کا روح بلوچستان میں فتح یاب ہوتاہوانظر آرہاہے تمام تر ریاستی تشدد کی پالیسیوں کی باوجود بلوچ قوم ایک آزاد زندگی اور آزاد فضاء میں آنکھ کھولنے کے اس پل صراطی جدوجہد کا شعوری حصہ ہے ہماری مائین بہنیں بوڑھے کسی عقیدہ رنگ اورزبان سے ماورا قومی بقاء اور شناخت کی اس جدوجہد میں ہر اول یکجہتی کے ساتھ حصہ دار ہے ان کے ساتھ ہم گام ہونا نہ صرف قومی غیرت و شعورکا تقاضا ہے بلکہ ہمارا قومی سیاسی سماجی فرض ہے کیا ہمارا خون اتنا سفید ہوچکاہے کہ بلوچستان میں گرتے لاشوں پر ہماری نظر کم اور الیکشن کمپئن پر زیادہ ہے اس خون آشام حالات میں بلوچ و بلوچستان کے نام پر جنم لینے والے پارٹیوں کے ڈسکشن کلبوں میں گفتگو کا معیار اس حد تک گراوٹ کا شکار ہیں کہ الیکشن کا سوچ رہے ہیں کہ کیا ہوگا کتنی سیٹیں جیتیں گے کس کے ساتھ ایڈ جسٹمنٹ کرین ہم جس شاندار تاریخ کا دعویدار ہے کیا اس تاریخ کا تقاضا یہی ہے کہ ہم کالونائزر کے سامنے جھک جائیں اس کی وحشت اور زور آزمائی کے خوف سے زبان بند کریں ہیگل نے کہا تھا کہ تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا تو پھر اس کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ڈاکٹر چے نے کہاتھا کہ قبرستان میں وہی لوگ بھی دفن ہیں جو موت سے خوف زدہ تھے کیا ہم غلامی قبول کرکے اپنی اجتماعی ڈیتھ وارنٹ پر دستخظ کریں کیا ہم ظلم کے خلاف اپنی رائے کا اظہار نہ کرے
کیا ہم چندسیٹوں کی خاطر گونگت گے اور بہرے بن کر جان کی امان پائیں۔
یاد رکھئے تحریکین جب اٹھتی ہیں تو اپنی راستہ خود صاف کرتی ہے وہ بند بھی ٹوٹ جاتے ہین جو تحریکوں کے لئے بطور بیریئر کھڑا کیا جاتاہے ہم جس سرزمین کے دیس وادی ہیں یہ خطے میں انقلابی و مزاحمتی سیاست کاعلمبردارجغرافیہ رہاہے مزاحمتی سیاست ہمارے خون کی رگوں اور ریشوں میں رچی بسی ہے یہاں دنیا بھر کے حملہ آور آئے انگریز بھی آئے جس کا دعوی تھا کہ اس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں آتا لیکن اس گلزمین کے باسیوں نے ان کے خلاف مزاحمت کی المیہ ہے کہ آج بلوچ سماج کو ڈی پولیٹیسائز کیا جارہاہے نظریاتی سیاست کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بلوچ سماج سے اس کی جڑیں کاٹی جارہی ہے حالانکہ بلوچ قوم کے پاس مزاحمتی سیاست کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں غلام قوم کے پاس مزاحمت و احتجاج واحد قوت ہوتی ہے جس کی نیوکلیس پر وہ اپناموقف اپنا پوائنٹ آف ویو رکھ سکتاہے دکھ ہے کہ یہاں سیاست کو صرف کٹھ پتلی اقتدارپیسہ والے سردار و نوابوں کی میراث و موروثیت تک محدود کیا جارہاہے اور اس نظام میں جو اپوزیشن نمائندے کے طور پر خود کوظاہر کرکے یہ کریڈٹ لینا چاہتے ہیں قوم کے سامنے ہیرو بننے کی ریس میں ہوتے ہیں لیکن دراصل ان کی اپوزیشن بھی بانجھ مفلوج اور گماشتگی پر مبنی ہوتی ہے ماضی میں بعض پارٹی جو ماسز میں موجود تھے یا انہیں وسیع تر عوامی حمایت حاصل رہاہے اس کی بھی وجہ مزاحمتی سیاست تھی ان کا ایک قد و کاٹھ تھا آج وہ دوسروں کے پیچھے سرجھکا کر پناگاہیں ڈھونڈ رہے ہیں ان کا اپنا سائبان منشور و نظریہ کئی پیچھے چلے گئے ہیں وہ چالبازی اور حکمت عملی کے نام پر مزاحمتی سیاست کوخیر باد کرکے اس پر ٹکی ہے کہ سیاست ایک مخصوص دائرہ یا امپریلسٹ کے تابع رہ کر کی جاسکتی ہے لیکن سائنٹیفک سیاست اس کی نفی کرتی ہے یہ صرف مغالطہ ہے مکاری ہے جھوٹ ہے غلامی قبول کرنے کی مترادف ہے نظریاتی سیاست کا یہ خلاء ان پلیٹ فارم پر شدت سے موجود ہے جو قوم پرستی و نظریاتی سیاست کے دعوی کرتے ہوئے سامراج کے چھتری تلے عافیت ڈھونڈرہے ہیں حیرانگی ہوتی ہے کہ یہ دنیا کی کونسی قوم پرستی ہے جس کے نام پر بلوچ قوم کو بہکا جارہا ہے سائنسی یقین کی عدم موجودگی جیسے بانجھ سیاست کو رواج دینے میں یہ کیوں اپنے حصہ غیر محسوس انداز میں ڈال رہے ہیں مزاحمتی سیاست کے لئے جوحوصلہ اور جراءت درکار ہوتی ہے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مزاحمتی سیاست کا راستہ ابتداء سے انجام تک خاردار ہوتاہے مشکلات تکالیف اور قربانیوں کا راستہ یہاں کسی پر پھول نچھاور نہیں کیا جاتایہ کانٹوں کا سیج ہے لیکن منزل کا راستہ یہی ہے خاردار رستہ ہم یقین سے کہ سکتے ہیں بدترین جبر بھی قوموں کی مزاحمتی عمل کو مکمل طور پر مفلوج نہیں کرسکا اس کرہ ارض پر اکیلے ہم غلام نہیں دنیا کے انقلابات کی تاریخ گواہ ہیں کہ مزاحمت ہی میں بقاء ہے مزاحمتی سیاست یا احتجاجی عمل کے بغیرکسی بھی قوم کو فناء ہونے میں دیر نہیں لگتی ریڈ انڈین کی تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ جو قومیں اپنی شناخت وقار واک و اختیار اور جغرافیہ پر سمجھوتہ کرتے ہیں وہ مٹ جاتے ہیں ان کا وجود ختم ہوتا ہے وہ تاریخ کے پنوں میں نہیں سامراج کے کوڑے دانوں میں آلودہ اور تلف ہو جاتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔