کوہ سلیمان کا بلوچستان سے رشتہ – عزیز سنگھور

343

کوہ سلیمان کا بلوچستان سے رشتہ

تحریر: عزیز سنگھور

دی بلوچستان پوسٹ

کوہ سلیمان بلوچ سرزمین تھی اور رہے گی۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ حقیقت کبھی بھی چھپ نہیں سکتی۔ آج کوہ سلیمان کے دامن میں آباد، ڈیرہ جات کی بلوچ قوم نے یہ ثابت کرکے دکھایا کہ ان کا جینا اور مرنا بلوچستان کے ساتھ ہے نہ کہ پنجاب سے ۔

اس عمل کا اظہار اس وقت سامنے آیا جب بلوچستان کے علاقے تربت سے نکلنے والا جبری گمشدگی اور جعلی مقابلوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کا لانگ مارچ ڈیرہ غازی خان میں داخل ہوا۔ ڈیرہ جات کی بلوچ عوام نے نہ صرف لانگ مارچ کا بھرپور استقبال کیا بلکہ پنجاب پولیس کی غنڈہ گردی کا مقابلہ بھی کیا۔ جس کی پاداش میں کوہ سلیمان کی بیٹیوں اور بیٹوں کو پولیس تشدد اور قید کا سامنا کرنا پڑا۔

آخری اطلاعات تک لانگ مارچ کے شرکا ڈیرہ غازی خان سے تونسہ شریف میں داخل ہوگئے ہیں۔ جہاں لاکھوں بلوچوں نے ان کا استقبال کیا اور یہ استقبال ایک ریلی کی شکل میں تھی۔ “مکران سے ڈی جی خان! بلوچستان بلوچستان”، ” تم مارو گے ہم نکلیں گے”!، کے نعرے گونج رہے تھے۔ لانگ مارچ کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کررہی ہیں۔ تونسہ شریف کے بعد لانگ مارچ کا اگلا پڑاؤ ڈیرہ اسماعیل خان ہونگا۔

اس عمل سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ کوہ سلیمان کے باسی پنجاب کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے بلکہ وہ ماضی کی طرح اپنے مادر وطن بلوچستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں کوہ سلیمان کے مکینوں نے بلوچستان سے آنے والی ماؤں اور بہنوں کا پرتپاک استقبال کیا اور ان کے حق میں ریلی بھی نکالی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ عمل گریٹر بلوچستان کی جانب بڑھنے کا ایک عوامی مینڈیٹ ہے۔ یہ بلوچ سرزمین سے ان کا ایک خونی رشتہ ہے۔ یہ بلوچ نیشنلزم کی اجتماعی شکل ہے۔ یہ بلوچ سرزمین کی تقسیم کے خلاف ایک آواز ہے۔

ڈیرہ جات ایک تاریخی بلوچ سرزمین ہے۔ جہاں مختلف بلوچ ریاستیں قائم تھیں۔ ڈیرہ جات کو ون یونٹ کے خاتمے کے بعد صوبہ بلوچستان کے بجائے پنجاب میں شامل کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے ڈیرہ جات کے میدانی علاقوں میں آباد بلوچ اپنی زبان سے ناآشنا ہورہے ہیں۔ ان کی مادری زبان پر سرائیکی اور پنجابی زبان کا غلبہ ہے۔

ڈیرہ جات کی آبادی جو کوہ سلیمان کے دامن میں واقع ہے۔ وہ آج بھی بلوچی بولتے ہیں۔ انہوں نے بلوچ کلچر اور ثقافت کا دامن نہیں چھوڑا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی قومی شناخت بلوچ ہونا چاہیے۔ان کی ہمدردیاں اور مطالبہ یہ ہے کہ وہ بلوچستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔

ڈیرہ جات کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ یہاں دودائی بلوچوں کی ریاست قائم تھی۔ دودائی بلوچوں کا شمار لاشار میں ہوتا ہے۔ میر حاجی خان بلوچ نے اس سلطنت کا نام ڈیرہ جات سے بدل کر اپنے فرزندوں کے نام پر مختلف ریاستیں قائم کردیں۔ انہوں نے اپنے فرزند غازی خان کو ڈیرہ غازی خان ،اسماعیل خان کو ڈیرہ اسماعیل خان،فتح خان کو ڈیرہ فتح خان(تونسہ شریف) اور چھٹہ خان کو کوٹ چھٹہ کے نام سے منسوب کر کے تقسیم کر دیا۔

ڈیرہ جات بھی بلوچ کنفیڈریشن کا حصہ تھا۔ جس کا مرکز ریاست قلات (بلوچستان)سے تھا۔ بلوچ کنفیڈریشن کا سربراہ خان آف قلات خود تھا۔ تاریخی طور پر خان آف قلات کے زیرسایہ تمام بلوچ ریاستیں آتی تھیں۔ جن میں ریاست مکران، ریاست خاران، ریاست لسبیلہ، ریاست حیدرآباد، ریاست میرپور خاص، ریاست خیرپور، ریاست ٹنڈو محمد خان، ریاست چانڈکا (موجودہ لاڑکانہ)، خوشاب اور ڈیرہ جات کی ریاستیں شامل تھیں۔ وادی سندھ اور پنجاب کی بلوچ آبادیوں کو پنجاب میں سکھ سلطنت کے بانی مہاراجا رنجیت سنگھ سے خطرہ لاحق تھا۔ سکھ فوج، بلوچ علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ اور خان آف قلات ان بلوچ ریاستوں کے دفاع کے لئے ہروقت تیار رہتےتھے۔ جب خوشاب میں قائم سردارجعفرخان بلوچ کی ریاست پر رنجیت سنگھ نے رات کے اندھیرے میں اچانک حملہ کرکے پنجابی حکمران نے جنگی روایات کی خلاف ورزی کی ۔ کیونکہ جنگ میں پیشگی اطلاع دی جاتی ہے۔ تاہم اس حملے کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ تو خان آف قلات کی کمک بروقت نہیں پہنچ سکی تھی۔ جبکہ موجودہ میانوالی میں آباد اعوان قبیلے بھی بلوچوں کے اتحادی تھے۔ واضح رہے کہ اعوان نَسلاً عرب ہیں۔ اسی طرح پوٹھوہار کے عباسی اور راجپوت بھی بلوچوں کے اتحادی تھے۔ عباسی بھی عرب نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ رنجیت سنگھ سے اعوان، عباسی اور راجپوت بھی نالاں تھے۔ پنجابی ایک جاٹ نسل ہے۔ پنجاب میں یہ جٹ مشہور ہیں۔

جب خوشاب حملے میں خوشاب کے سربراہ سردار جعفرخان بلوچ کوشکست ہوئی تو اس فتح کا پنجابی پندرہ دن تک جشن مناتے رہے۔ سردار جعفر خان بلوچ کی تلوار آج بھی پنجاب میوزیم میں رکھی ہوئی۔ وہ ایک بہادر جنگجو سردار کہلاتے تھے۔

جب انگریز اس خطے میں آئے۔ انہوں نے ڈیرہ جات پر قبضہ کرلیا۔ مگر ڈیرہ جات کے کوہ سلیمان بیلٹ کے بلوچ قبائل نے سردار کوڑا خان قیصرانی،سردار مصری خان کھیتران،سردار قادر بخش مسوری اور میر مہر اللہ خان مری کی قیادت میں انگریزوں سے جنگ جاری رکھی۔ جس میں بے شمار بلوچ شہید ہوئے ۔ بلآخر1887کو انگریز نے ڈیرہ جات پر قبضہ کرلیا۔

ون یونٹ کے خاتمے کے بعد جب صوبوں کی سرحدی حد بندی ہورہی تھی تو موجودہ پنجاب میں تمام بلوچ ریاستوں کو زبردستی پنجاب میں شامل کردیا گیا۔ جبکہ کچھ علاقے موجودہ خیبرپختونخوا میں شامل کردیے گئے۔ جن میں ڈیرہ اسماعیل خان سرفہرست ہے۔ جس پر بلوچوں نے سخت احتجاج کیا اور کہا کہ ان کا پنجابیوں سے نہ زبان کا رشتہ ہے اور نہ ثقافت کا رشتہ ہے۔ لہذا بلوچ سرزمین کو صوبہ بلوچستان میں شامل کیا جائے۔ مگر پنجابی بالادست قوم نے طاقت کا مظاہرہ کیا۔ پورے ملک میں ہنوز پنجابی بالادستی جاری ہے۔

صوبہ پنجاب کی موجودہ آبادی بارہ کروڑ سے تجاوز کرگئی۔ یہ دنیا میں دس کروڑ آبادی کے آٹھ ممالک سے زیادہ نفوس پرمشتمل ہے۔ پنجاب کی آبادی کو مزید صوبوں میں تقسیم کرنا ناگزیر ہے۔ یہ سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر ضروری ہے۔ تاکہ موجودہ صوبہ پنجاب کے دیگر پسماندہ علاقوں کی پسماندگی دور ہوسکے۔ پنجاب کی تقسیم ملکی مفاد میں ہے۔ موجودہ صوبہ پنجاب میں الگ الگ زبان، ثقافت اور نسل کے لوگ آباد ہیں۔ ان کی بھی پنجابیوں کی طرح ایک الگ شناخت ہے۔ جو ایک تاریخی حقیقت ہے۔

جب تقسیم برصغیر کے بعد آدھا پنجاب انڈیا کے پاس چلا گیا جبکہ آدھا پنجاب پاکستان کے حصے میں آیا جو اصل پاکستانی پنجاب موجودہ وسطی پنجاب تک محدود تھا۔ اس دوران پنجاب کو صوبہ کا درجہ دیا گیا تو دیگر غیر پنجابی علاقوں کو بھی پنجاب میں شامل کردیا گیا۔ ان علاقوں کے الحاق کے خلاف بعض علاقوں میں سخت احتجاج بھی کیا گیا۔ جس میں بہاولپور اور ڈیرہ جات کے لوگ شامل تھے۔ وہ پنجاب میں شامل ہونا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن انہیں زور و زبردستی پنجاب میں ضم کیا گیا۔ آج کا پنجاب بہاولپور، ملتان سے لیکر ڈیرہ جات سے ہوتا ہوا بالائی پنجاب (پوٹھوہار) تک پھیلا ہوا ہے۔ جو مختلف زبانیں بولنے والی اقوام کی سرزمین ہے۔ جہاں سرائیکی، بلوچی اور پوٹھوہاری بولنے والوں کی کثیرتعداد آباد ہے۔ اور وہ آج بھی اپنے اپنے علاقوں کوالگ الگ صوبے بنانے کی تحریک چلارہے ہیں۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد انڈیا نے اپنے پنجاب کو پانچ (یونٹوں) صوبوں میں تقسیم کر دیا جن میں پنجاب، دہلی، ہریانہ، اتراکھنڈ اورچندی گڑھ صوبے شامل ہیں۔ لیکن پاکستان نے اس کے برعکس کیا جو پنجاب کا حصہ یا علاقہ نہیں تھا اس کو بھی زبردستی پنجاب میں شامل کردیا گیا۔ آج بھی سرائیکی، بلوچی اور پوٹھوہاری بولنے والے پنجابی بولنے والے سے الگ شناخت مانگتے ہیں۔ کیونکہ وہ ایک الگ تاریخ، ثقافت، زبان اور سرزمین رکھتے ہیں۔ ان کی اپنی ریاستیں تھیں۔ جو کبھی بھی پنجاب کا حصہ نہیں رہیں۔ وہ آج بھی چاہتے ہیں ان کی سرزمین پر ان کی شناخت ہو اور وہ اپنی شناخت پر فخر بھی کرتے ہیں۔

ڈیرہ جات کی ازسر نو حد بندی کی ضرورت ہے۔ یہ ان کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ یہ سرزمین بلوچوں کی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ ڈیرہ جات بلوچستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ اور رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔