کوفہ سے واپسی کے بعد کیا ہوگا؟ – انور ساجدی

485

کوفہ سے واپسی کے بعد کیا ہوگا؟

تحریر: انور ساجدی

دی بلوچستان پوسٹ

جو سلوک اسلام آباد کی سڑکوں پر کمسن بچیوں، نوجوان بیٹیوں، بزرگ ماﺅں اور لانگ مارچ کے دیگر شرکاء کے ساتھ ہوا اس کی پہلے سے توقع تھی کیونکہ کوفہ کا میدان ہو، دمشق کا بازار ہو اور وقت کے حکمران مظلوم خواتین کے سروں کی چادریں نہ کھینچیں اور ان کے نحیف و نزار جسموں سے ان کا لباس تار تار نہ کریں تو رعونت اور طاقت کا احساس کیسے اجاگر ہوگا۔ ماہ رنگ کی قیادت میں خواتین مارچ کے ساتھ ہونے والا سلوک بربریت تو ضرور ہے لیکن اس سے بے لباس اور بے نقاب ریاست کے حکمران ہوئے ہیں۔ ماہ رنگ ایک نہتی لڑکی ہے اس کے ساتھ جانے والے بھی نہتے تھے ان کا احتجاج پرامن تھا انہوں نے تو کسی کو پتھر بھی نہیں مارا تھا اس کے باوجود ان پر و حشیانہ انداز میں ٹوٹ پڑنا اسلام آباد کی سڑکوں کو یکطرفہ میدان جنگ بنانا حکمرانوں کے نزدیک اچھی حکمت عملی اور طاقت کا درست استعمال ہوگا لیکن وہ نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا کیا ہے اور اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔ بلوچ خواتین تو انصاف مانگنے کوفہ گئی تھیں وہ مظالم کے خلاف احتجاج کرنے گئی تھیں لیکن جواب کیا ملا یہ ساری دنیا پر ظاہر ہوگیا۔

حکمران بتائیں کہ اگر پاکستان ایک فیڈریشن ہے اس کی چار وحدتیں ہیں اور اسلام آباد سارے فیڈریشن کا دارالحکومت ہے تو کیا وجہ ہے یا کیا جواز ہے کہ فیڈریشن کے ایک یونٹ کی بیٹیوں کو اس کیپٹل میں داخل ہونے سے روک دیا جائے اور ان پر شیلنگ کی جائے۔ پانی کی توپوں کا استعمال کیا جائے۔ پولیس کے ذریعے ان کی چادریں کھینچی جائیں اور عزت مآب بیٹیوں کا لباس تار تار کیا جائے۔ اس عمل سے حکمرانوں نے یہ بات کیا ہے کہ یہ ملکی وحدت کا مرکز نہیں ہے۔ یہ فیڈریشن کا صدر مقام نہیں ہے بلکہ یہ جدید امپیریلزم کا مرکز اور اس کے حکمرانوں کا شہر ہے۔ یہاں رہنے والے حکمران اپنی ہی ریاست کے شہریوں کے درمیان عداوت،تفاوت اور تفریق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وحدت کے باقی تین حصے دراصل غلام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے لوگوں کی حیثیت غلاموں سے زیادہ نہیں ہے۔ اس ظالمانہ سوچ کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ سندھ بلوچستان اور پختونخوا کے وسائل تو اچھے لگتے ہیں لیکن وہاں کے شہری ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ وہ حکمرانوں کے نزدیک کمتر اور نفرت کے قابل ہیں۔ یہ جو سوچ ہے وہ نئی نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد جب مغربی پاکستان نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو حکمرانوں نے اکثریتی بنگالی عوام کو جاہل، پستہ قد اور ناکارہ قرار دیا تھا۔ ان کو کبھی برابر کا شہری نہیں سمجھا۔ ان کی پٹ سن کی دولت لوٹ کر مغربی پاکستان کی جعلی اشرافیہ کے عیش و آرام کا بندوبست کیا گیا۔ ان کے ساتھ یہ ظلم بھی روا رکھا گیا کہ ڈیڑھ بنگالی مغربی پاکستان کے ایک فرد کے برابر ہوتے ہیں۔ پیریٹی کا نظام یہی تھا۔ ان مظالم اور غیر حقیقی رویہ کا کیا نتیجہ نکلا جب بنگالیوں کو 1970 کے پہلے عام انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملا تو انہوں نے اپنی اکثریت ثابت کر دی۔ بجائے کہ حکومت ان کے حوالے کی جاتی ریاست ان پر قہر بن کر ٹوٹ پڑی۔ الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود انہیں اقتدار منتقل نہیں کیا گیا بلکہ مارچ 1971 میں ان کے خلاف ایک خون ریز آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ جدید انسانی تاریخ میں کسی جمہوری ملک میں سب سے بڑی خون ریزی تھی۔ اس کا نتیجہ 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں نکلا۔ مغربی پاکستان کے حکمرانوں کا غرور اس وقت خاک میں مل گیا جب ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے اپنے کلاس فیلو اور انڈین فوج کے جی او سی جنرل اروڑہ کے آگے ہتھیار ڈالے۔جنرل نیازی کا ہتھیار ڈالتے وقت چھینا گیا پستول آج بھی ڈیرہ دون کے مغربی میوزیم میں موجود ہے۔

ہمارے حکمرانوں نے اپنے ہی ملک کے ایک حصے کو بنگلہ دیش بنا دیا۔ اگر انہیں اقتدار اور احترام دیا جاتا تو شرمندگی کا یہ مقام پیدا نہ ہوتا آج بنگالی عوام پاکستانیوں سے کہیں آگے ہیں۔ گزشتہ روز کی ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش نے ایک سال میں دنیا کو 10 ارب ڈالر کی ہوزری برآمد کی۔ بنیان بیچنے کا یہ سب سے بڑا سودا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں نے طاقت کے استعمال اور رعونت کے باوجود اپنے ملک کو ترقی نہیں دی اور ان کی جابرانہ اور غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے وہ ساری دنیا سے پیچھے رہ گئے۔ اگر آج بلوچستان کو حقیر سمجھا جاتا ہے تو قصور اہل بلوچستان کا نہیں بلکہ حکمرانوں کی سوچ کا ہے اور کون اس ناانصافی کو مان سکتا ہے کہ آج اسلام آباد کی سڑکوں پر بلوچستان کی بیٹیوں کا لباس تار تار کریں لیکن خاموشی کے ساتھ ریکوڈک کا سونا،سوئی کی گیس اور سمندری دولت لے جائیں۔

حکمران سوچیں کہ بلوچستان کے لوگوں نے کیا کیا مظالم برداشت نہیں کئے ہیں اور کن کن وعدہ خلافیوں حتیٰ کہ قرآنی یقین دہانیوں کے توڑنے کے زخم سہے ہیں۔ اس کے باوجود نواب نوروز نے پہاڑوں سے اتر کر نام نہاد قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا لیکن ان کے ساتھ اور ان کے بچوں کے ساتھ آپ نے کیا سلوک کیا۔ شہید بگٹی تمام عمر ریاست کے ساتھ رہے لیکن آپ نے بمباری کر کے ان کے احسانات کا صلہ دیا۔ یعنی سقوط ڈھاکہ کے باوجود حکمرانوں کا طور طریقہ نہیں بدلا۔ وہ آج بھی طاقت کے زعم میں مبتلا ہیں لیکن سوچنا چاہیے کہ جو خواتین لانگ مارچ کے ذریعے فریاد لے کر آپ کے پاس گئی تھیں آپ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ وہ واپس اپنے بلوچستان کے مدینہ پہنچ کر تمہارے کوفہ اور اس کے حکمرانوں کے بارے میں کیا طرز عمل اختیار کریں گی۔ کیا اپنی بے عزتی اور ہتک کے باوجود وہ گھروں میں بیٹھ کر کسمپرسی کی زندگی گزاریں گی۔ انکے باپ اور بھائی تو پہلے کھوچکے ہیں ان کے پاس زندہ رہنے کو رہا کیا ہے ؟ بچا کیا ہے؟۔ اگر کوئی ”بلوچ پیش مرگہ“ بن گیا تو اس کی بنیاد ڈالنے والے موجودہ حکمران ہوں گے اگر بلوچ خواتین نے پہاڑوں کا رخ کیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ سوچنے کی بات ہے کہ حکمرانوں نے نفرت اور عداوت سے کام لے کر جو عمل کیا ہے اس نے عملاً فیڈریشن کو زمین بوس کر دیا ہے۔ عملاً فیڈریشن ختم ہو گئی ہے۔ حکمران دیکھیں گے کہ بلوچستان کی خواتین کی تقلید میں پشتونخواہ اور سندھ کی خواتین بھی گھروں سے باہر نکل کر احتجاجی تحریک چلائیں گی۔

کامریڈ ماہ رنگ نے مظلوم خواتین کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔اگر سرکار یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنے پارلیمانی گماشتوں کے ذریعے صورتحال کو کنٹرول کرے گی تو یہ ان کی خوش گمانی ہوگی۔ آج سندھ کے مظلوم عوام کب تک سیاسی مافیاز اور سرکاردونوں کے بیک وقت مظالم زیادتی اور استحصال برداشت کریں گے یا بلوچستان کے لوگ کا کاسہ لیس الیکٹبلز چاپلوس سرداروں اور قصیدہ خوان سیاست دانوں اور سرکار کے گٹھ جوڑ کو درگزر کریں گے۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ جگہ جگہ احتجاج ہوں گے لانگ مارچ ہوں گے اور مظلوم لوگ مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکلیں گے۔ اگر سڑکوں پر آنے کے راستے بند کر دئیے گئے تو بغاوتیں ہوں گی۔ سرکشی ہوگی اور لوگ قلم اور کتاب کے بجائے بندوق اٹھائیں گے۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ عوام کے ساتھ کوئی راہ کوئی تدبیر نکالی جائے۔ ان کی ناموس، عزتوں اور بنیادی حقوق کا احترام کیا جائے کیا ضرورت ہے کہ اپنی ریاست کو جان بوجھ کر مصیبتوں میں ڈالا جائے یہ کونسی عقلمندی ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔