کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5278 ویں روز جاری رہا۔
اس موقع پر بی ایس او کے مرکزی جنرل سیکریٹری صمند بلوچ، زونل سیکریٹری کبیر بلوچ، جوائٹ سیکریٹری مقبول بلوچ اور دیگر نے آکر اظہار یکجہتی کی ۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پچھلے کئی مہینوں سے ریاستی اہم اداروں کی حرکات پارلیمانی پارٹیوں کی بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان جلد بلوچستان میں کوئی اہم آپریشن کرنے والا ہے، جولائی کے شروع میں صوبائی حکومت کے زیر صدارت ایک اعلی اجلاس ہوا جس میں بلوچستان میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا گویا کہ 2004 سے ہی آپریشن اور بلوچ نسل کشی زوروں سے جاری ہے لیکن یہ آپریشن سیاسی جہد کاروں طلبا تنظیموں کے خلاف آنے والے الیکشن کی راہ ہموار کرنے کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے جس کی تیاری فوج ایف سی کر رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستانی معاشی سکت اتنی نہیں کہ بلوچستان کے طول و عرض میں بہ یک وقت اتنا بڑا آپریشن کر سکے مگر کچھ تو ہے جو پردہ دار ہے شاید کچھ علاقے مکران جھالاون کو اپنا ہدف بنا کر کاروائیاں کیا جائے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج بلوچ جہاں بھی آباد ہے بغیر کسی سیاسی ڈسپلن کے تحت نہیں مگر قومی تحریک کا خواہاں ضرور ہے اب امر اس بات کی ہے کہ سمندر پار بلوچوں کو یکجا ہونا چاہیے اور یہ ذمہ دار میرے عقل ناقص کے مطابق حقیقی جہدکاروں کی بنتی ہے کہ سب کو اکھٹا کریں اور ایک منظم ڈسپلن کے سانچے میں ڈال کر تحریک کو عالمی دنیا میں مزید منظم کریں کیونکہ سہی وقت پر سہی فیصلہ اہمیت کا عامل اور سود مند ثابت ہوتا ہے۔