نیشنل پارٹی کے زیراہتمام پروفیسر غلام رسول خالد کی یاد میں تعزیتی ریفرنس نیشنل پارٹی کے ریجنل سیکرٹریٹ میں زیر صدارت پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ منعقد کیا گیا جس میں نیشنل پارٹی کے کارکنوں کے علاوہ علمی شخصیات نے شرکت کی اور پروفیسر غلام رسول خالد کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اظہارِ خیال کیا۔
ریفرنس سے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر غلام رسول خالد ایک عہد کا نام تھا اور یہ عہد اپنے علمی اور سیاسی کمنٹ منٹ کے سبب ہمارے سر پر اپنا سایہ ڈالتا رہے گا اس عہد کو یوں بھلانا ممکن نہیں ہے، انہوں نے کہاکہ پروفیسر زیادہ تر وقت پڑھائی میں گزارتے تھے، اہنی زندگی میں انہوں نے وہ ایک خاندان کے علاوہ سیاسی کارکنوں اور طلبہ و تعلیمی آفسران کے لیے رول ماڈل تھے زندگی میں کسی سے کچھ طلب نہ کرتے البتہ کتاب طلب کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے، 88 سال عمر کے باوجود ان کی صحت میں کوئی کمزوری پیدا نہیں ہوئی انہوں نے بلا کی یاداشت پائی تھی، اپنی زندگی میں ان جیسا فلاسفر نہیں دیکھا انہیں تاریخ ازبر تھا وسیع مطالبہ کے سبب ان کے سوچنے کا انداز وسیع تھا بد قسمتی سے انہوں نے اپنے علم کو لکھت کے طور پر محفوظ نہیں کیا یا ہماری کمزوری تھی کہ ہم نے ان سے استفادہ نہیں کیا، زندگی کے ہر میدان میں خواہ علمی، سیاسی، سماجی انہوں نے کبھی کسی سے بغض نہیں رکھا اپنے شاگردوں کے متعلق معیوب باتوں پر وہ ہمیشہ پریشان رہتے تھے، ہمیں چاہیے کہ ان کے نقش قدم پر چلیں اور سماجی تبدیلی کو اپنے حق میں موڑنے کے لیے علمی ماحول اپنائیں۔
ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر غنی پرواز نے کہا کہ غلام رسول خالد کا شمار انسانوں کے اس گروہ سے تھا جو ہمیشہ یاد رہتے ہیں، وہ اخلاقی طور پر ایک عظیم اور علمی حوالے سے بڑے آدمی تھے، بے شان تھے ان میں غروو تکبر جیسی کوئی شے موجود نہیں تھا، عام لوگوں کے ساتھ عام زندگی گزاری، ایسی بے شانی اور سادگی علم نی عظمت کو ظاہر کرتی ہے، یورپ کے لوگوں میں شان اور غرور نام کی چیز نہیں محسوس ہوتا تھا کہ غلام رسول خالد اس خطے کے انسان نہیں تھے، مستحکم علمی، بنیاد کی وجہ سے وہ طلبہ میں ہمیشہ پاپولر رہے، ان کے شاگردوں میں درجنوں آج بڑے محکموں میں بڑے آفیسر بنے ہوئے ہیں۔
تعزیتی ریفرنس سے نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی، نیشنل پارٹی مکران ریجن کے سیکرٹری ابوالحسن اور ادیب و دانشور پروفیسر عبدالصبور نے کہا کہ بلوچ سیاسی و علمی تاریخ میں پروفیسر غلام رسول خالد ایک رول ماڈل ہیں، ان کی زندگی ایک جداگانہ طرز پر رہی۔ انہوں نے زندگی میں تلخ ترین ایام گزارے اور مصائب کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا مگر عملی زندگی میں تکالیف کے باوجود ان کے عزم میں تزلزل نہیں آیا، وہ سیاسی چپقلش اور دیگر عوامل میں کبھی فریق نہیں بنا بلکہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کے اصول پر زندگی گزاری، آخری عمر تک سماج کے ہر طبقے میں ان کا بھرم بھرپور رہا بطور انسان ان میں شاید انسانی کمزوریاں تھیں لیکن وہ بطور معلم اور سیاسی استاد وہ کبھی کمزور نہیں رہے اور نا ان میں خامیاں دیکھی گئیں۔
انہوں نے کہاکہ پروفیسر غلام رسول خالد کی زندگی مختلف جہتوں میں متنوع شخصیت کی حامل تھی وہ ہر کسی کے ساتھ انہی کی رنگ میں ہوتے انہوں نے کبھی شان نہیں کیا اور نا غرور سے ان کا پالا تھا حالانکہ وہ ایک ایسی طاقت ور شخصیت تھے کہ ہر شخص ان کی قدر کرتا اور احترام دیتا، ان کا رویہ کبھی ایک ایسی شخصیت کا نہیں رہا جو دوسروں کو علمی طور پر کم درجے کا خیال کرے بلکہ مشفقانہ اور پدرانہ ہمدردی کے ساتھ پیش آتے، دوسروں کی خوشی میں خوش اور پریشانی پر. پریشان رہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر غلام رسول خالد اس عہد کے ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے اب ہمیں ان جیسی شخصیت کے پیدا ہونے کے لیے زمانوں کا انتظار کرنا پڑے گا۔