پاکستان کے نامور صحافی حامد میر نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بیان قلمبند کرنے کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچوں کو ڈیپورٹ کرنے حوالے سے ریاست پاکستان نے بلوچوں کو یہ پیغام دیا ہے ہے کہ بلوچستان ایک الگ ملک ہے اور اگر انھیں دوبارہ اسلام آباد آنا ہے تو آئی جی اسلام آباد سے پوچھ کے آنا ہے ورنہ ان کو ڈیپورٹ کر دیں گے۔
بیان جاری کیا گیا کہ تمام خواتین کو رہا کر دیا جب کہ تین وفاقی وزرا اور آئی جی نے پریس کانفرنس کے دوران بھی یہی کہا کہ تمام خواتین کو رہا کر دیا لیکن مجھے معلوم ہوا کہ کوئی خاتون رہا نہیں ہوئی۔ جب میں ویمن اسٹیشن گیا تو وہاں بچیوں کو گھسیٹ کر لایا جا رہا تھا۔ پولیس افسران خواتین کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے، جب ان کو روکنے کی کوشش کی تو میرا موبائل چھین کر میرے ساتھ بد تمیزی کی، پولیس والے زبر دستی خواتین کو بسوں میں ڈال رہے تھے، میرا سوال ہے ریاست سے کہ کسی ملک سے کس کو ڈیپورٹ کیا جاتا ہے؟ کہ کیا یہ افغان مہاجرین ہے جو زبردستی غیر قانونی طریقے سے پاکستان آئے تھے جنھیں آپ ڈیپورٹ کر رہے تھے ؟ پاکستان سے کہ اگر بلوچستان کی خواتین فیڈریشن سے اپنی امیدیں لگا کر اسلام آباد آئی ہیں اور ریاست انھیں افغان مہاجرین کی طرح ڈیپورٹ کرنے لگے تو یہ بلوچوں کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ بلوچستان ایک الگ ملک ہے اور اگر انھیں دوبارہ اسلام آباد آنا ہے تو آئی جی اسلام آباد سے پوچھ کے آنا ہے ورنہ ان کو ڈیپورٹ کر دیں گے۔