ناکو میار – سفر خان بلوچ (آسگال)

386

ناکو میار

سفر خان بلوچ (آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

دسمبر کی یخ بستہ سرد صبح شہید فدا چوک پر ایک بوڑھا شخص بلوچی چادر پہنے، دھندلی آنکھوں میں آنسو لئے ایک تصویر پر لگی دھول صاف کرتے ہوئے بلوچی زبان میں کہتے ہیں کہ تصویر تو صاف کرلیا مگر اُسے کہاں رکھوں کہ سکون ملے کیونکہ جہاں بھی رکھتا ہوں مجھے یہی لگتا ہے تصویر میرے طرف دیکھ کر مجھ سے مخاطب ہے ۔

یہ شکستہ الفاظ ضعیف العمر ناکو میار کے ہیں جو تربت فدا شہید چوک پر مزاحمت کے حالیہ ابھار میں شامل ایک کردار ہے۔ ناکو میار تربت سے شال اور وہاں سے اسلام آباد تک جاری لانگ مارچ میں اپنے نوجوان جبری گمشدہ بیٹے کا تصویر لئے، اس کی بازیابی کے لیے منتیں کررہا ہے۔

ناکو میار نے اپنی زندگی میں بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور زندگی کا بیشتر حصہ پہاڑوں میں مالداری کرتے ہوئے گزارا ہے۔ ناکو جو چٹان کا حوصلہ رکھتا ہے لیکن بیٹے کی جدائی نے اُسے اندر سے توڑ دیا ہے اور وہ ہر انسان سے چھوٹی سے امید دیکھ کر بچوں کی طرح رونے لگتا ہے اور منتیں کرتا ہے۔ ناکو میار جو پہاڑوں کا ایک آزاد انسان تھا اُس نے اپنی زندگی میں کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ وہ اپنے نوجوان بیٹے کی بازیابی کے لئے تربت سے شال تک کی سڑکوں پر ٹھوکریں کھاتا رہے گا۔

ناکو میار نے اپنی زندگی پہاڑوں کے بیچ اپنے بھیڑوں کو چراتے ہوئے آزاد انسانوں کے گیت گائے تھے، گیت جو زندگی کی حرارت سے لبریز تھے۔ اس کے پاس سینکڑوں بھیڑ بکریاں تھیں،ایک خوشحال زندگی بسر کررہا تھا، زہیروک کا ورد کرتا ہوا اپنے آپ کو دھن اور راگ کی دنیا کے سپرد کردیتا تھا۔

آزاد فضا کے باسی ناکو میار کی زندگی کا دھارہ اس وقت بدل گیا جب اُسے جبراً نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور اُس کے بیٹے کی جبری گمشدگی نے زندگی کی بچی کچی حرارت بھی ختم کردی اور زندگی کی وحشتوں کا سامنا کرنے کے لئے احساس کی حَس سے محروم شہروں کے حوالے کردیا ۔

ناکو میار بیٹے کی جبری گمشدگی کو اِس دل شکستگی سے بیان کرتے ہیں کہ “ میرا بیٹاافسر دکھائی دیتا ہے، معصوم ہے، ابھی بچہ ہے، اسکاشناختی کارڈ بھی نہیں بنا صرف ب فارم ہے، میں جنگل کا واسی ہوں بہت تکڑا ہوں اور خواری کر سکتا ہوں لیکن میرا بیٹا تو اپنے گھر کا شہزادہ ہے ہم اُسے پانی بھی خود پینے نہیں دیتے ہمہیں وہ اتنا عزیز ہے ۔

ناکو میار پہاڑی دروں سے گرے زمران کا رہائشی ہے۔ انہوں نے اپنے زندگی کے بیشتر ایام گلہ بانی و چرواہی میں گزارے ہیں۔ انہیں زامران سے پاکستان کے آرمی نے جبراً نقل مکانی پر مجبور کیا تھا اور وہ بلیدہ میں رہائش پذیر ہوئے ۔ بلیدہ میں زندگی بسر کرنا، اُن کے لئے نیا تجربہ تھا کیونکہ وہ پہاڑوں کی زندگی سے آشنائی کے بعد شہری زندگی سے آشنا نہ ہو پائے ۔

ناکو میار جنگ زدہ بلوچستان میں جبر کے خلاف سیاسی مزاحمت کے حالیہ ابھار کا حصہ ہیں جو لانگ مارچ کی صورت میں مکران سے نکل کر جہلاوان ؤ سراوان میں پڑاؤ کرتے ہوئے شال کی سرزمین پر پہنچ کر ریاست کے بہرے حکمرانوں کو اپنے ناتواں آوازوں سے جھنجھوڑنے کی جسارت کرتے رہے اور اب اقتدار کے مرکز اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہیں۔

ناکو میار نے اپنے زندگی میں سب سے بڑے شہر کی زیارت کیا وہ تربت تھا اور شال ؤ سلام آباد سے وہ آشنا نہ تھے، شاید کبھی ریڈیو کی برقی لہروں سے اِن شہروں کے نام سُنے ہونگے لیکن ناکو خود اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی سترہ یا اٹھارویں صدی کی زندگی گزار رہا تھا ۔

ناکو میار کی ہستی کا سبب جوانسال بیٹا فتح تھا جسے اُس کے بڑھاپے کا سہارہ بننا تھا لیکن بلوچ انسرجنسی کے انسداد کے لئے بنائے گئے پالیسیوں کا شکار بن گئے اور جبری گمشدہ کردئے گئے اور جنگل کے باسی کو کنکریٹ کے جنگل سے روبرو کردیا گیا۔

ناکو کی کہانی، جسے وہ بے بسی سے بیان کرتے ہیں، اُن کا جبری گمشدہ بیٹا ہونہار طالب علم ہے، صبح وہ خود پڑھتا ہے اور شام کو دوسرے بچوں کو پڑھاتے تھے۔ ناکو نے اب قسم کھائی ہے کہ میرے بیٹے کو بازیاب کیا جائے، میں زندگی بھر اُسے پڑھنے نہیں دونگا اور اُسے لے کر پہاڑوں کے آغوش زندگی گزارنے چلا جاؤں گا۔

بلوچستان، جہاں زندگی کے رمق سے لبریز لوگ کہانیاں بن چکے ہیں اور یہ صرف ناکو میار کی کہانی نہیں ہے بلکہ بلوچ زمین کا ہر گھر دشمن کے لگائے گئے زخموں کی داستانوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔سیاسی مزاحمت کا بیرک تھامے ہوئے اس لانگ مارچ میں بلیدہ کا وہ نوجوان بھی شامل ہے جو والد کی جبری گمشدگی کے وقت ایک بچہ تھا، وہ والد جان محمد کا تصویر دیکھتے ہوا بڑا ہوا اور سمی کی نقش قدم پر چل کر ریاست سے جواب طلب کررہا ہے ۔

سائرہ کی کہانی جنگ زدہ بلوچستان کے دوسرے بچوں کی داستانوں سے مختلف نہیں ہے، لینن کی طرح کالا کوٹ پہن کر وکیل بننے کی خواب بُن رہا تھا لیکن بھائیوں کے جبری گمشدگی نے اس کو اسلام آباد کی سرد ہواؤں کے دوش مزاحمت کرنے کا راستے پر پہ لاکر کھڑا کیا ہے اور یونیورسٹی کے سرسبز لان میں اپنے ہم مکتبوں کے ساتھ عالمی قانوں کے گوشوں پر بحث کرنے کے بجائے، کمیشنوں، عدالتوں اور احتجاجی کیمپوں میں حاضری دینے میں زندگی گزر رہی ہے ۔

کانک سے بوڑھی ماں چھڑی کو سہارہ بنا کر شال کی یخ بستہ سردی میں دھرنے میں اپنی فریاد لے کر شامل ہوئی کہ شاید اُس کے بیٹے سید اسلم شاہ کے بازیابی کا کوئی در کھل جائے ۔

بیٹے کی جبری گمشدگی کے درد کی شدت ماں کے چہرے سے عیاں ہے، جس نے اپنے بیٹے کی تصویر ایک ماچس کے ڈبہ میں محفوظ کی ہے اور صحافی نے جب اُس سے پوچھا کہ کیا یہ آپ کے بیٹے کی آخری تصویر ہے، ماں نے دل پر پتھر رکھ کر کہا کہ نہیں یہ میری آخری اولاد ہے ( باقی بچوں کو پاکستان کے ازیت خانوں میں تشدد کرنے کے بعد گولیوں سے چھلنی کرکے لاشیں ویرانوں کے سپرد کردئے گئے )

ناکو میار اس بڑے داستان کا ایک کردار ہے جو بلوچستان میں وقوع پزیر ہورہا ہے، ناکو نے اپنے دکھ کو بانٹنے کے لئے فدا شہید چوک کا رُک کیا ہے لیکن ایسے سینکڑوں ناکو میار اس کرب سے گزر رہے ہیں جِن کے داستانوں کو ابھی زباں نہیں ملی ہے ۔

اِن کہانیوں کو لکھتے ہوئے کبھی کبھی الفاظ بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور کہانی کار خود مخمصے کا شکار ہوجاتا ہے۔ کہانی کار خود اِن کہانیوں کا حصہ ہے جو بلوچستان نامی بڑے کینوس میں بکھرے پڑے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔