لمہ کریمہ۔۔ آپکا شکریہ! ۔ ناظر نور

297

لمہ کریمہ۔۔ آپکا شکریہ!

تحریر : ناظر نور
دی بلوچستان پوسٹ

بانک!
تین سال بعد آپ پر لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ مگر سوچتا ہوں کہ کیا در اصل زبان بھی کوئی ایسی شفاف یا آزاد شے ہے جو ہر کرب، ہر حیرانی، ہر رنج کا اظہار ویسے ہی کر سکے جیسے کہ ہم اُسے محسوس کرتے ہیں۔ سو امکان ہے کہ میرے الفاظ آپکی شخصیت اور میرے اندوہ کے ساتھ انصاف نہ کرپائیں۔ گویا میں تین سال تک یہ سوچ کر بھی خاموش رہا کہ قلم اٹھا کر میں آپ کے بارے میں کیا ہی لکھ پاؤں گا۔ یہ یقیناََ کسی قصیدے کا کمال نہیں بلکہ انسان کا اپنا کردار ہے جو اُسے اس قدر بلند اور خوبصورت بناتا ہے کہ وہ جانے کے بعد بھی سماج میں ایک استعارے کی صورت روشن رہتا ہے۔ ایسا استعارہ جو الفاظ سے ماورا زندگی اور مزاحمت کا اظہار ہو۔

بانک!
ہمارا تعلق غلامی کی اُس نسل سے ہے جس نے اپنے جوار میں نہ صرف مزاحمت کو نکھرتے دیکھا بلکہ کٹھن مسافتیں، بچھڑتے ساتھی، طویل راہیں منتظر مگر روشن آنکھیں بھی دیکھیں۔۔۔۔۔ مگر اِن تمام تر کرب انگیز تجربات کے باجود ہمارے لیے بلوچستان کی خوبصورتی ماند نہ پڑی۔ یا ممکن ہے کہ ہمارا موجودہ تصور حُسن بھی اِسی جنگ کا نتیجہ ہو۔ شاید یہ بنجر مگر دلفریب زمین ہمارے شہدا اور آپ جیسی کرداروں کی وجہ سے اس قدر حسین نظر آتی ہو۔

لمہ کریمہ!
ہمارے یہاں روایت ہے کہ قریبی ساتھی کے کوچ پر رویا نہیں کرتے کہ اشک خوابوں کا راستہ روک لیتے ہیں۔ مگر آپ کے جانے کے بعد کوشش کرنے کے باوجود میں اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکا. شاید یہی وجہ ہے کہ اِن تین سالوں میں آپ کا دیدار نہ ہوا۔ سوچتا ہوں کہ انقلاب کتنا ہی خوبصورت، کتنا ہی روشن کیوں نہ ہو، اُس کی اپنی اذیتیں ضرور ہیں، اپنے غم ضرور ہیں۔
دیدار جنگلانی تھا بوتگنت

آپ کو بہتر علم ہے کہ ہمارا سماج کن المیوں سے دوچار ہے۔ کالونائزیشن زمین یا مادیت سے زیادہ انسانی فکر کا مسئلہ ہے۔ ہمارے عمومی افکار، رویوں اور معملات میں وہ تمام خامیاں موجود ہیں جو کسی غلام قوم کی نفسیات کا حصہ ہوتی ہیں۔ ہم اپنے محسنوں پر ہمیشہ ہی برہم رہے ہیں۔ مگر اُن کےجانے کے بعد ہم یکسر مختلف باتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ شاید آپ کے ساتھ بھی ہمارے یہی معملات تھے۔ ہم نے آپ کو دیر سے پرکھا۔ مگر یہ بات ناقابل تردید ہے کہ آپ نے کالونیل تاریخ کی رد تشکیل کر کے تصور مزاحمت کو نئے معنی بخشے۔

مجھے فلسفے پر عبور حاصل نہیں کہ فلسفے کی روشنی میں آپکے طرز فکر پر لکھ سکوں اور سوشل میڈیا کے اِس بے ہنگم تقابلی عہد میں زیادہ سے زیادہ پسندیدہ تحریر لکھنے کا اعزاز حاصل کروں۔ میں آپکو صرف اس امید کے ساتھ یاد کررہا ہوں کہ آپ میری رہشون ہیں۔ آپ ہی کی بدولت میں سیاسی طالب علم کی حیثیت سے کردار ادا کررہا ہوں۔ آج میں آپ کے کردار پر لکھتے وقت آپ کو بلوچستان کی شاہراہوں پر دیکھ اور سن رہا ہوں۔

لمہ!
آج کیچ سمیت پورے بلوچستان نے آپکے نظریات کو اپنا لیا ہے۔ جہاں آپ تربت تا کراچی اور پنجگور تا کوئٹہ کی شاہراوں پر بلوچوں کی قیادت کرتی رہی ہیں۔ وہاں بلوچ خواتین آج بھی آپکی سوچ اور نظریات پر عمل پیرا ہو کر متحرک ہیں۔ آپکی آواز ایک بار پھر دنیا میں رہنے والی بلوچوں میں گونج رہی ہے جن کیلئے آپ نے جدوجہد کی تھی۔

ایک دن اتفاقاََ اماں جمیلہ سے بات ہوئی۔ باتوں باتوں میں انہوں نے کچھ اشعار پڑھے، جنہیں سُن کر میں دیر تک سوچتا رہا کہ عقیدت کا رشتہ بھی کتنا وسیع ہوتا ہے۔

دوست من ءَ دوست ءِ ھاترا دوست اِنت
دوست منی دوست ءِ دزگھار بیتہ

آپ کا شکریہ کہ آپ نے نہ صرف تاریک ترین ادوار میں آزادی اور برابری کا پرچم بلند کیا بلکہ اپنی جدو جہد سے بلوچ عورت کے توقیر بڑھا دی۔ آپ نے بلوچ قومی تحریک میں ایک خوبصورت باب کا اضافہ کرکے مزاحمت کی نئی راہیں ہموار کی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔