وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5255 دن ہوگئے، خاران سے سیاسی سماجی کارکن غلام محمد بلوچ، نور احمد بلوچ، سیف اللہ بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اس وطن نے ایسے کئی جانثار جوان مردوں کو اپنی آغوش میں پناہ دی ہوئی ہے جنہوں نے اس وطن کی خاطر جام شہادت نوش کیا ہے جنہیں دھرتی نے اپنے سینے میں جگہ دی ہے جن میں لہو کی خوشبو اور بادصبا اس امید کے ساتھ ہر دل ڈھرکنے کی کوشش کرتی ہے کہ ہر اس خواب خرگوش میں رہنے والے وطن دوست کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا جا سکے جسے اس مٹی پر ہونے والے مظالم وحشتوں کے متعلق کچھ خبر نہیں یہاں سب کی نظریں اس خطے کی سائل وسائل پر مرکوز ہیں کسی کو بلوچ قوم سے ہمدردی یا پیار نہیں خیرات بھی اسی خطے کی اور احسان بھی ان پر کہ بے بسوں کو مراعات دی جائیں گی تمام لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے گی ماضی کی گمشدگیوں سے اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دیا گیا کہ ان کی کوئی گارنٹی نہیں پچھلے 72 سالوں کے اندر کئی بلوچ پیر و ورنا مرد خواتین کو وقت کے فرعونوں نے گمنام کرکے ٹارچرسیلوں عقوبت خانوں کی زیب و زینت بنانے کی کوشش کی ان میں سے کئی زندگی کی بازی ہارکر ہمیشہ کے لئے اس دنیا فانی سے رخصت ہوگے متعدد زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ تمام ادوار میں بلوچ کو غلام سمجھ کر اس کہ خوب کھچائی کی گئی گزرتے گزرتے آخر وہ دن آن پہنچا کر جمہوریت کے علمبرداروں نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی تھی اور بلند بانگ دعویٰ کرتے کرتے یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے کہ ایک دفعہ پھر بلوچوں پر مشق کرنا شروع کردی پرانے فیصلوں کو روند کر ان پر اشتعال انگیزی کو تقویت دی گئی منافقت کا لباس اوڑھے زبان کے ان کردار فروشوں نے عمل سے کنارہ کشی اختیار کی بے سری آواز کے ان ٹھگوں نے یہ رٹ لگا رکھی تھی کہ کوئی بلوچ غائب نہیں ہوگا۔