ایک جانب تو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں ایک اور وقفے کے بارے میں کئی روز سے انتہائی سنجیدہ گفتگو کی اطلاعات کے ساتھ دونوں فریقوں کی جانب سے ایک اور جنگ بندی پر آمادگی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب جمعرات کے روز غزہ میں جنگ میں شدت آگئی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے انتہائی سخت بمباری کی جارہی ہے۔ جبکہ حماس تل ابیب پر راکٹ برسانے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسرائیل کی شمالی غزہ پر بمباری انتہائی شدید تھی۔ پھر بعد میں اسرائیلی طیاروں کا رخ وسطی اور جنوبی علاقوں کی طرف ہوگیا اور وہاں کے مکینوں کے مطابق دھوئیں کے بادل دور ہی سے دیکھے جا سکتے تھے۔
ادھر اسرائیل کے تجارتی دارالحکومت تل ابیب میں سائرن بجنے کی آوازیں گونج رہی تھیں اور فضاؤں میں وہ راکٹ پھٹ رہے تھے جنہیں اسرائیل کا دفاعی نظام روک رہا تھا۔ حماس کے مسلح ونگ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ راکٹ اسرائیل کی جانب سے شہریوں کو ہلاک کیے جانے کے جواب میں فائر کئے ہیں۔
حماس کے عسکریت پسندوں نے کہا کہ جنوبی غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے میں چار افراد ہلاک ہوگئے۔
حماس نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں بسام غبن بھی شامل ہیں جو کہ حماس کی طرف سے کریم شلوم کراسنگ کے غزہ کی جانب مقرر کردہ سینئر سرحدی اہلکار تھے۔
خبر رساں ادارے رائٹر نے اسرائیلی فوج کے ترجمان کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل اس واقعے سے واقف نہیں تھا۔
لیکن ایسے میں جبکہ حماس گروپ کے لیڈر عارضی جنگ بندی کی بات چیت کے لئے قاہرہ میں ہیں، ایسا لگتا ہے کہ حملے کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ تقریباً گیارہ ہفتوں کی جنگ ، عسکریت پسندوں کی حملہ کرنے کی صلاحیت کو تباہ کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یا ہو نے ایک بار پھر اسوقت تک جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے جب تک حماس کو تباہ نہ کردیا جائے جس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کرکے دو سو چالیس افراد کو یرغمال بنا لیا تھا اور بارہ سو لوگوں کو ہلاک کردیا تھا۔
وزیر اعظم نیتن یا ہو نے ایک ویڈیو خطاب میں حماس سے کہا کہ ہتھیار ڈال دو یا پھر مرنے کے لئے تیار رہو۔
حماس کا کہنا ہے کہ فلسطینی دھڑوں نے مشترکہ موقف اختیار کیا ہے کہ اسوقت تک قیدیوں یا تبادلے کے سمجھوتے کے بارے میں کوئی بات نہیں ہو گی جب تک کہ اسرائیل کی جانب سے بقول اسکے جارحیت بالکل روک نہیں دی جاتی۔
غزہ کے شمالی علاقے میں اسرائیلی سرحد کے نزدیک واقع جبلیہ شہر کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کا شہر دوسرے علاقوں سے مکمل طور پر کٹ گیا ہےاور اسرائیلی نشانہ باز ہر اس شخص پر فائرنگ کرتے ہیں جو بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک غزہ کے کوئی بیس ہزار مکین مارے جا چکے ہیں۔ جبکہ باور کیا جاتا ہے کہ مزید کئی ہزار۔ لاشیں، عمارتوں کے ملبے میں دبی ہوئی ہیں۔ اور غزہ کے تیئیس لاکھ مکینوں میں سے تقریباً سب ہی بے گھر ہو چکے ہیں۔
اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق غزہ کے نصف شمالی حصے میں آخری اسپتال بھی اب بند ہو چکا ہے اور زخمیوں کو لے جانے کے لئے کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔
اور ایسے میں جبکہ جنگ میں شدت آرہی ہے، جنگ میں ایک اور وقفے کے لئے سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں، وہائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے ایر فورس ون صدارتی طیارے پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ ہم کوشش کررہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے تصدیق کی ہے کہ یرغمالوں کی رہائی کے لئے مذاکرات ہو رہے ہیں لیکن نہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔