اسرائیلی فوج نے جمعے کو کہا کہ اس نے غزہ کی پٹی میں ایک زمینی کارروائی کے دوران غلطی سے تین اسرائیلی یرغمالوں کو ہلاک کر دیا ۔
فوج کے اعلیٰ ترجمان رئیر ایڈمرل ڈینیل ہگاری نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کو وہ یرغمال ملے مگر انہوں نے غلطی سے انہیں ایک خطرہ سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ آیا وہ اپنے اغوا کاروں سے فرار ہوئے تھے یا انہیں وہاں چھوڑ دیا گیا تھا۔
یہ ہلاکتیں غزہ شہر کے علاقے شجاعیہ میں ہوئیں، جہاں فوجی حالیہ دنوں میں حماس عسکریت پسندوں کے خلاف لڑ رہے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ فوج نے گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے اور وہ اس کی چھان بین کررہی ہے۔
ان اموات کا اعلان ایسے میں ہوا ہے جب ایک امریکی سفیر نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل حماس کے خلاف جنگ میں شدید جنگی کارروائیاں سمیٹنے کے کسی ٹائم ٹیبل پر گفتگو کر رہے ہیں ، اگرچہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ لڑائی مہینوں جاری رہے گی ۔
فلسطینی سیکیورٹی فورسز کی ممکنہ واپسی کا سوال
جیک سلیون نے محصور غزہ کے جنگ کے بعد کے مستقبل پر گفتگو کے لیے فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کی ۔
ایک سینیئر امریکی عہدے دار کے مطابق اس گفتگو میں فلسطینی سیکیورٹی فورسز کی واپسی شامل ہوسکتی ہے جنہیں حماس نے 2007 میں غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ان کی ملازمتوں سے نکال دیا تھا۔
فلسطینی سیکیورٹی فورسز کی ممکنہ واپسی کا خیال پیش کی گئی متعدد دوسری تجاویز میں شامل تھا۔ یہ بظاہر پہلا موقع تھا کہ واشنگٹن نے محصور علاقے میں سیکیورٹی کے اپنے وژن پر تفصیلات پیش کیں۔
امریکی اور اسرائیلی عہدے داروں نےکھلے بندوں اس بارے میں واضح بات نہیں کی ہے کہ اگر اسرائیل حماس کے کنٹرول کو ختم کرنے کا اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے تو غزہ کا انتظام کس طریقے سے چلایا جائے گا۔
غزہ میں فلسطینی سیکورٹی فورسز کے کسی کردار کی اسرائیل سخت مخالفت کرتا ہے جو وہاں ایک کھلے عام موجود گی بر قرار رکھنا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ جنگ کے بعد محمود عبا س کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی کو قدم جمانے کی اجازت نہیں دے گا۔
فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کا انتظام چلاتی ہے لیکن فلسطینیوں میں انتہائی غیر مقبول ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اسرائیل کی جانب سے عام شہریوں کی ہلاکتیں کم کرنے میں ناکامی اور غزہ کے مستقبل کے بارے میں اس کے منصوبوں پر مایوسی کا اظہار کیا ہے ، لیکن وائٹ ہاؤس اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل اور سفارتی طور پر اس کی بھر پور حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر ایک غیر معمولی حملے کے بعد غزہ میں شروع ہونے والی اسرائیلی کارروائی میں شمالی غزہ کا بیشتر حصہ زمین بوس ہوچکا ہے اور اس کی 23 لاکھ آبادی میں سے 80 فیصد کو اپنے گھر بار چھوڑ نے پڑے ہیں۔
بے گھر ہونے والے لوگ زیادہ تر جنوب میں واقع پناہ گاہوں میں منتقل ہو چکے ہیں اور انسانی ہمدردی کے ایک بحران کی حالت کا سامنا کر رہے ہیں۔
جمعرات کو جب صدر بائیڈن سے پوچھا گیا کہ آیا وہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل اس ماہ کے آخر تک اپنی فوجی کارروائیاں سمیٹ لے تو انہوں نے کہا کہ ،”میں چاہتا ہوں کہ وہ اس پر مرکوز رہیں کہ عام شہریوں کی زندگیاں کس طرح بچائی جاسکتی ہیں۔ حماس کا تعاقب کرنا ختم نہ کریں ، لیکن مزید محتاط رہیں۔”